ڈاکٹر بابر اعوان نے تخلیقی صلاحیتوں والے قابل اعتبار افسر اور حکومت کے میڈیا ایڈوائزر بے مثال اور بے قاعدہ شاعر شعیب بن عزیز کا ایک شعر تھوڑی سی تبدیلی کے لئے موجودہ صورتحال کے حوالے سے پڑھا۔ میرے خیال میں یہ شعر ہر صورتحال کے لئے تقریباً برمحل ہوتا ہے۔ ذوق و شوق والے سیاسی رہنما ڈاکٹر بابر اعوان نے شعر یوں پیش کیا۔
اب اداس بیٹھے ہو گرمیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
اصل مصرعہ تو دوسرا ہے جو خود بھی بہت بڑی حقیقت کا ترجمان ہے۔ پہلا مصرعہ اس طرح ہے۔
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اداس تو سردی کی شام ہوتی ہے۔ مگر آج کی شاموں کی اداسی میں مایوسی اور بے چینی گھلی ہوئی ہے۔ جبکہ ان شاموں کو رومانٹک بنانے میں نوجوان لڑکیوں کے والہانہ رقص کا بڑا رول ہے۔ بلکہ رولا ہے۔ ڈاکٹر بابر اعوان اور شعیب بن عزیز سے کبھی کبھی بات ہوتی ہے۔ ہم اپنے اپنے درد و غم کی کیفیتوں کو رلاتے ملاتے رہتے ہیں۔
جو کچھ عمران خان اور اس کے ’’مارچئے‘‘ کر رہے ہیں کیا وہ نئے پاکستان کا منظر نامہ ہے۔ بے محل اور بے محابا ناچتی ہوئی لڑکیاں جب ٹھمکے لگاتی ہیں تو جڑواں شہروں کے سارے لوفر خوش ہوتے اور انجوائے کرتے ہیں۔ اس حوالے سے طیبہ ضیا کا کالم بہت دردناک تھا۔ شرمناک صورتحال کی عکاسی بہت اچھی طرح کی گئی ہے۔ مجھے کئی فون آئے۔ ہر مرد و عورت زاروقطار رو رہی تھی۔ نئے پاکستان میں قائداعظم اور اقبال کا پاکستان کہاں ہے؟ میں نے مجید نظامی کو نئے پاکستان کے نعرے کی مذمت کرتے ہوئے سنا ہے میں نیا پاکستان کا شہری نہیں بننا چاہتا۔ یہ نیا پاکستان کسی طور قابل قبول نہیں ہے۔ میں اس طرح نواز شریف کی حمایت نہیں کر رہا۔ ان سے بہت اختلافات اور شکائتیں ہیں جن کا اظہار میرے کالموں میں ہوتا رہتا ہے مگر میں عمران خان کو بہت خطرناک سمجھتا ہوں۔ غیراخلاقی اور غیرسیاسی صورتحال غیرجمہوری بھی ہے۔ غیر پاکستانی صورتحال کو میں غیر آئینی سے زیادہ برا سمجھتا ہوں۔ کوئی کہے کہ یہ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ طاہر قادری اور ان کے ساتھیوں کا رویہ عمران سے بہت بہتر ہے۔
اس صورتحال کو ہمارا الیکٹرانک میڈیا برابر دکھا رہا ہے۔ عمران کی تقریریں کس قدر غیرمہذب ہیں۔ جب اس نے کہا کہ ہم ’’ریڈ زون‘‘ میں داخل ہو رہے ہیں اور ممبران اسمبلی اور ن لیگ کے لوگوں کی شلواریں گیلی ہو گئی ہیں۔ گھروں میں لوگ ٹی وی دیکھ رہے ہیں۔ میڈیا کو یہ جملہ نشر نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اس جملے پر علامہ طاہر اشرفی نے کہا شرم کرو ایسی بات سرعام اس طرح کہنا شریفانہ نہیں ہے۔ یہ بدمعاشی عیاشی اور فحاشی ناقابل معافی جرم ہے۔ کل کوئی بولتے بولتے اپنی قمیص وغیرہ اتار کر پھینک دے تو کیا یہ سب کچھ میڈیا دکھائے گا۔ میڈیا کی پالیسی سے تو یہی لگتا ہے کہ جو کچھ وہ دکھا رہا ہے سنوا رہا ہے سب کچھ دکھائے گا۔ کوئی چیک اینڈ بیلنس ٹی وی چینلز کے لئے نہیں ہے۔ اخبارات میں کئی جگہوں پر شائع ہونے والی چیزوں کو دیکھا پرکھا جاتا ہے مگر چینلز پر ایسی کوئی روایت نہیں ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ جیسے اخبارات میں معذرت شائع ہوتی ہے۔ ٹی وی چینلز کو بھی عمران خان کی لغو گوئی اور ہرزہ سرائی کے لئے نشریات کے حوالے سے معذرت کرنی اور قوم سے معافی مانگنی چاہئے۔ فحاشی پھیلانے کی اجازت نہیں ہونا چاہئے اور عیاشی کو پروموٹ کر کے نشر کرنا بھی غیرقانونی ہونا چاہئے۔ اسلام آباد سے میرے غیرسیاسی مگر وطن دوست بھائی نواز چیمہ نے فون کر کے بتایا کہ عمران خان کی تقریروں پر غیراخلاقی ہونے کا الزام تو ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ اردو کو خراب کر رہا ہے۔ ایسی اردو تھوپنے کی کوشش جا رہی ہے جو قومی زبان نہیں ہے۔ نہ قومی امنگوں کے مطابق ہے۔ میرا خیال ہے کہ اردو زبان اتنی غیرمہذب زبان نہیں ہے۔
ایک دوست نے مجھے نیازیوں کے ’’کارناموں‘‘ کے لئے شرمندہ کیا کہ ایک نیازی نے مشرقی پاکستان میں کیا کیا۔ دوسرا نیازی باقی ماندہ پاکستان کے ساتھ کیا کر رہا ہے۔ وہ اپوزیشن ہوتے ہوئے نواز شریف کے خلاف جو بھی کرے مگر پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے تو ناقابل برداشت باتیں نہ کرے۔ میری گذارش ہے کہ جنرل نیازی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار نہیں ہے مگر اس کا قصور صرف یہ ہے کہ اس نے دشمن بھارت کے جرنیل کے سامنے ہتھیار کیوں ڈالے۔ اس وقت بھی بھارت اورکئی بیرونی قوتیں پاک فوج کو بدنام اور ناکام کرنے پر لگی ہوئی تھیں۔ ورنہ بنگلہ دیش بننے کے بعد ہتھیار ڈالنے کی باقاعدہ تقریب ایک اضافی شرمناک سازش تھی۔ میں نے جنرل نیازی کے لئے لکھا تھا کہ تم وہاں اپنے آپ کو گولی مار لیتے مگر ہتھیار نہ ڈالتے۔ خدا کی قسم میں اس خود کشی کو شہادت قرار دے دیتا خواہ میرے مولوی بھائی میری تکہ بوٹی کر دیتے۔ میں دل میں سوچتا ہوں کہ یا وہ نیازی نہ ہوتا یا میں نیازی نہ ہوتا۔ جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تو نجانے کس احساس کمتری اور احساس جرم سے گھبرا کر وہ نیازی اپنے نام کے ساتھ نہیں لکھتا۔ مگر وہ نیازی تو ہے۔ نیازی پٹھانوں کو اس طرح سرعام بچیوں کو نچوانا کسی طرح گوارہ نہیں ہے۔ ہمارے کلچر کے حوالے سے یہ سیدھی سیدھی بے غیرتی ہے۔ اس کے بعد بے غیرت لابی میرے خلاف اٹھ کھڑی ہو گی۔ مگر میں سمجھتا ہوں:
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
جو تگ و دو عمران خان لڑکوں لڑکیوں سے کروا رہا ہے میں اس کے جائز اور ناجائز ہونے کی بات ابھی نہیں کرتا مگر عزت بے عزتی کے حوالے سے یہ ناقابل قبول ہے۔ ہمارے الیٹرانک میڈیا کو ان شرمناک مناظر کی کوریج بند کر دینا چاہئے۔ یہ سیاسی شطرنج ہے جو کھیلی جا رہی ہے۔ خود عمران خان نے کہا کہ یہ میری زندگی کا سب سے بڑا جوا ہے مگر وہ بڑا جواری نہیں ہے۔ شطرنج میں پیادے کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ایک مہرے کو فرزین بھی کہتے ہیں۔ وہ ایک خاص اہمیت کا مالک ہوتا ہے یا مالک ہوتی ہے۔ میرا اشارہ پی ٹی وی کے ایم ڈی اور اینکر پرسن محمد مالک کی طرف نہیں ہے۔ علامہ اقبال کے اس شعر میں کس کس طرح اشارے پائے جاتے ہیں؟ پہلے مصرعے کے لئے شعیب بن عزیز نے بھی میری مدد نہیں کی۔ اصل مصرع دوسرا ہے۔ پھر بھی آزادی مارچ میں بچھی ہوئی شطرنج کے سارے پیادوں سے معذرت کے ساتھ عرض ہے۔ مگر حسب معمول استاد محترم المقام ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے اصل قطعہ مجھے سنا دیا۔ آپ بھی سنیں اور موجودہ صورتحال کے حوالے سے غور کریں۔ بال جبریل میں علامہ اقبال کے قطعے کا عنوان ہے سیاست:
اس کھیل میں تعین مراتب ہے ضروری
شاطر کی عنایت سے تو فرزیں میں پیادہ
بے چارہ پیادہ تو ہے اک مہرۂ ناچیز
فرزیںسے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ
ایک رپورٹ کے سوال پر شاہ محمود قریشی برہم ہوئے پھر درہم برہم ہو گئے۔ آپ نے اب آرمی چیف کے کہنے پر مذاکرات شروع کئے ہیں؟ مگر نوازشریف کے پاس بھی ایسے لوگ بہت ہیں اللہ کی شان ہے کہ اب نوازشریف کا دفاع کرنے کے لئے امتیاز عالم، پرویز رشید اور نجم سیٹھی سامنے آ گئے ہیں۔ عمران کی تقریر کے دوران ہمیشہ جاوید ہاشمی حیران پریشان نظر آتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کھسیانی مسکراہٹ کے ساتھ خوش خوش دکھائی دیتے ہیں۔ اب ملتان میں ان کے گھر پر ن لیگیوں نے حملہ کیا ہے۔ نجانے یہ حملہ کس نے کرایا ہے ن لیگ کی قیادت تو قریشی صاحب سے مطمئن ہے۔ عمران یوٹرن کے بادشاہ ہیں بلکہ بادشاہ سلامت ہیں ہماری بدقسمتی ہے کہ اپوزیشن اور حکومت میں بادشاہوں سے واسطہ پڑا ہے۔ تمہیں اللہ کا واسطہ ہے۔ پاکستان پر ترس کھائیں۔ پاک فوج کو زیادہ امتحان نہ ڈالیں۔ لگتا ہے کہ دونوں کے ہاتھ سے صورتحال نکل چکی ہے۔ مجھے عمران خان کا نیا پاکستان قبول نہیں ہے۔ نواز شریف بھی نجانے کیسا پاکستان بنانا چاہتے ہیں؟ ہمیں تو قائداعظم کا پاکستان چاہئے۔ میرے محبوب و مرشد مجاہد صحافت مجید نظامی کا یہ تکیہ کلام تھا قائداعظم کا پاکستان۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38