کرنل امجد حسین مرحوم ایک طلسماتی شخصیت کے مالک تھے۔ وہ بولتے تھے تو خوبصورت یادوں کے کئی دروازے کھولتے تھے۔ میں نے اتنی روانی اور اتنی آسانی سے بولتے ہوئے کم کم لوگوں کو سنا ہے۔ ان کے سامنے پرانے دوست جیسے زمانے ایک رازدار منظر نامے کی طرح موجود رہتے تھے۔
وہ نوائے وقت کے بانی حمید نظامی کے گہرے دوستوں میں سے تھے۔ دونوں نے مل کر قائداعظم سے ملاقاتیں کی تھیں۔ حمید نظامی کو نوائے وقت شائع کرنے کی ہدایت قائداعظم نے کی تھی۔
حمید نظامی کے بعد مجید نظامی سے بھی ان کی بڑی دوستی رہی۔ مجید نظامی کرنل امجد حسین کا بہت احترام کرتے تھے۔ اب رمیزہ نظامی دونوں دن کرنل صاحب مرحوم کے گھر آئیں۔ اور ان کی تعزیت ان کے بیٹوں مواحد حسین سید مشاہد حسین سید اور مجاہد حسین سید سے کی۔ دیگر اہل خانہ سے بھی ملاقات کی اور گہرے دکھ اور ملال کا اظہار کیا۔ رمیزہ بی بی کے اس اقدام سے مجید نظامی کی روح سرشار ہو گی۔ انہوں نے مجید نظامی کی نمائندگی کی۔ مجاہد حسین نوائے وقت کے جنرل منیجر ہیں۔ مواحد حسین اٹارنی باریٹ لا سپریم کورٹ واشنگٹن ڈی سی ہیں۔ مشاہد حسین سید سنیٹر ہیں۔ چیئرمین سی پیک پارلیمانی کمیٹی میں اور بہت بڑے سیاسی دانشور ہیں۔ مواحد حسین نوائے وقت کے کالم نگار ہیں۔ اس کی اہمیت کا اندازہ لگائیں کہ اردو اخبار میں ان کا کالم انگریزی میں شائع ہوتا ہے۔ کرنل امجد حسین نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی تقریبات میں بہت محبت سے شرکت کرتے تھے۔ اور لوگ ان کی باتیں سن کر بے قرار ہوتے تھے۔ پھر سرشار ہوتے تھے۔ وہ تحریک پاکستان کے پرجوش کارکن تھے۔ اپنے زمانے کی چلتی پھرتی تاریخ تھے۔ ان کی بھرپور جدوجہد نے تاریخ اور تحریک کا فرق مٹا دیا تھا۔
انہوں نے بڑی عمر پائی مگر وہ کبھی بھی بوڑھے نہ لگے۔ ان کی محفل زندہ محفل ہوتی تھی۔ میری بہت ملاقات ان سے رہی۔ جب پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات میں مجید نظامی کی خواہش پر سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے حمید نظامی چیئر قائم کی تو مجھے وہاں انچارج پروفیسر تعینات کر دیا۔ اس میں بھی مجید نظامی کی سفارش شامل تھی۔ ہم نے پہلی کتاب ان کے دوستوں کے تاثرات نما انٹرویو شائع کیے۔ اس حوالے سے پہلا انٹرویو کرنل امجد حسین سے کیا گیا۔ وہ انٹرویو ہماری مرتبہ کتاب ’’شناسان حمید نظامی سے ملاقاتیں‘‘ میں شائع ہوا ہے۔ حمید نظامی کے لیے دوسری کتاب ان مضامین پر مشتمل ہے جس میں ان کے بارے میں لکھا گیا ہے۔ اس کتاب کا نام ہے ’’مجموعہ مقالات‘‘۔ اس میں کرنل صاحب کا ایک مضمون شامل ہے جس کا عنوان ہے ’’نظامی برادران کی پاکستانیت‘‘۔
ان کے جنازے میں بے شمار لوگوں نے شرکت کی۔ ان میں چیئرمین سینٹ رضا ربانی بھی شامل تھے۔ رضا ربانی نے سنیٹر عبدالغفور حیدری کی عیادت بلوچستان جا کے کی تھی۔
سیکرٹری نظریہ پاکستان ٹرسٹ شاہد رشید اور راقم الحروف محمد اجمل نیازی کرنل امجد حسین سے گھر پر ملنے گئے۔ انہوں نے بہت کھل کر گپ شپ کی۔ یہ غالباً ان سے ہماری آخری ملاقات تھی۔ انہوں نے بتایا کہ علامہ اقبال کے کہنے پر حمید نظامی اور میں نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن (ایم ایس ایف) کی بنیاد رکھی۔ ان کے ساتھ کبھی کبھی ملاقات ہماری زندگی کا اثاثہ ہے۔ وہ بہت شفیق تھے۔ ان کے صاحبزادے برادرم مواحد حسین سے ملاقات رہتی تھی۔ میں نے مشاہد حسین سے ایک دن کہا کہ ملاقات تو آپ سے پہلے ہوئی مگر مواحد حسین کے ساتھ ہماری دوستی زیادہ ہے۔ کرنل صاحب اچھے زمانوں کی پرانی نشانی تھے۔ اس زمانے میں ان کی موجودگی ایک انوکھی آسودگی کا باعث تھی۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کوئی نیا زمانہ شرع ہوا ہے۔ یہ کہہ سکتے ہیں پرانا زمانہ ختم ہو گیا ہے۔
خدا کی قسم اب ان کے جیسا ایک بھی آدمی لاہور میں نہیں ہے۔ وہ ان دنوں اکلوتے بزرگ تھے۔ اب تو ہمارے ہاں صرف بڑی عمر کے لوگوں کے لیے بزرگ کا خطاب رہ گیا ہے۔ وہ ایسے تازہ دم شخصیت تھے کہ انہیں بزرگ بھی نہیں کہا جا سکتا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024