آج سے کئی دہائیاں قبل کی بات ہے۔ دوسروں سے رابطے کا ذریعہ صرف خطوط بھیجنا اور وصول کرنا ہوتا تھا۔ آج کے ٹویٹر کی طرح مختصر ترین لفظوں میں اپنا پیغام پہنچانا ہوتو تار کا سہارا لیا جاتا۔ٹیلی گراف کی سہولت بھی میسر تھی مگر عام آدمی کے لئے تار اور ٹیلی گراف کااستعمال کافی مہنگا اور مشکل ہوا کرتا تھا۔
دُنیا میں کیا ہورہا ہے اسے جاننے کا ذریعہ صرف اخبارات تھے۔ ان کے لئے خبریں حاصل کرنا فوری طورپر ممکن نہیں تھا اور نہ ہی انٹرنیٹ جیسی سہولت میسر تھی جونام نہاد ’’گلوبل ویلج‘‘ میں سکڑی دُنیا کے ہر کونے میں ہونے والے واقعات سے 24/7باخبر رکھ سکے۔
حقائق تک رسائی اور ان سے دوسروں کو آگاہ رکھنے کے عمل میں کھڑی پہاڑ ایسی مشکلات کے باوجود چیدہ چیدہ دانشور نہیں،معمولی پڑھے لکھے لوگوں کی بھی عالمی امور کے بارے میں آگہی کا عالم مگر یہ تھا کہ اقبالؔ،انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ اجتماعات میں جونظمیں پڑھتے وہ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر تک پھیلے مسلمانوں کی حالتِ زار کا تذکرہ کرتیں۔
طرابلس تو نیل کے ساحل سے بھی سینکڑوں میل دور تھا۔ وہاں اطالوی سامراج کے خلاف جنگ آزادی برپا تھی۔ حریت پسندوں کو پانی پلانے پر مامورایک فاطمہ نامی بچی بھی تھی۔اقبالؔ نے اس کے بارے میں اپنی نظم پڑھی تو انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ اجتماع کے لئے لاہور کے ایک میدان میں سجے پنڈال میں موجود حضرات دھاڑیں مارمارکر رونا شروع ہوگئے۔ ان کے جذبات کی شدت اس حقیقت کا اظہارتھی کہ اس دور کے صحافیوں نے حقائق جمع کرنے کی راہ میں کھڑی پہاڑ ایسی مشکلات کے باوجود اپنے قارئین کو ’’عالمی امور‘‘ کے بارے میں باخبر رکھا ہوا تھا۔
اقبالؔ کی فاطمہ والی نظم اور اسے سن کر جذبات سے مغلوب ہوئے سامعین کا دھیان مجھے ان دنوں مستقل ستائے چلا جارہا ہے ۔ہمارے ملک میں اس وقت نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز کے نام پر 50سے زیادہ ٹی وی چینل کام کررہے ہیں۔ ان میں سے کم از کم دس کا تعلق ان صحافتی اداروں سے ہے جن کی پرنٹ کے زمانے سے ساکھ اور شہرت مسلمہ گردانی جاتی ہے۔ صحافت کے کئی بڑے نام ان چینلوں سے وابستہ ہیں جو 24گھنٹے مستعد رہنے کے دعوے دار ہیں۔ ان چینلوں کی سکرینوں پر نمودار ہونے والے اینکر خواتین وحضرات حق وصداقت کے علمبردار ہیں۔ محنت ومشقت سے دیانت دارانہ رزق کمانے کی اپنے تئیں زندہ علامتیں۔ ان چینلوں پر منگل کے روز چلائے نیوزبلیٹنز میں Lead Storyمحمد عامر نامی کسی کرکٹر کی شادی اور اس سے متعلق تیاریوں تک محدود رہی۔ ان اداروں سے وابستہ ’’پارسائی فروشوں‘‘ میں سے کسی ایک کوبھی مجھ سمیت صحافت کے نام پر رچائے اس گھٹیا تماشے پر ندامت محسوس نہ ہوئی۔
فرض کرلیا گیا ہے کہ عوام کو وہی دکھایا جاتا ہے جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ Ratingsنام کی ایک بلا ہوتی ہے۔ اشیائے صرف کی مارکیٹنگ کے لئے اشتہارات دینے والے اس Ratingsکی بنیاد پر کسی ٹی وی چینل کے لئے اشتہارات کا کوٹہ اور ان کے نرخ طے کرتے ہیں۔ یہ اشتہارات میسر نہ ہوں تو مجھے ہر تیسرے مہینے میرا چینل سیزن اور جدید فیشن کے مطابق لباس خرید کر نہیں دے پائے گا۔ میرے ساتھیوں کو تنخواہیں بروقت نہیں مل پائیں گی۔ اپنے اور اپنے ساتھیوں کے رزق اور سہولت کا جواز بناکر کالم لکھنے اور نیوزاینڈ کرنٹ افیئرز کے شوز کرنے والے،صحافت کے بھانڈپن میں تبدیل ہوجانے پر مکمل ڈھٹائی سے خاموش ہیں۔ صحافت کبھی ایک’’مشن‘‘ بھی ہوا کرتاتھا۔ اب محض’’دھندا‘‘ بن کررہ گیا ہے۔
صحافت کو ’’دھندا‘‘ تسلیم کرتے ہوئے بھی لیکن میں اصرار کرتا ہوں کہ پاکستان کے عوام منگل کے روز اپنے گھر میں موجود ٹی وی سکرین پر محمد عامر نامی کرکٹر کی شیروانی ہی نہیں دیکھنا چاہ رہے تھے۔ مقبوضہ کشمیر میں اڑی کے مقام پر اتوار کو علی الصبح جو واقعہ ہوا اس نے بھارتی حکومت کو حواس باختہ کر ڈالا ہے۔ اتوار اور پیر کے دن ہمارے ازلی دشمن گردانے ملک میں دفاع اور قومی سلامتی سے متعلق اداروں کے افراد کے مابین Back to Backملاقاتیں ہوئی ہیں۔ Surgical Strikesکا ذکر ہوا ہے۔ اس امکان پر غور بھی کہ اگر بھارتی افواج کے SSGدستے پاکستان کے اندر گھس کر چند افراد کو اپنا نشانہ بنائیں تو ممکنہ ردعمل کیا ہوسکتا ہے۔مجھے دفاعی امور کا ککھ پتہ نہیں۔ اس کے باوجود یہ دعویٰ لکھ کر بیان کرنے کو مجبور ہوا کہ بھارت نے اپنے تئیں’’محدود جنگ‘‘ کی طرف کوئی بھی قدم اٹھایا تو جنگ محدود نہیں رہے گی۔ فیصلہ کن مراحل کی طرف بڑھے گی۔ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال ان مراحل میں یقینی نہ سہی تو ممکن ضرور نظر آرہا ہے۔
میں یہ بات تسلیم کرنے کو ہرگز تیار نہیں کہ پاکستان کے عوام اپنے اور اپنے ملک کے وجود کے بارے میں اس حد تک لاتعلق ہوچکے ہیں کہ انہیں بھارت کے عزائم سے جڑے امکانات کی کوئی فکر ہی نہیں۔ ان کے بزرگوں کو طرابلس کی فاطمہ کا علم تھا۔ وہ اپنے حال کے بارے میں لاتعلق رہ ہی نہیں سکتے۔ صحافت کے نام پر بھانڈ پن کرنے والے درحقیقت انہیں لاتعلق گردان کر میرے لوگوں کی تضحیک کے مجرم ثابت ہورہے ہیں۔ کم از کم میں اپنے لوگوں کی اجتماعی دانش کی ایسی توہین کا مرتکب ہونے کو ہرگز تیار نہیں۔
قاری اگر یہ کالم پڑھنا نہیں چاہتے۔ ناظرین میری شکل ٹی وی سکرین پر برداشت نہیں کرسکتے تو جن اداروں کے لئے میں یہ دھندا کرتا ہوں، ان کی وساطت سے خود کو ’’Ratingsکا دشمن‘‘ جان کر مجھے ہرگز ندامت محسوس نہیں ہوگی۔ وہ مجھے فارغ کردیں۔ ہرگز پریشان نہیں ہوںگا۔ گھاس کاٹ کر،گلی گلی پھیری لگاکر دو وقت کی روٹی کسی نہ کسی طور کما ہی لوں گا۔ صحافت کو مگر صحافت ہی کے انداز میں کرنے پر بضد رہوں گا۔ محمد عامر نامی کسی کرکٹر کی شیروانی کا تذکرہ ہرگز نہیں کروں گا۔
صحافت اگر شادیوں کے ذکر تک محدود ہوچکی ہے تو صرف شیروانی اور پینڈ باجے والی بارات کا ذکر ہی کیوں۔ رپورٹنگ کے ابتدائی ایام میں بہت ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ مجھے سکھایا گیا تھا کہ ’’خبر‘‘ کا اس کے ’’انجام‘‘ تک Follow Upضروری ہوتا ہے۔ کوئی دولہا شیروانی پہنتا ہے تو اسے اتارتا بھی ہے۔ کیا ہمارے قاری اور ناظرین اس کے بعد کا احوال جاننے میں دلچسپی نہیں رکھتے؟!
جی نہیں۔ صحافت کے نام پر بھانڈپن کی انتہاء ہوچکی۔ یہ تماشہ مزید نہیں رچایا جاسکتا۔ خلافتِ اسلامیہ کے آخری مرکز-بغداد-کے اِرد گرد جب ہلاکو خان کی وحشی افواج جمع ہورہی تھیں تو ایک زمانے تک علم وادب کے اس مرکز کے چوراہوں میں ان دنوں کے ’’علمائ‘‘ آج کے صحافیوں کی مانند طوطے کے حلال یا حرام ہونے کے سوال پر مناظروں میں مصروف تھے۔
1857ء کا مئی بھی ’’اچانک‘‘ نہیں آگیا تھا۔اس سے پہلے کئی مہینوں تک ’’چپاتیاں‘‘بٹ رہی تھیں۔ دلّی کی مرکزی جامع مسجد کی دیوارپر ’’نامعلوم افراد‘‘ اشتہارات چسپاں کردیا کرتے تھے۔ اس دور کے شاعروں کو مگر زبان وبیان کی باریکیوں کی فکر ستائے چلائے جارہی تھی۔ وہ محبوب کی کمر ڈھونڈنے اور اسے باندھنے کے لئے استعارے ڈھونڈنے میں مبتلا ہوچکے تھے۔
یہ وقت استعاروں کی تلاش کا ہرگز نہیں ہے۔ بھارت اور افغانستان، امریکہ کی منافقانہ سرپرستی میں پاکستان کے خلاف ایک انتہائی فیصلہ کن مگر گھنائونا کھیل کھیلنے میں مصروف ہوچکے ہیں۔ اس کھیل کے بارے میں اپنے لوگوں کو آگاہ رکھنا ہم صحافیوں کی ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کو نبھانہیں سکتے تو خود کو ’’بھانڈ‘‘ کہیں اور تماشے لگاکر ’’ویلیں‘‘ جمع کریں۔ میرے پیشے کی تذلیل نہ کریں۔ اس کی بدنامی کا باعث نہ بنیں۔
خطِ غربت کی جانب بڑھتے ایک کروڑ انسانوں کا مستقبل؟۔
Apr 16, 2024