واقعی محبت کے زمزمے بہہ نکلے، ادھر پھولوں کی پتیوں سے خون ٹپکا‘ ادھر قوم کے ولولے جاگ اٹھے۔ گلگت سے گوادر تک قوم پرنم آنکھوںکے ساتھ یکجا نظر آتی رہی، کنٹینر والے نیچے اترے اور جنازوں کو کندھے دیتے نظر آئے، کسی نے دکھیاری ماﺅں کے سر پہ ہاتھ رکھا اور کوئی بلکتے باپ کے آنسو پونچھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
قوی قیادت ایک جگہ جمع ہوئی تو قوم کی خوشیاں دیدنی تھیں، یہ منظر ناقابل یقین تھا، آنکھیں اس منظر کو دیکھنے کو برسوں سے ترس رہی تھیں۔سیاسی مخالفتوںنے قومی راہنماﺅںکی آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی مگریکا یک یہ کیا ماجرا ہو گیا کہ ہر سو جذبے بہار کی مانند چشموں سے پھوٹ رہے تھے، تاریخ میں ہم پینسٹھ کی اسپرٹ کا ذکر سنتے آئے ہیں ، نئی نسل نے اسے دیکھا نہ تھا مگر اب پھر وہی فضا ، وہی ماحول وہی یگانگت، وہی وحدت ، وہی ایکتا۔ کل کے سیاسی مخالف اور دشمن ایک میز پر آمنے سامنے اورساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔انہوںنے فیصلے کئے اور متفقہ طور پر کئے اور قوم عش عش کر اٹھی، قوم کی بھیگی پلکوں پر امید کی روشنی لہلہائی۔اور قومی افق پر ننھے شہیدوں کالہو ایسے چمکا کہ اگلی منزلیں روشن تر ہو گئیں۔داد دیجئے اس کے لئے حکومت وقت کو، وزیرا عظم کو، تمام صوبائی وزرائے اعلی کو اور تمام پارلیمانی گروپوں کو جنہوںنے اپنی انا کو ایک عظیم قومی مقصد کی خاطر پاﺅں تلے مسل دیا۔فیصلہ ہوا کہ دہشت گردی سے نبٹنے کے لئے قومی حکمت عملی تشکیل دی جائے گی۔اس کے لئے ایک کمیٹی بنی اور یہ شب وروز کام کر رہی ہے، اب نقاد حضرات بھی میدان میں اترے اور اس کمیٹی کی تشکیل پر ظنز کے تیر چلائے کہ جو کام نہ کرنا ہو، اسے کمیٹیوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے، نہیںبابا! یہ معاملہ نہیں تھا ، فوج کو دہشت گردی کے خلاف آخری یلغار کے لئے قوم کی مکمل تائید درکار ہے اوروزیر اعظم نے جو کمیٹی بنائی ، اس کی منزل بھی یہی ہے۔ اگر سب کام شتابی سے ہو جاتے تو یہ کہا جاتا کہ سویلین قیادت فوج کے دباﺅ میں ہے اور ہر کام ڈنڈے کے ڈر سے کیا جا رہا ہے، کہا تو اب بھی یہی جا رہا ہے کہ ڈرائیونگ سیٹ آرمی چیف نے سنبھال لی ہے اور وہ جو حکم دیتے ہیں من و عن اس پر دستخط کر دیئے جاتے ہیں۔ یہ کہنے والے سخت کج فہم ہیں۔ دفاعی امور اور سیکورٹی کے معاملات پر فوج اسی طرح حرف آخر ہے جس طرح ہسپتال کے آپریشن روم میں ہر فیصلہ سرجن کے ہاتھ میںہوتا ہے، اس صوبے کے وزیر اعلی یا انسپکٹر جنرل پولیس تو وہاں کھڑے حکم نہیں چلا رہے ہوتے۔فوج اگرآج سمجھتی ہے کہ سزا یافتہ دہشت گردوں کو پھانسی نہ دینے سے حالات بگڑ رہے ہیں تواس میں شک کس کو ہے۔اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ دہشت گردی پر قابو پانے کا کوئی دوسرا طریقہ بھی ہے تو وہ قوم کو قائل کرے اور ڈرائیونگ سیٹ خود سنبھال لے۔
حکومت اور فوج کے مابین اس وقت جو مکمل ہم آہنگی ہے، اس پر جو بھی معترض ہے، وہ دشمن کے ہاتھوںمیں کھیل رہا ہے، وہ انتشار کا خواہاں ہے اور ملک و قوم کو جنگ ہنسائی کا نشانہ بنانا چاہتا ہے۔
ایک طبقہ انسانی حقوق کے نام پر میدان میںکود پڑا ہے۔اسے پھانسیوں پر اعتراض ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ ان معترضین کو چھاتوںکے ذریعے کنڑ اور نورستان اور افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر پھینک دیا جائے تاکہ وہ انسانی حقوق کا سبق پہلے انہیں تو ازبر کروا لیں۔ ہم نے خواہ مخواہ اسکول بند کر دیئے، ان کے دروازوں پر انسانی حقو ق کے ان چیمپیئنز کو کھڑا کر دینا چاہیئے تھا تا کہ دہشت گرد اورنسانی حقوق کا درس دینے والے آپس میں دودوہاتھ کرتے رہیں۔
بعض عناصر بڑی ہوشیاری کا ثبوت دے رہے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ باجوڑ اور لال مسجد میں بھی بچے مرے تھے، غزہ میں بھی بچے مرتے ہیں، وہ بھی تو بچے تھے، ان کا ماتم کیوںنہ کیا، کون کہتا ہے کہ ان بچوں کا ماتم نہیں کیا گیا۔ ہم تو تھر میں بھوک اور بیماری سے مرنے والے بچوں کا ماتم بھی کرتے ہیں۔ہم تو اس روسول ﷺ کو ماننے والے ہیں جو اپنے ننھے لخت جگر کی لاش گود میں لیئے دلفگار تھے۔ہم تو کربلا کے شہید بچوں کا ماتم کرتے ہیں، اس قوم کو کون طعنہ دے سکتا ہے کہ وہ صرف پشاور کے بچوں کے لئے نوحہ خواں ہے۔
مجھے جو بھی شخص ملتا ہے ، اس کاایک ہی مطالبہ ہے کہ اسکول میں 142 شہید ہوئے، ہمیں بھی گن گن کر اور چن چن کر 142 دہشت گردوں کو پھانسی پرلٹکا دینا چاہیئے۔ اور چوکوں میں لٹکانا چاہیئے ، ضیا الحق نے ایک بچے کے تین قاتل سر عام پھانسی پر لٹکائے تھے، پھر راوی ہر سو چین لکھتا تھا۔دہشت گردوں نے تو 142 شہید کئے ہیں، بے دردی سے شہید کئے ہیں، ہلاکو اورچنگیز اورہٹلر کی روحیں بھی ان کی درندگی پر شرما گئیں، ان کے کونسے انسانی حقوق، حقوق انسانوں کے ہوتے ہیں ، درندوں کے نہیں۔درندوں کا علاج جم کاربٹ اورکینتیھ اینڈرسن سے کوئی سیکھے۔انسانی حقوق کا درس دینے والی یونیورسٹیوں کا گہوارہ اور ہماری این جی اوز‘ پر ڈالروں کی بارش کرنے والا امریکہ ،گوانتا نامو میں کس قدر انسانی حقوق کا خیال کرتا رہا۔
یہ درست ہے کہ کسی نہ کسی وجہ سے ہمارے ہاں دہشت گردوں کے حامی طبقات موجود تھے۔مگر اب مولاناسمیع الحق نے دہشت گردوں کی ہمدردی سے انکار کر دیا، منور حسن نے قتال فی سبیل الشیطان کی اصطلاح پیش کر دی،بہتر ہو گا کہ فضل الرحمن بھی شرح صدر سے کام لیں، وہ کشمیر کمیٹی کے سربراہ ہیں او رکشمیری نوجوانوں پربھارتی فوج کی درندگی کی مذمت کرتے ہیں تو انہیں پاکستانی بچوں پر قیامت ڈھانے والوں سے کیا ہمدردی ہوسکتی ہے۔
اگر ہم ایک قوم بن جائیں، امت واحدہ کی شکل ا ختیار کر لیں، نواز شریف ا ور عمران نے اپنی اپنی انا کو مار لیا ، باقی سیاستدان اور قومی راہنما بھی ان کے نقش قدم پر چل نکلیں تو دہشت گردوں کو روئے زمین پر کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ کم از کم ہماری افواج نے یہی تہیہ کر رکھا ہے۔