مضطرب نثار احمد نثارنے84 سال قبل سہارنپور سے جس سفر کا آغاز کیا وہ 16جنوری2018ء کو راولپنڈی میں ختم ہو گے وہ ہمیشہ کے لئے سکون کی نیند سو گیا۔ انہوں نے تحریک آزادی میں سرگرم حصہ لینے والے خاندان میں آنکھ کھولی جس کے سربراہ تحریک آزادی ہند کے سلسلے میں بار ہا جیل یاترا کی ان کے والد محتر م تحریک خلافت سے وابستہ تھے ن کا گھر تحریک آزاد ی کے رہنمائوں جن میں سرخ پوش، احراری ،کمیونسٹ ، کانگریسی، مذہبی جماعتیں شامل ہیں کا مرکز تھا انگریزوں سے آزادی کا حصول ان کا مطمع نظر تھا انہوں نے قرآن پاک کی ابتدائی تعلیم مولانا حسین احمد مدنی سے حاصل کی انہیں نو عمری میں ہی خان عبد الغفار خان ، شورش کاشمیری، جواہر لعل نہرو کامریڈ ڈانگے، جوش ملیح آبادی، ڈاکٹر ذاکر حسین ، شیخ عبد اللہ ، مولانا عطا اللہ شاہ بخاری ، حیات اللہ انصاری ، بیرسٹر آصف علی ذکریا اسعدی ، عثمان فار قلیط کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔1946ء میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے مرکزی اسمبلی کا انتخاب سہارنپور کے حلقہ سے لڑا ۔ مسلم لیگ کے رہنمائوں کو بڑے قریب سے دیکھنے اور انہیں سننے سے مسلم لیگ کی طرف رجوع کرنے کا باعث بنا پھر انہوں نے نو عمری میں ہی مسلم لیگ کی قربت حاصل کر لی اور ان کی زبان پر ’’بن کے رہے گا پاکستان ‘‘کا نعرہ ایسا لگا کہ وہ مسلم لیگ کے ہو کر رہ گئے اور عمر بھر مسلم لیگ کے سبز پرچم کی سر بلندی کے کوشاں رہے انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے صاحبزادے ڈاکٹر جمال ناصرکو مسلم لیگی بنا دیا گو یا ڈاکٹر جمال ناصر نے مسلم لیگی خاند ان میں آنکھ کھولی لیکن جب شعور کی منازل طے کر لیں تو انہوں نے مسلم لیگ کے صدر محمد نواز شریف کو اپنا قائد تسلیم کر لیا اب وہ دن رات مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے لئے کام کر رہے ہیں ۔ نثار ر احمد نثار کا تعلق ایک محنت کش خاندان سے تھا وہ ایک سیلف میڈ شخصیت تھے انہوں نے بتا یا وہ اپنی محنت کش والدہ کے ہمراہ دہلی جاتے جو سہارنپور کے قریب واقع ہے لال کنواں میں قیام کے دوران انہیں میر خلیل الرحمن ، پطرس بخاری، خواجہ حسن نظامی ، دیوان سنگھ مفتون ،کرشن چندر اور سعادت حسن منٹو جیسے بڑے صحافیوں اور ادیبوں کی قربت حاصل رہی یہیں سے انہیں لکھنے پڑھنے کا شوق پیدا ہوا ۔ انہوں نے خاکسار تحریک کا وہ معرکہ اپنی آنکھوں سے دیکھا جس میں دہلی پولیس اور انگریز فوج خاکساروں نے جمنا کے کنارے خاکساروں کو دہلی میں داخل ہونے سے روک رکھا تھا جمنا کے دوسرے کنارے بیلچہ بردار خاکسار مورچہ زن تھے ان کا کہنا ہے کہ’’ جب بھی انہیں کوئی خاکسار نظر آجائے تو وہ اپنے خون میں حدت محسوس کرتے ہیں ‘‘ جب1947ء میں پاکستان قائم ہو گیا تو مسلمانوں کے لئے ان علاقوں میں رہنا مشکل ہو گیا جو ہندوستان کا حصہ بن گئے تھے۔ اس کے باوجود نثار احمد نثار کے والد محترم اور ان کے بھائیوں نے سہارنپور میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا لیکن 1953ء میں نثار احمد نثار کو پاکستان کی محبت راولپنڈی کھینچ لائی وہ اپنے والدین کو اطلاع دئیے بغیر پاکستان چلے آئے ان کے بھائی ضلع کونسل کے چیئرمین بنے لیکن انہیں بابری مسجد ، علی گڑھ یونیورسٹی اور مسلمانوں کے حقوق کے لڑنے پر بغاوت کا سامنا کرنا پڑا ہے ان کے والد شدید زخمی حالت میں پاکستان آئے اور پاکستان کی آزاد فضائوں میں انتقال کر گئے۔ نثار احمد نثار نے پاکستان آکر ایک روپیہ یومیہ مزدوری پر اپنے کیئریر کا آغاز کیا وہ کہا کرتے تھے غربت میں مونگ پھلی تک فروخت کی۔ وہ 1955ء سے 1958ء میں سیاسی صورت حال کا جائزہ لیتے رہے خان عبدالقیوم خان کا شمار اپنے دور کے ایک بڑے مسلم لیگی لیڈر وں میں ہوتا تھا ان کا میزبان ہوٹل میں قیام ہوا کرتا تھا۔ انہوں خان عبدالقیوم خان کی قیادت میں کام شروع کر دیا اور پھر عمر بھر خان عبدالقیوم کا ساتھ نہیں چھوڑا جب تک مسلم لیگ (قیوم گروپ ) کا وجود رہا وہ اس کے سیکریڑی جنرل رہے ’’ فاقہ مستی ‘‘ کے باوجود وہ خان عبدالقیوم خان کے 32 میل لمبے جلوس میں شامل رہے جب خان عبدالقیوم خان کو گرفتار کیا گیا تو میلوں جلوس میں شامل لوگ غائب ہو گئے لیکن انہوں نے خان عبدالقیوم خان کا زندگی کی آخری سانس تک ساتھ نہیں چھوڑا۔ گو نثار احمد نثار ایک ترقی پسند شخص تھے۔لیکن انہوں نے دائیں بازو کی طرف جھکائو رکھنے والی جماعت کونسل مسلم لیگ جائن کر لی ۔ 1962ء میں سیاسی جماعتیں بحال ہوئیں تو وہ نامور مسلم لیگی رہنما خواجہ محمود احمد منٹو ایڈووکیٹ کے ساتھ راولپنڈی مسلم لیگ کے سیکریٹری تھے۔ جب ایوب خان کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار بنایا گیا تو انہوں نے بی ڈی ممبر کی حیثیت سے محترمہ فاطمہ جناح کے کاغذات نامزدگی پر دستخط کئے۔ انہوں نے پیر صفی الدین آف مکھڈ کی رہائش گاہ اور راولپنڈی پریس کلب میں محترمہ فاطمہ جناح سے تین ملاقاتیں کیں۔ ان کے ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمنٰ،ممتاز دولتانہ، سردار شوکت حیات ، مخدوم زادہ حسن محمود ، خواجہ خیر الدین ، محمد خان جو نیجو ، شیخ مسعود صادق ، صاحبزادہ محمودہ بیگم ، چوہدری ظہور الہی، مولوی فریداحمد ، ائیر مارشل (ر)محمد اصغر خان ، چوہدری غلام عباس سمیت متعد د سیاسی شخصیات سے ذاتی تعلقات رہے ہیں ۔ انہوں نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ خان عبدالقیوم خان کی کتاب ’’خلافت سے بھٹو تک ‘‘ اس رات چوری کر لی گئی جب ان کا انتقال ہوا انہوں نے اس کتاب کے مسودہ کا مطالعہ کیا ہے اس کتاب کی اشاعت سے متعدد واقعات سے پردہ اٹھ سکتا تھا اس کتاب میں 1922ء کی تحریک خلافت سے لے کرذوالفقار علی کو پھانسی دینے کے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ نثار احمد نثار کے منتخب کاموں پر مشتمل کتاب ’’آئو سچ بولیں ‘‘ کے تین ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں ۔ ان کی کتاب ’پاکستان سے پاکستان تک‘‘ طباعت کے مراحل طے نہیں کر سکی ۔ اس بارے میں ان کے ہونہار صاحبزادے ڈاکٹر جمال ناصر جو خود ایک متحرک شخصیت ہیں وہ جہاں اپنی سیاسی مصروفیات میں سے کچھ وقت عام لوگوں کی فلاح و بہبود میں نکالتے ہیں ، ان کا ادارہ غریب و بے کس لوگوں کے لئے ایک بڑا سہارا ہے سے توقع ہے کہ کتاب کی اشاعت کا اہتمام کریں گے ۔نثار احمد نثار نے 1971ء میں مکتی باہنی اور بھارتی فوج کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام اور ڈھاکہ کو اپنی آنکھوں سے ڈوبتے دیکھا انہیں اس بات کا افسوس تھا کسی قومی رہنما نے اس المناک واقعہ کے سانحہ پر قلم نہیں اٹھایا ۔ خان عبدالقیوم خان کی وفات پر مسلم لیگ (قیوم گروپ ) پیر صاحب پگارا کی جماعت مسلم لیگ جو بعدازاں فنکشنل لیگ کے نام سے مشہور ہوئی میں ضم کر دیا گیا لیکن ایس ایم ظفر اور نثار احمد نثار غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کی مخالفت کی وجہ سے پارٹی چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ایس ایم ظفر کو وزارت اعلیٰ کی پیشکش ہوئی لیکن انہوں نے قبول نہ کی۔ میرے نثار احمد نثار سے کم و بیش نصف صدی سے تعلقات ہیں زمانہ طالب علمی میں صرافہ بازار میں ان کا ’’ڈیرہ ‘‘ ہوتا تھا جب کبھی صرافہ بازرا سے گذر ہو تو وہ خاطر مدارت کئے بغیر جانے نہیں دیتے تھے اور ملکی سیاسی صورت حال پر اظہار خیال کرتے صرافہ بازار کے گنجان علاقے سے ان کا ’ڈیرہ‘‘ مری روڈ پر کمیٹی چوک منتقل ہوگیا تو انہوں کچھ عرصہ تک یہاں کاروبار جاری رکھا پھر انہوں نے اچانک کاروبار بند کر کے اس ڈیرے کو محض دوست احباب سے ملاقاتوں کی’’ بیٹھک ‘‘ کا درجہ دے دیا بستر علالت پر جانے سے قبل وہ روزانہ اپنی رہائش گاہ سے پیدل کمیٹی چوک آتے اور کچھ دیر تک وہاں بیٹھتے وہ ایک مجلسی شخصیت تھے دوست احباب کی خوب خدمت خاطر کرتے جس روز نوائے وقت میں میرا کالم شائع ہوتا ان کا فون آنا میرے لئے خوشی کا باعث ہو تا وہ نہ صرف کالم کے بارے میں اپنی رائے دیتے بلکہ مشورے بھی دیا کرتے کافی دنوں سے ان کا کوئی فون نہیں آرہا تھا تو میں نے ڈاکٹر جمال ناصر سے ان کی خیریت دریافت کی تو انہوں نے بتایا کی ابا جی کی طبعیت کچھ ٹھیک نہیں ہے وہ اپنے اس گھر سے بیٹوں کے گھر میں منتقل نہ ہوئے انہوں نے اسی گھر میں اپنی زندگی کے دن گذارے جہاں ان کی اہلیہ 6 سال قبل وفات پا گئیں تھیں۔ اپنی اہلیہ کی وفات کے بعد وہ ٹوٹ پھوٹ گئے تھے میں نے ڈاکٹر جمال ناصر کے ذریعے اپنا سلام بھجوایا اور ارادہ کیا کہ ان کی عیادت کے لئے جائوں گا لیکن ان کے انتقال کی خبر آ گئی نثار احمد نثار سہارنپور سے راولپنڈی آئے تو ان کی سہارنپور کا پس منظر رکھنے والی دو شخصیات حکیم محمود سہارنپوری اور سعود ساحر سے گہری دوستی تھی حکیم محمد سہارنپور ی نے ’’ نثار احمد نثار کو دور حاضر کا منصور قرار دیا ‘‘ اور کہا کہ ’’ اس نے فرش خاک سے اوج افلاک تک کا سفر کیا ہے لیکن اپنے پیروں پر، بیساکھیوں کے سہارے نہیں تاہم بہت سے لوگوں کی بیساکھیاں بنا ہے لیکن کسی کو بتانے سے گریزا ں رہا ‘‘ سعود ساحر ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ’’ نثار احمد نثار اندر سے پکا سوشلسٹ اور باہر سے مسلم لیگی تھا ان کی شاعری پر ترقی پسندی کی گہری چھاپ تھی احمد معصوم اور نثار احمد نثار ترنم سے اپنا کلام سنا کر مشاعرہ لوٹ لیتے تھے ‘‘ وہ ساری زندگی اہل قلم کی خدمت کرتے رہے ان کے صاحبزادے ڈاکٹر جمال ناصر نے اپنے عظیم والد کی روایات کو اپنایا ہے یہی وجہ ہے ہر وقت ان کے ادارہ کے دروازے اہل قلم اور صحافیوں کے لئے کھلے رہتے ہیں ان کے صاحبزادے سہیل ناصر کی عدلیہ میں نیک نامی ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے یہ ان کی تربیت کا کمال ہے کہ آج ان کی اولاد ان کے لئے نیک نامی کا باعث بنی ہوئی ہے نثار احمد نثار راولپنڈی کی ایک تاریخ تھے ان کے ذکر کے بغیر راولپنڈی کا تذکرہ ادھورا رہ جاتا ہے نثار احمد نثار سیمابی طبعیت کے مالک تھے ان کو چین اور سکون نہیں تھا ہر وقت ملک اور قومی سلامتی کے بارے میں فکر مند رہتے تھے ۔ منوں مٹی تلے سو جانے کے بعد ان کی بے چین روح کوگویا سکون ہی آ گیا ۔ان کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد کی شرکت ان کے بڑا آدمی ہونے کا ثبوت ہے ۔ کا ش ان کی مسلم لیگ کے لئے خدمات پر مسلم لیگ کے پرچم کے ساتھ دفن کیا جاتا تو ان کی روح کو چین مل جاتا ۔
٭٭٭٭٭