10 نومبر 2015ء کو اسلام آباد میں جنرل راحیل شریف نے کور کمانڈرز کانفرنس سے خطاب کیا۔ دوسرے روز آئی، ایس، پی ، آر کی طرف سے پریس ریلیز جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا تھا کہ ’’جنرل راحیل شریف کے خطاب کا خاص نکتہ یہ تھا کہ‘‘ دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لئے آپریشن ضرب العضب کے اچھے نتائج کو دیر پا بنانے کے لئے اتنی ہی بہتر ’’Governance‘‘ (طرز حکمرانی) بھی ضروری ہے۔ جنرل راحیل شریف کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ جناب اسفندر یار خان کا تبصرہ خوب تھا۔
اندر سے ’’Do More‘‘ کی آوازیں!
خان صاحب نے کہا تھا کہ ’’مختلف اوقات میں امریکہ کی طرف سے اپنی پالیسیوں پر عملدرآمد کے لئے اور پاکستان پر دبائو ڈالنے کے لئے کہا جاتا تھا کہ ’’Do More‘‘ (مزید کچھ کرو) اور جب ہمارا کوئی حکمران امریکہ کا یہ حکم ماننے سے انکار کردیتا تھا تو ’’وائٹ ہائوس‘‘ کا مکین اسے اقتدار کے رنگ محل سے نکال دیتا تھا۔ اپنے اس تبصرے میں جناب اسفندر یار خان نے اپنی خواہش بیان کی تھی یا وزیراعظم نواز شریف سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں اپنا طرز حکمرانی بہتر بنانے کا مشورہ دیا تھا؟ وہ انہیں ہی معلوم ہوگا۔ میں نے تو 15 نومبر 2015ء کے ’’نوائے وقت‘‘ میں ‘‘اندر سے DO More کی آوازیں‘‘ کے عنوان سے کالم لکھ کر اپنا فرض ادا کردیا تھا۔
آزاد کشمیر میں طرز حکمرانی؟
11 جولائی 2016ء کو آزاد ریاست جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو صرف 2 نشستیں ملی تھیں اور مسلم لیگ نون کو 32 اس سے پہلے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، مختلف مقامات پر انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے ووٹروں سے کہا کرتے تھے کہ ’’آپ مودی کے یار وزیراعظم نواز شریف کو ووٹ نہ دیں‘‘ وفاق میں مسلم لیگ نون کا طرز حکمرانی جنرل راحیل شریف کو نظروں میں پسندیدہ نہیں تھا اور وزیراعظم نواز شریف کی بھارتی وزیراعظم شری نریندر مودی سے دوستی کے چرچے بھی حریت پسند کشمیریوں کو پسند نہیں تھے لیکن جناب بھٹو کے ’’روحانی فرزند‘‘ جناب آصف زرداری کا وہ بیان بھی کشمیریوں (خاص طور پر آزاد کشمیر کے عوام) کو چبھتا تھا جو جناب زرداری نے ستمبر 2008ء میں صدر پاکستان کا منصب سنبھالنے کے فوراً بعد دیا تھا کہ ’’کیوں نہ ہم مسئلہ کشمیر کو 30 سال کے لئے ’’Freeze‘‘ (منجمد) کردیں؟
صدر زرداری اور ان کے وزرائے اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز مشرف کا طرز ’’حکمرانی بھی ناقابل رشک تھا اور ان کے دور میں حکومت آزاد جموں و کشمیر کا وہاں کی ہر حکومت کا یہی مسئلہ رہا ہے۔ 1993ء میں سردار عبدالقیوم خان وزیراعظم آزاد کشمیر تھے۔ 27 ستمبر 1993ء کے قومی اخبارات میں خبر شائع ہوئی تھی کہ ’’وفاقی حکومت کی طرف سے دی جانے والی تین ارب 87 کروڑ روپے کی امداد میں سے تین ارب روپے غیر ترقیاتی کاموں پر خرچ کردئیے گئے ہیں’’ سردار عبدالقیوم کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے علمبردار تھے‘‘ ان دنوں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت پاکستان بھی مالی بحران کا شکار تھی۔ 29 ستمبر 1993ء کو ’’نوائے وقت‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا۔ ’’کشمیر بن گیا پاکستان‘‘
11 جولائی 2016ء کے انتخابات میں سردار عبدالقیوم کی وارث جماعت ’’مسلم کانفرنس‘‘ کو صرف تین نشستیں ملی ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف کی حکومت (دراصل پاک فوج) مقبوضہ اور آزاد کشمیر کی لائن آف کنٹرول کی حفاظت کی ذمہ دار ہے۔ کشمیری نژاد خواجہ محمد آصف وزیر دفاع ہیں۔ وفاقی وزیر امور کشمیر چودھری برجیس طاہر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ’’مسئلہ کشمیر کے حل میں بہت سنجیدہ ہیں‘‘ مولانا فضل الرحمن (وفاقی وزیر کی مراعات کے ساتھ) 8 سال سے چیئرمین کشمیر کمیٹی ہیں۔ جناب سرتاج عزیز کسی دور میں مکمل اور با اختیار وزیر خارجہ رہے ہیں۔ اب تین سال اور چارہ ماہ سے مشیر خارجہ ہیں۔ انچارج امور خارجہ جناب وزیراعظم ہیں۔ 27 اگست 2016ء کو جناب وزیراعظم نے کشمیر کا مقدمہ لڑنے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے عالمی برادری کا ضمیر جھنجھوڑنے کے لئے 22 ارکان پارلیمنٹ کی ڈیوٹی لگا دی ہے۔
18 اکتوبر کو (تین دن پہلے ) پتہ چلا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) سینیٹر عبدالقیوم نے وزیراعظم پاکستان کے خصوصی ایلچی کی حیثیت سے لندن میں برطانیہ کے سابق چیف آف ڈیفنس برٹش آرمی فیلڈ مارشل ’’Guthrie‘‘ سے ملاقات کر کے انہیں کشمیر سمیت علاقائی صورت حال سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم مشیر خارجہ جناب سرتاج عزیز کا تازہ ترین اور قوم کے لئے حوصلہ افزاد بیان یہ ہے کہ ’’بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے مجبور ہوجائے گا‘‘ ان تمام خبروں کے ساتھ ساتھ جناب وزیراعظم کی کشمیر (آزاد کشمیر) کے لئے سنجیدگی قابل داد ہے۔
مسئلہ آزاد کشمیر حل ہوگیا!
خبر ہے کہ ’’وزیراعظم میاں نواز شریف نے ریاست جموں و کشمیر کی آزاد حکومت کے سنگینی مالی بحران کا نوٹس لے لیا ہے اور آزاد جموں کونسل سیکرٹریٹ کو ہدایت جاریکردی ہے کہ مالی خسارہ پورا کیا جائے اور فنانس ڈویژن و کونسل سیکرٹریٹ اپنے ذمہ واجب الادارقوم حکومت آزاد کشمیر کو فوری طور پر ادا کرے۔ وزیراعظم صاحب نے حکومت آزاد کشمیر کے مالی بحران کے خاتمے کے لئے جاری شدہ فنڈز کی رپورٹ بھی طلب کرلی ہے‘‘ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ’’حکومت ریاست آزاد جموں و کشمیر کے مالی بحران کے خاتمے کے لئے وزیراعظم صاحب بہت ہی ٹھوس اقدامات کر رہے ہیں۔‘‘ دراصل یہ حکومت پاکستان کا نہیں بلکہ پاکستان اور پاکستان کے عوام کی غیرت کا مسئلہ ہے‘ وگرنہ ہمارے اور مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کے دشمن کیا کہیں گے؟
جناب وزیراعظم۔ قائداعظم کی کرسی پر؟
تو باب العلم حضرت علی مرتضیؓ نے امیر المومنین کی حیثیت سے اپنے ایک گورنر مالک بن اُشتر کو ایک خط لکھا تھا کہ جس کرسی پر تم بیٹھے ہو‘ اگر مستقل ہوتی تو تم تک کیسے پہنچتی؟ پہلے عباسی خلیفہ عبداللہ التفاح نے ’’خلافت‘‘ کا منصب سنبھالتے ہوئے اپنے ارد گرد جمع لوگوں سے کہا تھا کہ ’’اللہ تعالیٰ کا شکر کرو کہ تمہیں ہمارا زمانہ مل گیا ہے۔ اب حضرت عیسیٰؓ آسمانوں سے اتریں گے تو ہم (بنو عباسی) انہیں اقتدار سونپ دیں گے۔‘‘ 1257ء میں بغداد میں جاہ و جلال کے مالک عباسی خلیفہ مستعصم باللہ پورے عالم اسلام کا خلیفہ کہلاتا تھا۔ جب چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا اور خلیفہ سمیت 16 لاکھ مسلمانوں کو قتل کرا دیا اور کرسی (تخت) سے محروم کر دیا۔
وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور صدر جنرل ضیا الحق نے اپنے اپنے دور میں اور اپنی اپنی کرسی کے ہتھے پر ہاتھ مار کر کہا تھا کہ ’’میری کرسی بہت مضبوط ہے‘‘ وہ دونوں غیر فطری موت سے ہم کنار ہوئے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان نے مسئلہ کشمیر پر بھارت کو مُکا دکھایا تھا۔ انہیں جلسہ عام میں شہید کر دیا گیا تھا۔ سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اس وقت کرسی سے محروم تھیں جب وہ غیر فطری موت سے ہم کنار ہوئیں۔ صدر سکندر مرزا‘ صدر محمد ایوب خان اور کئی دوسرے صدور اور وزرائے اعظم کو مجبوراً کرسی سے اترنا پڑا اور وزیراعظم میاں نوازشریف کو بھی دو بار۔ میاں نوازشریف خوش قسمت ہیں کہ وہ تیسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے اور نہ جانے کتنی بار مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے قائداعظم کی کرسی پر رونق افروز ہوئے۔
18 اکتوبر کو بھی میاں نوازشریف مسلم لیگ ن کے صدر منتخب ہو کر قائداعظم کی کرسی پر بیٹھ گئے۔ کتنی قسمت ہے میاں صاحب کی؟ قائداعظم نے گورنر جنرل پاکستان کی حیثیت سے اپنے چھوٹے بھائی احمد علی جناح کی کوئی مدد نہیں کی تھی۔ مایوس ہو کر احمد علی جناح بمبئی واپس چلے گئے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے قائداعظم کے شانہ بشانہ قیام پاکستان کے لئے جدوجہد کی تھی لیکن قائداعظم نے اپنی اس عظیم بہن کو حکومت اور مسلم لیگ میں کوئی عہدہ نہیں دیا تھا۔
قائداعظم نے اپنی ساری جائیداد کا ٹرسٹ بنا کر اسے قوم کے نام کر دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے ملک‘ اس کی قدرت اور تدبیر اور آٹھویں آسمان کو بھی ’’کرسی‘‘ کہا جاتا ہے۔ دنیا میں کئی حکمران ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے تسلیم کیا تھا کہ
حقیقت میں ہر چیز کا مالک خدا ہے اور یہ (کرسی) میرے پاس چند روز کے لئے امانت ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38