اپنے پیش رو بھارتی فوج کے سربراہوں کی طرح موجودہ بھارتی آرمی چیف جنرل بی پن راوت نے بھی مقبوضہ کشمیر کے ایک فوجی کیمپ کے دورے کے دوران بڑھک لگائی ہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں حالات نارمل ہو رہے ہیں اور ”دہشت گرد“ جس کا مطلب کشمیری حریت پسند ہیں مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں اور ان کے حامی مایوس ہو رہے ہیں بھارتی فوج کے سربراہ مقبوضہ کشمیر کے ایک خیر سگالی دورے پر ہیں۔ جنرل راوت نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ کشمیری حریت پسند نوجوانوں کی بڑی تعداد ہتھیار ڈال رہی ہے اور وہ بھارتی فوج میں بھرتی ہو رہے ہیں۔ لیکن اگلی ہی سانس میں بھارتی فوج کے سربراہ نے یہ بھی کہہ دیا کہ کشمیر میں حالات میں اتارچڑھا¶ آتا رہتا ہے۔ بھارتی فوجی سربراہ نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو حسب روایت دہشت گردی سے جوڑتے ہوئے تشویش ظاہر کی کہ سوشل میڈیا کے ذریعے کشمیری نوجوانوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے اور انہیں ”دہشت گردی“ کی تربیت دی جا رہی ہے۔ اپنے دل کو تسلی دیتے ہوئے جنرل راوت نے یہ بھی کہا کہ لیکن یہ صرف بھارت کا ہی مسئلہ نہیں دنیا بھر میں انتہا پسند اور عسکریت پسند تنظیمیں اپنے حامی تلاش کرنے کے لئے سوشل میڈیا استعمال کر رہی ہیں۔ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ کشمیریوں کو ”ڈی ایڈ کلاسز“ کرنا ہوگا۔
بھارتی سیاسی قیادت کی طرح اس کی فوج کے کرتا دھرتا بھی کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو نیا رنگ دینے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ یہ سارے تاریخ کے ان اوراق کو پھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں جن سے ساری دنیا واقف ہے کشمیریوں کی حق خود اختیاری کے لئے جدوجہد کو کم و بیش ستر سال ہو گئے ہیں 1948ءمیں جب کشمیری مجاہدین کشمیر کے مقبوضہ علاقے کو بھارت کے قبضہ سے چھڑانے کے لئے مسلح جدوجہد کر رہے تھے اور پاکستان ان کی مدد کر رہا تھا تو بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو اقوام متحدہ میں درخواست لے کر پہنچے تھے کہ کشمیر میں جنگ بند کرائی جائے۔ نہرو کو خوف تھاکہ کشمیری مجاہدین مقبوضہ علاقے کو آزاد کرا لیں گے۔ اقوام متحدہ کی مداخلت سے سیز فائر ہوا۔ سیز فائر لائن قائم ہوئی۔ جواہر لعل نہرو کی درجنوں تقریریں ریکارڈ پر ہیں جن میں موصوف نے کشمیریوں سے وعدے کئے تھے کہ کشمیریوں کو ان کا حق خوداختیاری دیا جائے گا۔ مثلاً 27 اکتوبر 1947ءکو جواہر لعل نہرو نے پاکستان کے وزیراعظم کے نام ایک ٹیلی گرام بھیجا جس میں نہرو نے کہاکہ ”ہماری رائے میں ہندوستان کے متنازعہ علاقوں کا مستقبل وہاں کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق طے ہونا چاہئے“ جواہر لعل نہرو نے 31 اکتوبر 1947ءکو پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم کو ایک اور ٹیلی گرام بھیجا جس کا نمبر 225 تھا‘ کشمیر کے لوگوں کو یہ اختیار ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک ریاست کے ساتھ الحاق کریں۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے 16 اگست 1950ءکو ایک ٹیلی گرام بھارت اور پاکستان کے اقوم متحدہ میں نمائندوں کو بھیجا تھا جس میں بھارتی وزیراعظم نے لکھا تھا کہ ہم نے کشمیر میں مجموعی طورپر رائے شماری کی کبھی مخالفت نہیں کی۔ جواہر لعل نہرو کے بیانات اور پریس سے گفتگو کے کئی اقتباسات موجود ہیں جن میں نہرو بار بار کشمیریوں کو ان کا حق خوداختیاری دینے کی بات کرتے ہیں۔
2 فروری 1952ءکو جواہر لعل نہرو نے بھارت کے کلکتہ سے شائع ہونے والے اخبار امریت بزار پتریکاکو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ”اگر استصواب رائے کے بعد کشمیری عوام یہ کہتے ہیں کہ ہم بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو ہم کشمیریوں کے اس فیصلے کو قبول کرنے کے پابند ہیں۔ اگرچہ یہ فیصلہ ہمارے لئے تکلیف دہ ہو گا لیکن ہم اسے قبول کریں گے۔
نہرو اور دوسرے بھارتی لیڈروں کے کشمیریوں سے استصواب رائے کے وعدوں کی ایک پوری تاریخ ہے۔ بھارت کی سیاسی اور فوجی قیادت لوگوں کو بے وقوف بنا رہی ہے۔ کبھی بھارت کا موقف یہ تھا وہ مقبوضہ کشمیر میں کئی بار انتخابات کرا چکا ہے۔ اس لئے استصواب رائے کی ضرورت نہیں۔ یہ بھی ریکارڈ کی بات ہے کہ بھارت کشمیر کے مسئلہ کو پاکستان کے ساتھ ایک متنازعہ تسلیم کر کے مذاکرات کرتا چلا آرہا ہے لیکن دوسری طرف اس نے کم و بیش سات لاکھ فوج مقبوضہ کشمیر کے چند اضلاع میں رکھی ہوئی ہے جس کے ذریعہ وہ کشمیریوں کی آواز دبا رہا ہے۔ گزشتہ پانچ دہائیوں میں ہزاروں کشمیریوں کو شہید کی گیا۔ ہزاروں نوجوانوں کوٹارچر کے ذریعہ مفلوج کیاگیا۔ کشمیری خواتین کی عزتیں پامال کی گئیں۔ بھارتی فوج کے سربراہ جنرل راوت کی بے شرمی کی انتہا ہے کہ اس نے مقبوضہ کشمیر میں خواتین کے جبراً بال کاٹے جانے کے بارے میں کہاکہ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ اس طرح کے حالات میں ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دنیا میں کہاں آزادی کا مطالبہ کرنے والی خواتین کی عزت لوٹی جاتی ہے اور جبراً ان کے بال کاٹے جاتے ہیں۔
بھارت کے سیاسی لیڈروں اور فوجی سربراہ جب بھی دعویٰ کرنے لگتے ہیں کہ کشمیر میں حالات نارمل ہیں وہاں کوئی شورش نہیں ہے وہاں مٹھی بھر دہشت گرد اور علیحدگی پسند غیر ملکی مدد سے گڑبڑ پھیلا رہے ہیں جن کو ناکام بنا دیا گیا ہے اس وقت مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک زور پکڑتی ہے۔ مودی حکومت نے تو جبر کی انتہا کر دی ہے امریکہ کے وزیرخارجہ نئی دہلی آرہے ہیں۔ امریکہ انسانی حقوق کا بڑا چیمپئن ہے موصوف کوعلم ہو گا کہ مقبوضہ کشمیر میں کس قدر ظلم ہو رہا ہے۔ کیا وہ اپنے نئے دوست مودی سے یہ کہیں گے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ظلم بند کرے۔ یا پھر بھارت کے ساتھ نئی نئی دوستی کو بچانے کے لئے خاموش رہیں گے۔
٭٭٭٭٭
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024