ہمارے پڑوسی کالم نگار نصرت جاوید کے گزشتہ روز کے کالم کا عنوان ’’بھارتی فوجی قافلوں کو خود کش انداز میں للکارنے والے ’’خود مختار ‘‘ کشمیری بچے ‘‘ نے چونکا دیا ۔ پورا کالم پڑھنا پڑا ۔ ورنہ شائد ہی کالم نگار ایک دوسرے کے کالم مکمل پڑھنے کی زحمت کرتے ہیں ۔ جموں و کشمیر کا مسلہ نام نہاد لبرل طبقہ کے نزدیک ویسے بھی مذاق بن کر رہ گیاہے ۔ ہماری زندگی آزاد پاکستان میں گزری ، لاکھ برائیوں اور خامیوں کے باوجود پاکستان کے لوگ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کی زندگی سے اپنا موازنہ نہیں کر سکتے۔ پاکستان میں کالم نگاروں کی اولادیں بھی مرضی کی زندگی جی رہی ہیں۔’’ ٹھنڈے دودھ پھونکاں مارنا‘‘ پاکستانیوں کی عادت ہو گئی ہے ۔ناشکروںکو جموں وکشمیر بھیج دینا چاہئے۔ آزادی اور خود مختاری کا مفہوم اچھی طرح سمجھ آجائے گا۔ معصوم بد نصیب یتیم اور مصائب کے ستائے ہوئے کشمیری بچوں کے لیئے ’’لونڈوں‘‘ اور
’’خود کش ‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرکے ان بچوں کے جذبات کی ہی توہین نہیں کی گئی۔ بلکہ پاکستانیوں کے نظریات و جذبات کو بھی ٹھیس پہنچائی گئی ہے۔محترم کالم نگار نے مقبوضہ کشمیر کے قصبوں اور شہروں میں ریکارڈ ہونے والی چند ویڈیوز نیٹ پر دیکھیں جس پر تبصرہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 9سے14/15 سال کے بچے ہاتھوں میں پتھر یا درختوں سے اتاری ٹہنیاں لیے بھارتی پولیس ،پیرا ملٹری اور فوج کی گاڑیوں پر نعرے لگا کر ’’حملہ ‘‘ کرتے ہوئے انہیں ہر طرح سے مشتعل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔مقامی پولیس بجائے جوابی کاروائی کرنے کے دم دبا کر بھاگنے کو تر جیح دیتی نظر آرہی ہے ۔پیرا ملٹری اور فوج والے کافی دیر تک پیشہ وارانہ رعونت کے ساتھ ان ’’لونڈوں‘‘ کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ قابض افواج میں برداشت کی مگر ایک حد ہوتی ہے اور بالآخر وہ لمحہ آجاتا ہے کہ کوئی جوان ہوائی فائرنگ کرتا میدان میں آجاتا ہے ۔اس کی ہوائی فائرنگ ’’لونڈوں‘‘ کو خوفزدہ ہو کر بھاگنے پر مجبور نہیں کرپاتی تو اس کے باقی ساتھی بھی میدان میں اتر آتے ہیں اور تاک تاک کر سر پھرے بچوں (لونڈوں) کو گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ان گولیوں میں ایسے چھرے ہیں جو جسم میں سینکڑوں سوراخ کر دیتے ہیں ‘‘۔ کالم میں ’’لونڈوں‘‘ کی جانب سے بھارتی فوج پر حملوں کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہ کالم لکھتے ہیں کہ ’’لونڈوں ‘‘ کی جانب سے پتھروں ، ٹہنیوں وغیرہ سے خود مختار بچوں کے خود کش حملوں کے رد عمل میں مقامی فوج مشتعل ہوتی ہے اور ان بچوں پر گولیاں برسانے پر مجبور ہو جاتی ہے ۔ کالم میں دوسرا نقطہ یہ اٹھانے کی کوشش کی گئی کہ کشمیر کے یہ بچے موت سے قطعی لا پرواہ ہوکر خود کش ہو گئے ہیں ۔ محترم کالم نگار کو مقبوضہ کشمیر کے ٹین ایجر ’’لونڈوں‘‘ کے خود کش اور خود مختار ہونے پر تشویش لاحق ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ یہ لونڈے جوان ہو کر منجھے ہوئے خودکش حملہ آور بن جائیں گے ۔ پاکستان کی آزاد فضائوں آرام دہ بستر پر بھرے پیٹ لیٹ کر ہم مقبوضہ کشمیر کے بچوں کی ویڈیوز تو دیکھ سکتے ہیں اور اس قسم کے تجزیئے اور تبصرے بھی لکھ سکتے ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر کے ان بد نصیب بچوں بقول کالم نگار ’’لونڈوں‘‘ کی جگہ اپنے بچوں کو ہر گز نہیں دیکھ سکتے۔ محترم کہنا چاہتے ہیں کہ ان خود کش لونڈوں کی دہشت گردی بھارتی فوج کو اشتعال دلاتی ہے جس کے رد عمل میں انہیں ان لونڈوں پر گولیاں برسانا پڑتی ہیں ۔ یہ بد معاش بھارتی فوج ان میں سے کئی بچوں کے والدین کو شہید کر چکی ہے یا ان کی مائوں بہنوں کی آبرو ریزی سے ہاتھ رنگ چکی ہے۔ان بچوں کے ہاتھوں میں ہتھیار نہیں ورنہ ان ظالموں کو موقع پر ڈھیر کر دیا جائے۔ خودکش حملہ اور جہاد آزادی میں تمیز کی ضرورت ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے یہ معصوم بچے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہوش سنبھالتے ہی انہوں نے غلامی، ظلم و بربریت کا ماحول دیکھا۔ ان میں کتنے ہیں جن کی مائوں بہنوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے شہید کر دیا گیا، ان کے باپ بھائی مار دیئے گئے، ان کے گھر کی خواتین کی آبروریزی کی گئی۔ خوف و دہشت اور ظالمانہ ماحول نے ان بچوں کو جینے کی امنگ سے محروم کر ڈالا۔ یتیم بے گھر بے آسرا کر ڈالا۔ محترم کالم نگار جو ویڈیوز دیکھتے ہیں ہم بھی دیکھ چکے ہیں اور کشمیری بچوں اور ان کے خاندانوں کے ساتھ بھارتی بدمعاشی کی ویڈیوز بھی دیکھی ہیں۔ جی کرتا ہے ان بھارتی دہشت گردوںکو پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جائے لیکن ہم بھی چونکہ جدی پشتی پاکستانی ہیں لہذا آرام دہ بستر اور ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کرکالم کا پیٹ بھرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔بھارتی فوج ان کشمیری بچوں کے سنگ اٹھانے سے جب دم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہو جاتی ہے تو ان بچوں کو جو تسکین ملتی ہے وہ ہمیں ٹھنڈے کمرے اور آرام دہ بستر پر بھی میسر نہیں۔ آزاد پاکستان میں کتنے آسودہ حال لوگ ہیں جو عارضہ قلب کا شکار ہیں اورادویات کے بغیر انہیں نیند نہیں آتی لیکن ایک یہ مقبوضہ کشمیر کے ’’لونڈے‘‘ ہیں جو موت کو ساتھی بنائے گھوم رہے ہیں ۔ مجاہدین ،شہداء اور غازیوں کی اولادیں ہیں ۔ برین واش خود کش حملہ آوروں اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم بچوں کی لڑائی کو ایک ہی چشمہ سے دیکھا جا رہاہے ؟ایسا سوچنا بھی ان بچوں کے جذبہ آزادی کی توہین ہے۔ پاکستان عطیہ خداوندی ہے ۔ خدا کا شکر ہے کہ اس ذات پاک نے ہندوذہنیت سے نجات دلائی ۔خدا کا شکر ہے کہ ہم لوگ ان بد نصیب بچوں میں سے کسی کے ماں باپ نہیں ۔مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد آزادی ایک خواب اور مذاق تو لگنے ہی لگا لیکن ان مظلوم بچوں کے اندر کا غم و غصہ بھی خود کش معلوم ہونے لگا ؟محترم کالم نگار کے بقول ’’قابض افواج میں برداشت کی مگر ایک حد ہوتی ہے ‘‘ ۔ لیکن مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ ظلم و بربریت کی برداشت کی حد کا بھی اندازہ ہے ؟ مظلوم و معصوم کشمیری بچے رد عمل میں پتھر اور ٹہنیاں بھی اٹھا ئیں تو پاکستانی انہیں خود کش حملہ آور قرار دے دیں؟پاکستانی اگر ان ’’لونڈوں‘‘ کا پس منظر ، جذبات و حالات کو شہہ رگ کے قریب محسوس نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا ہی مانگ دیں کہ خدا ان مظلوم بچوں کو اس سے بھی زیادہ جرات اور دلیری عطا کرے ۔ خدا ان بچوں کو وہ دن دکھائے جب بدمعاش بھارتی فوج دم دبا کر نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیئے بھاگنے پر مجبور ہو جائے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024