ابھی الیکٹرانک مِیڈیا کا نام و نشان بھی نہیں تھا کہ جب اُستاد سحرؔ نے کہا کہ؎
’’اہلِ محشر تھمے رہوکل تک
آج میرا بیان ہونے دو!‘‘
اب صُورت یہ ہے کہ ہر روز صبح شام اور رات گئے تک ہر نیوز چینل پر اینکر پرسن کے حضُور ’’اہلِ محشر‘‘ رونق افروز ہوتے ہیں۔ایک دوسرے کی بات کاٹ کر اعضاء کی شاعری کرکے، مُنہ چڑا کر اور اینکر پرسن کا ڈسپلن توڑ کر اور بعض اوقات اُس کی ڈانٹ کھا کر بھی اِصرار کرتے ہیں کہ ؎
’’پہلے میرا بیان ہونے دو!‘‘
مفتی نعیم صاحب کا بھی ایک ووٹ؟
20اپریل کی شب کراچی کے مفتی محمد نعیم صاحب نے موضوع سے ہٹ کر فرمایا’’جمہوریت کیا ہے؟ جِس میں ہمارے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا بھی ایک ووٹ ہے اور کسی درزی اور موالی (بدمعاش) کا بھی ایک ایک ووٹ‘‘۔ مفتی صاحب نے بے چارے درزی کو حقارت سے دیکھا۔ اگر درزیوں کا طبقہء نہ ہوتا تو عام انسانوں اور اپنے منصب اور طبقے کے لحاظ سے لباسِ فاخرہ پہننے والوں کا کیا ہوتا؟۔ موچی جلاہے اور باربر نہ ہوتے تو جمہوریت پر بحث کرنے والے کیا کرتے؟۔ جِس معاشرے میں بدمعاش نہ ہوں، پھِراُنہیں راہِ راست پر لانے کے لئے عُلماء کی کیا ضرورت؟ علّامہ اقبال نے کہا تھا؎
’’جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جِس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں، تو لا نہیں کرتے‘‘
کِتنی ہی بھاری بھرکم شخصیت کیوں نہ ہو، اُس کا ووٹ ایک ہی ہوتا ہے۔ علّامہ اقبال ؒ نے یہ بھی تو کہا تھا کہ؎
’’مَیں اُس کا بندہ بنوں گا جِس کو
خُدا کے بندوں سے پیار ہوگا‘‘
خُدا کے بندوں سے پیار کرنے والوں کے لئے تو ایک ہی ووٹ کافی ہے۔محترم مفتی محمد نعیم صاحب آپ کے لئے بھی!۔
دِیر (Deer) نہیں، دَیر (Dair)
ایک نیوز چینل پر ظاہری طور پر علّامہ فہامہ کوٹ پتلون اور ٹائی پہنے فرنچ داڑھی والے، دِن میں پندرہ بیس بار اپنے پروگرام ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘‘ کے ٹریلر میں بین المذاہب ہم آہنگی کا اشتہار بن کر آتے ہیں۔ اور مسجد مندر کا تذکرہ کرتے ہُوئے گِرجا کو دَیر (Dair) کے بجائے دِیر (Deer) کہتے ہیں ۔کوئی انہیں پوچھنے اور ٹوکنے والا بھی نہیں ۔ ’’دِیر‘‘ سے تعلق رکھنے والے جنرل (ر) حمید گُل بھی بُرا نہیں مناتے کہ اُن کے ضلع کو عیسائیوں کے گِرجا سے کیوں منسوب کِیا جا رہا ہے؟ کیا ہی اچھا ہو کہ ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘‘ کی تلاش میں نِکلنے سے پہلے ’’علّامہ فہامہ‘‘ قِسم کے لوگ زمین پر بھی نظریں ڈال لِیا کریں؟۔
طالبان کی زبان؟۔
گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’ طالبان کی طرف سے دی گئی دھمکی سے حکومت اور عوام خائف نہیں ہیں ۔وہ جِس زبان میں بات کریں گے ،حکومت کی زبان بھی اُسی زبان میں کرے گی ۔اب نرم گوشہ اپنانے کا وقت گُزر گیا ‘‘۔ چودھری صاحب کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے اب طالبان کے لئے ’’گرم گوشہ ‘‘اپنانے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔یہ حکومت کی صُوابدِید ہے ۔عوام تو چاہتے ہیںکہ اُن کے لئے پاکستان ’’گوشہء عافیت‘‘ بن جائے۔ مرزا غالبؔ بھی اپنے محبوب سے مذاکرات میں ناکام ہو گئے تھے جب انہوں نے کہا تھا
’’ یا رب وہ نہ سمجھے ہیں، نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دِل اُن کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور ‘‘
مرزا غالب ؔ کی مادری زبان تُرکی تھی لیکن وہ ،شاعری فارسی اور اردو میں کرتے تھے ۔طالبان کی اکثریت فارسی اور پشتو یا پختو بھی بولتی ہے ۔ اُن میں اردو بولنے والے بھی ہیں ۔اُزبک ،تاجک ،چیچن ،عرب اور نہ جانے کِس کِس مُلک کے طالبان اور وہ کون کون سی زبان بولتے ہیں؟ ۔پنجابی طالبان کا ایک گروہ بھی ہے ۔ چودھری محمد سرور اردو ،پنجابی ، انگریزی ،جرمن اور فرنچ جانتے ہیں ،لیکن خادمِ اعلیٰ میاں شہباز شریف ’’ہفت زبان‘‘ یا ’’ہشت زبان‘‘ ہیں۔ کیوں نہ طالبان سے اُن کی زبان میں بات کرنے کا ٹاسک خادِ اعلیٰ کو دے دیا جائے ؟۔
چودھری رحمت علی کا جسدِ خاکی!
وزیرِ مذہبی امور سردار محمد یوسف نے مطالبہ کیا ہے کہ ’’پاکستان کا نام تجویز کرنے والے چودھری رحمت علی کے جسدِ خاکی کو پاکستان لا کر قائدِ اعظم ؒ کے پہلو میں دفن کِیا جائے۔ یہ صِرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ پوری قوم کی ہے۔ محترم سردار صاحب! چودھری رحمت علی پاکستان آکر واپس لندن چلے گئے تھے۔ وہیں اُن کا انتقال اور تدفِین ہُوئی تھی۔چودھری صاحب نے پاکستان میں دفن ہونے کے لئے کوئی وصِیت بھی نہیں کی تھی۔ اگر سردار محمد یوسف کے مطالبے پر حکومت چودھری رحمت علی کے جسدِ خاکی کو پاکستان لا کر قائدِ اعظم کے پہلو میں دفن کر دے تو قوم کو کیا اعتراض ہے؟ اور بھلا پوری قوم چودھری رحمت علی کے جسدِ خاکی کو لانے کے لئے لندن کا وِیزا کیوں اپلائی کرے؟۔
"Fool Proof Security"
سابق صدر زرداری ( اور پارٹی میں اُن سے عہدے میں بڑے) اُن کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری 27/26اپریل کو لاہور پہنچیں گے اور وہاں اپنے ’’بم پروف محل‘‘ میں رہیں گے۔ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کی فرمائش پر حکومت ِ پنجاب نے دونوں قائدِین کے لئے "Fool Proof Security" کا انتظام کرنے کا وعدہ کر لِیا ہے۔ لاہور سے شاعرہ اورادیبہ محترمہ امینہ عنبرین نے مجھ سے پوچھا کہ ’’یہ فول پروف سیکورٹی کیا ہوتی ہے؟ مَیں نے کہا کہ میری انگریزی تو لڑکپن سے ہی کمزور ہے۔ مَیں تو بس یہی سمجھ پایا ہُوں کہ ’’ اگر کوئی"Fool" (بیوقوف) جنابِ آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی سیکورٹی کا ایسا حصار توڑنے کی کوشش کرے گا تو وہ اپنی اِس حرکت کا خمیازہ خُود بھُگتے گا‘‘۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38