کینیڈا سے تشریف لائے علامہ قادری سے تو پوچھا جا سکتا ہے کہ وہ کس حیثیت میں پنجاب کو 9 صوبوں میں تقسیم کرنے کا وعدہ پنجاب کے عوام سے فرما رہے ہیں کیونکہ ان کا تو پاکستان یا پنجاب سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہے۔ جو صاحب اپنی اور اپنے خاندان کی کینیڈین شہریت کی بھی اس ملک، صوبے اور اس کے عوام کی خاطر قربانی دینے کو تیار نہیں وہ اس ملک کے کسی صوبے میں سے دو چار یا اکٹھے 9 صوبے نکالنے کا کیا استحقاق رکھتے ہیں جبکہ یہ عمل اور مرحلہ متعلقہ صوبے کی اسمبلی میں آئین کی دفعہ 239 کے تقاضے کے تحت دو تہائی اکثریت کے حامل ووٹوں کے ذریعے طے ہونا ہے۔ پہلے آپ اپنی غیر ملکی شہریت ترک کرکے آئینی تقاضے کے تحت خود کو پاکستان کے انتخابات میں حصہ لینے کا اہل بنائیں۔ پھر انتخابی عمل سے گزریں اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچیں اور پھر کسی صوبے کی کوکھ میں سے کوئی ایک یا 9 صوبے تشکیل دلانے کا شوق پورا فرمائیں۔ ورنہ بھائی صاحب آپ کا اس ملک یا اس کے کسی صوبے کے معاملات سے کیا سروکار ہے۔
علامہ قادری نے لاہور میں اپنے مینار پاکستان کے جلسہ میں جوش خطابت میں جب پنجاب کو 9 صوبوں میں تقسیم کرنے کا وعدہ فرمایا تو میرے ذہن میں فطری طور پر اس وعدے کی تکمیل کے حوالے سے ان کی حیثیت کا سوال ابھرا اور ان کا یہ اعلان مجھے سیاسی شعبدہ بازی کے سوا کچھ نظر نہ آیا مگر کراچی میں تو بالآخر بلی تھیلے سے باہر نکل آئی ہے گزشتہ سات سال کے عرصہ میں حکومت سے ساتویں بار علیحدگی اختیار کرنے والی ایم کیو ایم متحدہ کے قائدین نے سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ساتھ اقتداری رفاقت توڑنے کا اعلان کیا تو اس پر کسی کو حیرت نہ ہوئی کیونکہ بیرسٹر اعتزاز احسن کے بقول ’’یہ ہمارے اچھے مہمان ہیں جو آتے جاتے رہتے ہیں مگر اس اعلان کے ساتھ ہی مہاجر صوبے کے قیام کے اعلان نے وہ کہانی بھی کھول کر بیان کر دی جو اس ارض وطن کو کمزور کرنے اور پھر بے یارومددگار بنا کر کچلے جانے کے لئے اس ارض وطن کے دشمن کے آگے پھینکنے کی سازش کے تانے بانے ملا کر تیار کی گئی ہے۔ یہ غبار آج کا تو نہیں ہے بلکہ ایسے مواقع بنا کر پہلے بھی کئی بار نکالا جا چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سابقہ دور میں تو اس کے لئے باقاعدہ ہوم ورک بھی کیا گیا۔ جب اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بنک کو تقسیم کرنے کی حکمت عملی کے تحت ملتان اور بہاولپور کو ملا کر پنجاب میں سے ایک نیا صوبہ جنوبی پنجاب نکالنے کا اعلان کیا جو محض سیاسی شعبدہ بازی تھی تو متحدہ کے قائدین نے اس موقع کو غنیمت جان کر نہ صرف صوبہ جنوبی پنجاب کی حمایت میں بیان بازی کا سلسلہ شروع کیا بلکہ ہزارہ صوبے کا نعرہ لگانے والے بابائے ہزارہ کو بھی تھپکی دے ڈالی۔ اور پھر ٹیلی فونک خطاب کے لئے لندن سے فون کی گھنٹیاں بھی بجنے لگیں۔ پھر اس پر ہی اکتفا نہ کیا گیا ،چپکے چپکے سے آئین کی دفعہ 239 میں ترمیم کا بل بھی قومی اسمبلی میں داخل کرا دیا گیا جس کا مقصد کسی نئے صوبے کی تشکیل کے لئے متعلقہ صوبائی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور کی گئی قرارداد کی توثیق سے متعلق قومی اسمبلی کے کردار کو ختم کرانا تھا۔ قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور دوسرے قوم پرست سندھی ارکان کو اس کی بھنک پڑی تو سندھ تقسیم کرنے کی سازش کو بھانپ کر انہوں نے متحدہ کی اس قرارداد کا ’’پھلکا‘‘ اڑا دیا۔ جب کبھی متحدہ سے منسوب ’’جناح پور‘‘ کا تذکرہ ہوتا تو متحدہ والے اس سے لاتعلقی کے اظہار میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے اور یہ تاثر دیا جاتا کہ ہم قطعاً سندھ کی تقسیم نہیں چاہتے مگر جیسے ہی اپنے حق میں حالات سازگار نظر آتے تو سندھ میں نئے صوبے کی دلی خواہش اچھل کر ان کی زبانوں پر آ جاتی۔ اب گزشتہ روز بھی ایم کیو ایم کی سندھ حکومت سے علیحدگی کا پس منظر کچھ اور تھا جو کراچی کے جلسہ عام میں بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کے ساتھ جڑا ہوا تھا مگر اس موقع کو بھی غنیمت جان کر پٹاری میں سے مہاجر صوبے کا سکرپٹ باہر نکال لیا گیا اور متحدہ رابطہ کمیٹی کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے اپنی طے شدہ ’’ہنگامی‘‘ پریس کانفرنس میں جہاں بلاول کو بمبینو سینما کا وارث ٹھہرایا وہیں مہاجر صوبے کا شوشہ چھوڑ کر اس پر اپنی وراثت کا حق جتا دیا۔ تو پھر کیسے کہہ دیا جائے کہ جناح پور یا مہاجر صوبے سے متحدہ کا کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہ تو ’’گول مول‘‘ سیدھا فارمولا نظر آتا ہے جو سندھ کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی سالہا سال سے زیر گردش سازش کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور جب بھی حالات سازگار محسوس ہوتے ہیں پٹاری میں سے یہ فارمولا نکال کر اپنے ماتھے پر سجا لیا جاتا ہے تاہم جب اس فارمولے سے پیدا ہونے والی کوئی ممکنہ سختی نظر آتی ہے تو پلک جھپکتے میں اس سے لاتعلقی کا اعلان فرما دیا جاتا ہے۔ اگر تو مہاجر صوبے یا جناح پور کی تشکیل کا مقصد سندھ کے مخصوص عوام کی محرومیاں دور کرانے کا ہے جس کے بارے میں گزشتہ روز پریس کانفرنس میں اعلان بھی کیا گیا تو پھر کیوں نہ پوچھا جائے کہ حضور والا گزشتہ 14 برس سے کسی نہ کسی شکل میں تسلسل کے ساتھ آپ کی حکمرانی رہی ہے جس کے دوران آپ کے وفاقی اور صوبائی وزراء کی سیاہ و سفید کی ملکیت والی حیثیت بنی رہی تو آپ اختیارات ہونے کے باوجود سندھ کے ان ’’عوام‘‘ کی محرومیوں کا کیوں ازالہ نہ کر سکے جن کے لئے آج آپ مہاجر صوبے کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔ پھر آپ کے شدومد والے اس تقاضے کا کچھ تو پس منظر ہے اور وہ پس منظر سندھ کی تقسیم کے ذریعہ پاکستان کو کمزور بنا کر اسے دشمن کے لئے تر نوالہ بنانے کا ہے تو اس کی سندھی قوم پرست ہی نہیں پوری پاکستانی قوم مزاحمت کرے گی۔ حضور والا! آپ کے پاس سندھ اسمبلی میں اتنی قوت ہے کہ آپ وہاں دو تہائی اکثریت کے ساتھ مہاجر صوبے کے قیام کی قرارداد منظور کرا سکتے ہیں تو بسم اللہ۔ آپ اپنا شوق پورا فرمائیں۔ آپ کا ہاتھ کوئی نہیں روک سکے گا مگر آپ کسی اتھل پتھل ایجنڈے کی بنیاد پر اپنے ہاتھوں دشمن کے عزائم کی تکمیل کرانا چاہتے ہیں تو یہ نہ ہو سکتا ہے نہ کوئی ہونے دے گا۔ خاطر جمع رکھئے حضور والا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024