سپریم کورٹ میں ایک دلچسپ مقدمہ پیش ہوا ہے کہ آئین سے ماورا ممکنہ ا قدام کی ممانعت کی جائے۔عدالت نے قادری اور عمران کو حاضری کے نوٹس بھیجے،دونوں حاضر نہیں ہوئے، عمران کے ایک وکیل پیش ہوئے اور انہوں نے یقین دلایا کہ ان کی جماعت کوئی ماورائے آئین اقدام نہیں کر رہی۔
امریکہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں ماورائے آئین اقدام نہ کیا جائے، امریکی حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ منتخب وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ ماورائے آئین ہے۔عمران نے امریکی حکومت کو بے نقط سنائی ہیں،آج تک عمران ہر ایک کو بے نقط ہی سنا رہے ہیں، ابھی تک ان کی خوش کلامی سے کوئی محفوظ ہے تو وہ ہے پاک فوج اور ان کے سربراہ جنرل راحیل شریف۔عمران کی دماغی کیفیت کے پیش نظر تعجب ہوتا ہے کہ وہ فوج کو بے نقط کیوںنہیں سنا رہے۔اس کا مطلب ہے کہ ابھی تک ان کے دماغ کا کوئی خلیہ صحیح کام کر رہا ہے۔
عمران نے پولیس کو ٹھیک ٹھیک نشانے پر رکھا ہوا ہے، کبھی کہتا ہے کہ دھاندلی میں پولیس شامل تھی، کبھی کہتا ہے کہ پولیس اندر سے اس کے ساتھ ہے، کبھی آئی جی پولیس کو جیل بھجوانے اور اسے مکے رسید کرنے کی دھمکی دیتا ہے ،کبھی کارکنوں سے کہتا ہے کہ اسے کچھ ہو گیا تو نواز اور شہباز کو نہ چھوڑنا، کبھی کہتا ہے کہ پارلیمنٹ پر قبضہ کر لوں گا، کبھی کہتا ہے کہ وزیر اعظم ہائوس پر قبضہ کر لوں گا۔سپریم کورٹ میں عمران کے وکیل نے صحیح کہا ہے کہ ان کی جماعت کوئی ماورائے آئین اقدام نہیں کر رہی، گویا صبح سویرے عمران اور اس کے کارکن پہلے تو آئین کی تلاوت فرماتے ہیں، پھر رات بھر کی تھکاوٹ اتارنے کے لئے خراٹے بھرتے ہیںا ور جیسے ہی رات کا اندھیرا پھیلتا ہے ان سب کی ا ٓنکھیں کھل جاتی ہیں اور عمران کی تقریریں شروع ہو جاتی ہیں ، روز روز ایک ہی بات، وزیر اعظم استعفے دے، پارلیمنٹ توڑ دی جائے،نئے الیکشن کروائے جائیں، اور ایک معصوم سی خواہش کا اظہار بھی کہ عمران کوا گلا وزیر اعظم منتخب کر لیا جائے، کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک، شاعر بے چارہ روتا ہی رہ گیا۔کسی نے یہ بھی کہا کہ دو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گئے۔ایک صاحب نے کف افسوس ملتے ہوئے کہا تھا کہ جام کے ہونٹوں تک پہنچنے میں کسی اگر مگر کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔عمران خان نے کچھ خواب دیکھے تھے، سہانے خواب، وہ انہیں قوم کے لئے ڈرائونے خوابوں میں بدل دینا چاہتا ہے۔
عمران گھر نہیں بسا سکا، اس کی بیوی نے اس سے طلاق لے لی، وہ بچوںکو بھی ساتھ لے گئی۔ عمران ان کو لانگ مارچ کے لئے واپس لایا مگر شہزادے ہجوم میں سے کھسک گئے اور عمران دس لاکھ کا مجمع اکٹھا کرنے کی حسرت بھی پوری نہ کر سکا ۔اس نے خیرات اکٹھی کر کے کینسر کا ہسپتال بنایا مگرا سے خیراتی ہسپتال نہ بنا سکا، یہ اس کے لئے بڑی تجارت بن گیا۔یہ ہے عمران کی فرسٹریشن کی اصل وجوہات۔
سوشل میڈیا پر کسی ستم ظریف نے تجویز پیش کی ہے کہ اب عمران کومالی خولیا کے علاج کے لئے زمان پارک کے اپنے گھر میں ایک کمرے پر مشتمل ادارہ بنانے کے لئے فوری جتن کرنا چاہئے۔
لوگ سانس روکے اسلام آباد کے سیاسی ڈرامے یا بحران کے انجام کاانتظار کر رہے ہیں، بعض نے تو اعلان کر دیا ہے کہ مارشل لالگا تو وہ اس کے خلاف ڈٹ جائیں گے۔ ایک میڈیا ہائوس نے ملک کے بڑے شہروں میں بیک وقت سیمینارز کا اہتمام کیاہے کہ موجودہ حالات میں تہتر کا آئین کیا کہتا ہے۔ یہ ایک ملفوف موضوع ہے ، اصل موضوع ہے کہ تہتر کے دستور کے تحت فوج کو مارشل لا لگانے سے کیسے روکا جائے، یہ میڈیا ہائوس فوج کے ساتھ ایک جنگ پہلے بھی لڑ چکا ہے جس میں اسے چت ہونا پڑا۔ اب نئی جنگ کا طبل بجا دیا گیا ہے اور اسے اچانک یاد آگیا ہے کہ اس کی نشریات چارماہ سے کیبل پر بند ہیں اور اب لاہور میں دھمکی آمیز فون کئے جا رہے ہیں کہ یہ چینل کیبل پر نہ دکھایا جائے۔ لگتا ہے کہ نئی جنگ میں یہ میڈیا ہائو س تنہا نہیں ، پہلے بھی تنہا نہیں تھا، اب بھی اس کے دست و بازو اور یمین و یسار میں سارے چہرے بے نقاب نظر آ رہے ہیں۔
تہتر کے دستور کی بالا دستی ہونی چاہئے، اس پر کون اختلاف کرے گا مگر تہتر کے دستو رپر قادری ا ور عمران سے بھی عمل کروایا جائے۔ وکلا اور سول سوسائٹیء اور میڈیا کا وہ طبقہ جو ممکنہ ماورائے آئین اقدام کے خلاف آستینیں چڑھا رہا ہے، وہ پچھلے دو تین ہفتوں سے خواب خرگوش میں کیوںمست ہے ، اسے قادری کی ہر دھمکی تہتر کے آئین کے عین مطابق نظرآئی۔ عمران کی ساری چیخ و پکار بھی تہتر کی تفسیر نظر آئی۔کسی کو نہ چھوڑنا ، کسی کو نہ چھوڑنا۔ تہتر کے آئین کا کون ساآرٹیکل ہے۔
ان دنوں میرے جیساجو شخص جمہوریت کی بالا دستی کی بات کرتا ہے، وزیر اعظم کے استعفے کی مخالفت کرتا ہے تو اس سے سوال پوچھا جاتاہے کہ شریف برادران نے کتنے میں خریدا ہے۔جواب یہ ہے کہ کسی نے نہیں خریدا، جو مروڑ تہتر کے آئین کے لئے آپ کے پیٹ میں اٹھ رہا ہے، وہی مروڑ ہمارے پیٹ میں بھی اٹھ رہاہے، فرق یہ ہے کہ ہم موجودہ بحران کے ٹلنے کے بعد بھی تہتر کے آئین کی بالا دستی کی بات کرتے رہیں گے، شریف برادران کو جمہوری رویہ اپنانے پر زور دیتے رہیںگے، شاہزادوں اور شہزادیوں کی فوج ظفر موج کو فارغ کرنے کاا صرار جاری رکھیں گے اور آپ بدستور شریف برادران کے تلوے چاٹنے اور میرے جیسے نقادوں پرتبرے کرنے میںمصروف نظرا ٓئیں گے۔
مگر میں آج آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ کہاں سو رہے ہیں۔ غزہ میں پھول جیسے بچے مر گئے، آپ سوئے رہے، اس سے پہلے تھر میں فاقہ کش بچے مر گئے، آپ سوئے رہے، ڈیڑھ سال سے نواز شریف بادشاہوں کی طرح حکومت چلا رہا ہے، آپ سوئے رہے،کشمیر کی شہادتوں پر آپ سوئے رہے ، بھارت نے پانی بند کر دیا، آپ سوئے رہے، دہشت گردوںنے پاکستان میںساٹھ لاکھ بے گناہوں کا قتل عام کیا، آپ سوئے رہے اور آپ صرف اس وقت جاگے ہیںجب آپ کو ممکنہ ماورائے آئین کا ڈرائونا خواب نظر آیا ہے۔ مگر جب قادری اور عمران لاہور سے نکلے تو تب بھی آپ سوئے رہے ، وہ دھمکی پہ دھمکی دیتے رہے، آپ سوئے رہے، آپ ہڑ بڑا کر اس وقت جاگے ہیں جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
تو گویا آپ ہر فساد پر خاموش تماشائی بن سکتے ہیں۔مگر فساد پر قابو پانے کی ا ٓخری تدبیر آپ کو ماورائے آئین نظرا ٓتی ہے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ تھائی لینڈ میں آج ہی پارلیمنٹ نے باوردی آرمی چیف کو وزیر اعظم منتخب کر لیا ہے تو کیا یہ ماورائے آئین اقدام تو نہیں۔اور اگر ہے تو آپ نے اسے روکنے کے لئے کیا کوشش کی ہے یا کرنا چاہتے ہیں ، کیا آپ عمران خان کو بتا سکتے ہیں کہ وہ جس التحریر اسکوائر کا شاہنامہ سناتا ہے، اس کے سارے کردارجیلوںمیں گل سڑ رہے ہیں اور نیا حسنی مبارک ملک کا صدر منتخب ہو چکا ہے، اس کا نام ہے جنرل السیسی، وہ مصری فوج کا سابق سربراہ ہے اور صرف صدر بننے کے لئے اس نے وردی اتاری ہے۔
اسلام آباد کی ایک سڑک پر اسکندر نامی ایک فرد نے بڑی کھلبلی مچائی تھی، اس وقت بھی پوری قوم خاموش تماشائی تھی، صرف ایک شخص جاگا تھا، اس کا نام تاریخ میں رقم ہو گیا ، وہ تھازمرد خاں، کیا اس قوم کی مائوںنے صرف ایک زمرد خان پید اکیا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38