امریکی بھولے تو ہیں مگر اتنے بھی نہیں جتنا ہم فرض کئے بیٹھے ہیں۔ افغانستان کو اب وہ پاکستانی ریاست میں بہت ہی اہم عہدوں پر فائز اپنے چند ’’دوستوں‘‘ کے ذریعے سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔9/11 کے بعد کھربوں ڈالر اس ملک میں انہوں نے بے دریغ انداز میں صرف کئے۔ اپنے اہداف پھربھی حاصل نہ کرپائے۔ اپنی ناکامی کی وجوہات مگر وہ خوب جان چکے ہیں۔
ہاتھی کی طرح امریکہ مگر ایک بڑا جانور ہے۔ انڈہ دے یا بچہ۔ یہ فیصلہ وہ خود کرے گا اور اس ضمن میں ہمارے ہاں طاقتور اداروں میں بیٹھے اپنے ’’دوستوں‘‘ سے ہرگز رجوع نہیں کرے گا۔ ہم مگر امریکی رویے میں اس تبدیلی کو سمجھنے کے لئے بالکل تیار نہیں۔ ایوب خان، جنرل ضیاء اور مشرف کے دنوں والی رونقیں یاد کئے چلے جارہے ہیں۔ اس حقیقت کا پوری طرح احساس کئے بغیر کہ سوویت یونین نام کی کمیونسٹ سپرطاقت اب اس کو للکارنے اور پریشان کرنے کے لئے موجود نہیں رہی۔
روس کے صدر کو بھی اپنے ملک کی سردجنگ والی رونقیں بہت یاد آرہی ہیں۔ بہت جارحانہ انداز میں اس نے کریمیا کو یوکرین سے جدا کرکے اپنے زیرنگیں کرلیا۔ کریمیا کی اہمیت کو ہمارے دانشور پوری طرح نہیں جانتے مگر شام کے ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں جتنے مضامین ہمارے اخباروں میں چھپتے ہیں انہیں پڑھتے ہوئے مجھے اکثر یہ گماں ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے تعلیمی اداروں میں ’’مطالعہ شام‘‘ بھی نصاب کا تقریباََ لازمی حصہ بن چکا ہے۔
صدر پیوٹن نے گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک دھواں دار تقریر جھاڑی۔ اس پُرجوش خطاب کے بعد انہوں نے شام میں اپنے طیارے اور خصوصی افواج کے دستے بھیج دئیے۔ ہمارے کئی لوگوں کا ایمان تازہ ہوگیا۔ امریکہ کو اب پتہ چل جائے گا سوچتے ہوئے خوش ہونا شرع ہوگئے۔ امریکی میڈیا میں بھی پیوٹن کی جارحانہ جرأت پر اوبامہ کے مخالفین نے بہت دہائی مچائی۔ وہاں کی حکومت مگر ’’بے غیرت‘‘ بنی روسی صدر کی جرأتوں کو نظرانداز کئے چلے جارہی ہے۔ اسے ڈاکٹر کسنجر کا اس موضوع پر لکھا ایک طویل مضمون بھی کوئی غیرت نہیں دلاپایا۔
میں خود بھی اوبامہ کی شام کے حوالے سے روسی صدر کی دکھائی جارحانہ جرأت پر اپنائی خاموشی کے بارے میں بہت حیران رہا تھا۔ تھامس فریڈمین اور رابرٹ فسک جیسے کالم نگاروں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے سمجھا دیا کہ پیوٹن کا اصل مقصد شام کی فوج اور وہاں کے صدربشارلاسد کا تحفظ ہی نہیں بلکہ انہیں اس علاقے کی سب سے مؤثر قوت بنانا ہے۔ روس کی فضائیہ اور خصوصی فوجی دستے درحقیقت داعش کو اپنا نشانہ بنائیں گے۔ داعش اپنے انجام کو پہنچی تو مشرق وسطی میں ایران اور حزب اللہ مزید تگڑے ہوجائیں گے۔
اب تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ شام، ایران اور حزب اللہ سے اصل خوف اسرائیل کو نہیں۔ سعودی عرب کے سائے تلے جمع ان عرب ممالک کو ہے جو اسلام کے نہیں اس کے ایک مخصوص مسلک سے وابستہ نظر آتے ہیں۔ پیوٹن کی وجہ سے اس مسلک کے مخالفین مضبوط ہوئے تو سعودی عرب اور اس کے اتحادی بالآخر کس ملک کی طرف دیکھیں گے؟ شاید مجھے اس سوال کا جواب دینے کی ضرورت نہیں۔
مشرقِ وسطی کے معاملات کو فی الوقت یہاں تک زیر بحث لانے کے بعد میں لوٹنا چاہتا ہوں پاک-امریکہ تعلقات کی طرف۔ اپنی اس التجا کو دہرانے کہ امریکی بھولے تو ہیں مگر اتنے بھی نہیں جتنا ہم فرض کئے بیٹھے ہیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم واشنگٹن پہنچ چکے ہیں۔ میرا یہ کالم چھپنے کے بعد ان کی صدر اوبامہ سے ملاقات میں چند گھنٹے رہ گئے ہوں گے۔ آج سے کئی ماہ پہلے طے ہوئی اس ملاقات میں پاکستانی وزیر اعظم، امریکی صدر کے ساتھ پاک-امریکی تعلقات کو ایک وسیع تر تناظر میں زیر بحث لانا چاہ رہے تھے۔ خواہش ہماری یہ تھی کہ ہمیں صرف افغانستان کا ایک ہمسایہ اور طالبان کا سرپرست نہ سمجھا جائے۔ ہمارا ایٹمی پروگرام بھی محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ اس کے بارے میں تشویش کی ضرورت نہیں۔
اصل مسئلہ ہے ہماری معیشت۔ واشنگٹن ہمارا دوست ہے تو اسے ہمارے ہاں کی مصنوعات، خاص کر ٹیکسٹائل سے متعلق اشیاء کو اپنے ہاں درآمد کی سہولتوں میں اضافہ کرنا چاہیے۔ وہ ہمیں بجلی کے بحران پر قابو پانے میں بھی اپنا حصہ ادا کرے اور بھارت میں ہمہ روز پھیلتے امریکی اثر کے ذریعے مودی سرکار کو سمجھانے کی کوشش کرے کہ وہ ہمیں اطمینان سے اپنے اندرونی مسائل کو حل کرنے دے۔
پاکستان کے بھارت کے خلاف کوئی جارحانہ عزائم نہیں ہیں۔ کشمیر مگر ایک مسئلہ ہے جس کا حل پاکستان ہی نہیں پورے جنوبی ایشیاء کو ابدی امن واستحکام فراہم کرسکتا ہے۔ بھارت اس مسئلے کا ذکر تک کرنے کو تیار نہیں۔ افغانستان کے ذریعے ہمارے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں بلکہ شورش کو ہوا دے کر ہماری مشکلات میں اضافہ کئے چلے جا رہا ہے۔ اوبامہ کو مودی سے دوستی مبارک۔ ہم بھی لیکن امریکہ کے 1950ء کی دہائی سے دوست ہی نہیں بلکہ اتحادی ہوا کرتے تھے۔ واشنگٹن اپنے نودریافت دوست کو ہماری مشکلات بڑھانے سے تو روک سکتا ہے۔
سادہ ترین الفاظ میں یوں کہہ لیجئے کہ ہماری خواہش تھی کہ اوبامہ-نواز ملاقات کے دوران چند نکات تک محدود رہنے کے بجائے جو سارے کے سارے دفاع اور سلامتی کے امور سے متعلق ہیں، پاک-امریکہ تعلقات کو وسیع تر تناظر میں رکھتے ہوئے مختلف الجہتی امور زیر بحث لائے جائیں۔ یہ ہوتا مگر اب دکھائی نہیں دے رہا۔
وزیر اعظم کی امریکہ روانگی سے قبل ہی پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر اس ملک کے میڈیا میں دہائی مچادی گئی۔ واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز کے دو جید صحافیوں نے ہمارے Tactical Weaponsکو دنیا کے سامنے اسی طرح پیش کیا جیسے چند ہی روز بعد پاکستان کے بازاروں میں ایٹمی پٹاخوں کی دُکانیں کھل جائیں گی۔ ہمارے صحافیوں کو راہ حق پر رکھنے کو بے چین حکمرانوں نے مگر واشنگٹن میں کمال ہوشیاری اور مکاری کے ساتھ Manageکئے اس بے بنیاد شور پر کوئی توجہ ہی نہ دی۔ میڈیا خود بھی NA-122کے حوالے سے تماشے رچانے میں مصروف ہوگیا۔
بالآخر کفن پھاڑ کر بولے تو نیویارک میں بیٹھے حب الوطنی کی سب سے بڑی علامت محترم جناب منیر اکرم صاحب۔ اس بابائے سفارت کارنے جو بقراط زمانہ تصور کئے جاتے ہیں، بڑی رعونت کے ساتھ لکھ دیا کہ نواز شریف کو امریکہ نے بنیادی طورپر پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر اپنی پسند کی حدودوقیود نافذ کرنے کے لئے مدعو کیا ہے۔ لہذا ’’سول قیادت‘‘ کی موجودگی میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام ایک بار پھر محترم جناب منیر اکرم صاحب کے سنسنی خیز مضمون کی بدولت ’’خطرے‘‘ میں نظر آنا شروع ہوگیا۔
اس مضمون کی اشاعت کے بعد وزیر اعظم کے دورے کا مقصد اب صرف اتنا رہ گیا ہے کہ وہ اپنی قوم کو یقین دلائیں کہ ان کے دل میں اپنے ہی وطن کے ساتھ کچھ محبت اب بھی موجود ہے۔ وہ ’’قومی مفادات‘‘ سے غافل نہیں۔ غیرت مند اور باہمت ہیں۔ وہ ایٹمی پروگرام کو بچانہ پائے تو ’’ورنہ‘‘ ہوکر رہے گا۔ صدر اوبامہ سے ملتے وقت نواز شریف اب ’’ورنہ‘‘ سے بچنے کی کوششیں ہی کرتے نظر آئیں گے اور ہم یہ طے ہی نہیں کر پائیں گے کہ ’’ورنہ‘‘ والا ایجنڈا امریکہ نے طے کیا تھا یا ہماری اپنی ریاست کے مہابقراطوں نے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38