کوئی زندہ رہے گا تو بھارت کے ساتھ تجارت کرسکے گا
کوئی زندہ رہے گا تو بھارت کے ساتھ تجارت کرسکے گا
ہم جس خطے میں بستے ہیں، یہا ں خون کی ہولی کئی بار کھیلی گئی، یہ کھیل ہمارے لئے نیا نہیں، نہ مسلمان قوم کے ساتھ یہ نیا کھیل ہے۔ بغداد میں انسانی سروں کا مینار تعمیر کیا گیا، ہلاکو اور چنگیز نے مسلمانوں کو اس بے دردی سے تہہ تیغ کیا کہ کئی ہفتوں تک دریائے دجلہ کا پانی سرخ ہو گیا، پاکستان بنا تو مشرقی پنجاب سے مہاجرین کے قافلوں کے قافلے کٹ گئے، مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی نے درندگی کی انتہا کر دی اور پاکستان کے نام لیواﺅں کو چن چن کر شہید کیا گیا جو باقی بچا ، اسے آج بنگلہ دیشی حکومت پھانسیاں چڑھا رہی ہے۔اور ہمارے ہاں ایسے۔۔ میر ۔۔جعفروں کی کمی نہیں جو اسی حسینہ واجد جیسی خونی بلا سے اعزازات وصول کرتے ہیں۔
اب قوم کو ایک نئی ابتلا کا سامنا ہے۔ہر روز سر کٹ رہے ہیں۔بدن قیمہ بن رہے ہیں۔سہاگ لٹ رہے ہیں۔ بچے یتیم ہو رہے ہیں۔بوڑھے والدین جوان بیٹوں کی میتوں پر دھاڑیں مار رہے ہیں۔ پولیس کے افسر اور جوان شہادتوں کا گل و گلزار مہکا رہے ہیں۔ فوجی افسر اور جوان وطن کے لئے قربان ہو رہے ہیں۔
اور ہماری حکومت کے ایک نابا لغ وزیر کو بھارت سے تجارت کے فروغ کی فکر لا حق ہے۔ وہ واہگہ بارڈر چوبیس گھنٹے کھلا دیکھنا چاہتا ہے۔ اسے خاطر جمع رکھنی چاہئے کہ اس کی یہ ننھی سی ، معصوم سی آرزو ایک نہ ایک دن ضرور پوری ہو گی۔ اس کے لئے اسے موجودہ قتل عام کے نکتہ انجام کا انتظار کرنا ہو گا۔ کوئی تو بچے گا جو بھارت کے ساتھ دن رات تجارت کر پائے گا۔شاید وہ کوئی معذور ہی ہو، اس کی ایک ٹانگ کٹ چکی ہو یا وہ دونوں ہاتھوں سے معذور ہو، یا اس کا ایک ہاتھ کٹا ہو یاوہ دونوں ہاتھوں سے معذور ہو، یا وہ دونوں ہاتھوں اور دونوں ٹانگوں سے معذور ہو مگر اس کے اندربھارت کی محبت کی رمق پھر بھی باقی ہو اور وہ معذروں والی ریڑھی پر سودا رکھ کر واہگہ کے آر پار تجارتی سفر کا شوق پورا کر سکے۔
میرے ملک کے یہ نو عمر وزیر ضرور جانتے ہوں گے کہ بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں لاہور سے زیادہ سنگین لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، دسمبر کے آخر اور جنوری کے ابتدائی دس دنوں کے دوران وہاں پٹرول کی قیمتوں میں دو بار اضافہ ہوا ہے۔بھارت کی اسی راجدھانی میں پینے کے پانی کی کم یابی کے ایشو کو ایکسپلائٹ کر کے عام آدمی پارٹی نے الیکشن جیت لیا ہے، بجلی کی مہنگائی کا ایشو بھی اس کی کامیابی کا ضامن بنا ہے اور لاکھوں ہوم لیس افراد کے مسئلے کی سنگینی نے بھی اس پارٹی کو الیکشن میں سونامی کی رفتار سے کامیابی عطا کی ہے۔بھارت کا سب سے ترقی یافتہ صنعتی شہر ممبئی بھی لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہے۔کلکتہ کے فٹ پاتھوں پر جنم لینے والے بچے اسی فٹ پاتھ پر دم توڑ جاتے ہیں۔ پیاز اور ٹماٹر کی مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ ایک اعلی عدالت کو کہنا پڑا کہ لوگ ایک ہفتے کے لئے یہ سبزیاں خریدنا بند کر دیں تو ان کی قیمتیںخود بخود نیچے گر جائیں گی۔
میں بھارت کی غربت اور اس کے افلاس کا نقشہ کھینچنے میں وقت ضا ئع نہیں کرنا چاہتا ۔یہ تو ایک ایسی حقیقت ہے جو روز روشن کی طرح ہر شخص پر واضح ہے، پھر بھی گوجرانوالوی پیر دستگیر کو بھارت سے کیا امید پیدا ہو گئی ہے۔جس ملک کے پاس اپنے لوگوں کی ضرورت کی بجلی نہیں ، وہ ہمیں کیا دے پائے گا ، جس کے ہاں پیاز مہنگا ہے تو ہم اس کو وہاں سے خرید کر اپنے عوام کو کیسے سستا بیچ سکیں گے اور جس ملک کی راجدھانی میں ہوم لیس افراد کے لئے عام آدمی پارٹی کو دن رات ایک کر کے خیمے لگانے پڑے ہیں ، وہ ہمیں سریا بنانے کے لئے کیا خام مال فراہم کر سکتا ہے۔ ہاں ، اس کے پاس ایٹم بم ہم سے زیادہ ہیں ، اگر خرم دستگیر ان کا سودا کر کے پاک بھارت ایٹمی توازن درست کر سکیں تو شاید یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہو گا۔
گوجرانوالہ میں آبادی کی اکثریت کشمیر سے تعلق رکھتی ہے،خرم صاحب ان لوگوں کی کوئی دستگیری کر سکیں تو یہ ان کا عظیم کارنامہ ہو گا، ان کشمیری خاندانوں کے لوگ مقبوضہ کشمیر میں بھی پھنسے ہوئے ہیں،ان کو آپس میں ملانے کے لئے مظفر آباد سری نگر بس بھی بند پڑی ہے اور تجارتی ٹرکوں کے قافلے بھی انڈیا نے یہ کہہ کر روک رکھے ہیں کہ ان میں ہیروئن بھری ہوئی ہے۔کل کلاں کو واہگہ چوبیس گھنٹے کھلے گا توپاکستان کے پاس اس ہیروئن کے سواا ور کیا مال ہے جو ایکسپورٹ کیا جا سکے گا۔ہاں، اسلحہ کی بھی بہتات ہے،بھارت میں اس کی وسیع مارکیٹ ہے، درجنوںصوبوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں ، ان کو جدید اسلحہ چاہئے، اب یہ اسلحہ لمبا چکر کاٹ کر نیپال کے راستے پہنچتا ہے، واہگہ کا روٹ نزدیک پڑتا ہے، اس راستے اسلحہ کم قیمت پر بھارتی علیحدگی پسندوں تک پہنچایا جا سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا بھارت اس خطر ناک مال کی تجارت کرنے دے گا۔
ساری دنیا منصوبے ایسے سوچتی ہے جو قابل عمل ہوں ، مگرہم شیخ چلی کی طرح خواب دیکھتے ہیں۔
بھارت نے تجارت کا جال اس چکر میں پھینکا ہے کہ وہ دنیا کو بتا سکے کہ پاکستان کا اس سے کوئی جھگڑا نہیں ،سب اچھا ہے۔ حالانکہ ا س نے کشمیر ہڑپ کر رکھا ہے، وہ آزاد کشمیر کو بھی اپنا حصہ قرار دیتا ہے، بھارتی پارلیمنٹ اس ضمن میں ایک قرارداد منظور کر چکی ہے۔بھارت کی ناردرن فوجی کمان کی ویب سائٹ پر آزاد کشمیر اور گلگت کا ذکر کیوں موجود ہے،اسے ان علاقوں کی مفلوک الحالی کاغم کیوں ہلکان کئے جا رہا ہے۔اور وہ مقبوضہ کشمیر کی خوشنما تصویر کیوں پیش کرتا ہے۔ ایک فوجی ویب سائٹ کا اقتصادی اور سیاسی معاملات سے کیا تعلق۔ مگر بھارت میں ہرادارہ یک سو ہے کہ اس نے مقبوضہ کشمیر کی طرح آزاد کشمیر اور گلگت کو بھی بہر صورت ہتھیانا ہے۔
ہر ملک کی طرح پاکستان کی معیشت کا انحصار بھی پانی پر ہے، آزادی کے بعد ہمیں ستلج، راوی، چناب، جہلم اور سندھ کا پانی دستیاب تھا مگر سندھ طاس معاہدے میں پاکستان کو اول الذکر دو دریاﺅںکے پانی سے محروم کر دیا گیا، اس کے بعد بھارت نے چناب اور جہلم کے پانی کو بھی کنٹرول کر لیا، سیاچین پر قبضے کے بعد سندھ اس کی پہنچ سے دور نہیں رہا۔وہ ان دریاﺅں کو قبضے میں لے کر ہمیںایتھوپیا اور صومالیہ کی طرح ریگستان میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔اس کے لئے اسے کچھ وقت چاہئے اور وہ پاکستان کو تجارت کے چکر میں الجھا کر یہ وقت حاصل کرنا چاہتا ہے، اس کے بعد خدا نخواستہ ہمارے ہاں ہر طرف خاک اڑ رہی ہو گی اور اگراسوقت تک بے رحم درندگی کے ہاتھوں کوئی زندہ بچ رہا تو بھارت کے ساتھ خاک کے ان ذروں کی تجارت ہی کر پائے گا۔
سبحان اللہ! خرم دستگیر نے کیا خوش نما منصوبہ تیار کیا ہے۔