ایک مرتبہ نیو یارک میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے دوران ملاقات پوچھ ڈالا کہ ان کے اپنے بیٹے تو گلف میں دولت بنا رہے ہیں اور آپ تارکین وطن کو پاکستان میں سرمایہ کاری کا بھاشن دے رہے ہیں ؟ ڈار صاحب نے کہا کہ بیرون ملک ان کے بیٹوں کی ذاتی کمائی اور جائیداد ہے۔ ان کاملک سے باہر کچھ نہیں۔ سب کی اولادیں ملک سے باہر سیٹ ہیں۔ باپوں کی سیاست سے بنائی دولت بیٹوں کے آنگن میں محفوظ ہو جاتی ہے اور باپ معصومیت سے کہہ دیتے ہیں کہ ان کا باہر کچھ نہیں ؟ اسحاق ڈار سب سے زیادہ بھلا مانس نظر آتے تھے‘ان کے خلاف احتساب عدالت میں آمدن سے زائد اثاثوں کا ریفرنس زیر سماعت ہے جس میں ان پر فرد جرم عائد ہوچکی ہے جب کہ عدالت سے مسلسل غیر حاضری پر ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوچکے ہیں۔نیب نے اسحاق ڈار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھ دیا ہے۔پاکستان کی عدلیہ پر جس قدر تنقید کرو کچھ نہیں بدلے گا۔ جس قدر مرضی جلسے کر لو ، ہو شمندوں کا یقین اٹھ چکا۔ فیصلے اوپر بڑی عدالت میں ہو چکے۔ نیچے محض عملدرآمد ہوتا ہے۔جمہوریت تو خیر اس ملک نے جب سے ہوش سنبھالی دیکھی نہیں۔ حکمرانی دیکھی ہے۔ کبھی وردی میں اور کبھی سوٹ میں۔ حکمرانی بچانے کے لئے جمہوریت کی آڑ لی جا رہی ہے؟معتبر اداروں پر تنقید بے اثر ہے۔ فیصلوں کا راستہ جلسے نہیں روک سکتے۔
حضرت علیؓ کے پاس ایک نوجوان آیا اور اس نے کہا کہ فلاں عورت اس کی ماں ہے مگر وہ اس کو اپنا بیٹا ماننے سے انکار کرتی ہے۔ حضرت علیؓ نے اس عورت کو بلایا اور معاملہ اس کے سامنے رکھا۔ اس عورت نے اس نوجوان کو اپنا بیٹا تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا جبکہ نوجوان بضد تھا کہ یہ عورت اسی کی ماں ہے۔ حضرت علیؓ نے اس نوجوان سے کہا کہ تم اگر اس عورت کو اپنی ماں کہنے سے انکار کر دو تو آج سے میں تمہارا باپ اور میرے بیٹے حسنؓ و حسینؓ تمہارے بھائی ہوں گے۔ یہ س±ننا تھا کہ نوجوان نے اس عورت کو اپنی ماں ماننے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد حضرت علیؓ نے اس نوجوان کے سامنے اشرفیوں کی ایک تھیلی رکھتے ہوئے فرمایا، یہ تھیلی بطور مہر پکڑو اور اس عورت کے ساتھ نکاح کر لو۔ امیر المومنینؓ کا یہ حکم سننا تھا کہ وہ عور ت چلّا ا±ٹھی’اللہ، اللہ، اے ابوالحسن! میں اقرار کرتی ہوں کہ یہ نوجوان میرا ہی بیٹا ہے، میں اس سے نکاح نہیں کر سکتی۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ”میں ابوالحسن ہوں، میں کسی کا باپ کیوں کر بن سکتا ہوں؟ یاد رکھو! حقیقت کبھی نہیں چھپتی“ (ابن قیم)۔ اللہ کا رنگ پکّا ہے، باقی سب ملمع ہے۔ انسان جب تک اللہ کے ساتھ معاملہ کھرا نہیں کرے گا، اس کے تمام معاملات میں کھوٹ پائی جائے گی۔اور پاکستانی سیاست تو ہے ہی سر تا پاملمع۔جھوٹ حق اور سچ کی تفریق کرنے والے فاروق اعظم کا زمانہ گزر چکا، اب خطابات ہیں اور شعبدہ باز ہیں۔ان کا سمجھنا ہے کہ عوام کے سامنے اتنا جھوٹ بولوکہ سچ کاگمان ہونے لگے۔ایک مرتبہ امیر المومنین عمر فاروقؓ نے اپنے چھوٹے صاحبزادے کے ہاتھ میں انتہائی معمولی کانسی کا ایک ٹکڑا دیکھا تو امیر المومنین نے بچے سے پوچھا کہ یہ کانسی کا ٹکڑا اس کو کس نے دیا ہے؟ صاحبزادے نے جواب دیا، مجھے یہ ٹکڑا بیت المال کے خازن نے دیا ہے۔ امیر المومنین اپنے صاحبزادے کو لے کر بیت المال کے خازن کے پاس گئے اور گرجدار لہجے میں پوچھا! تجھے یہ ٹکڑا عمر کے بچے کو دینے کے لئے کس نے کہا ہے؟ خازن نے جواب دیا، اے امیرالمومنین میں نے خزانے کا حساب لگایا تو خزانے میں سونا اور چاندی ہی پایا۔ اس پورے خزانے میں کانسی کا ایک ٹکرا ملا چنانچہ میں نے اسے آپ کے صاحبزادے کے حوالے کر دیا۔ یہ س±نتے ہی حضرت عمر فاروق ؓ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا اور فرمایا ، حرام مال کے لئے کیا تمام گھروں میں تجھے عمر ہی کا گھر نظر آیا تھا؟ اور آپ نے کانسی کا وہ ٹکڑا بیت المال میں واپس کر دیا۔ حکمرانی کا قاعدہ سمجھنے کے لئے عمر فاروقؓ کا ایک واقعہ ہی کافی ہے۔ ہمارے لوگ عمر بن خطابؓ کے سنہری واقعات سیاستدانوں کے لئے دہراتے ہیں حالانکہ کرپشن کے معاملہ میں پاکستان کے تمام ادارے اور شعبے مساوی ہیں۔ کہیں رشوت بطور نذرانہ پیش کی جاتی ہے اور کہیں بچوں کی شادی پر سلامی بطور رشوت پیش کی جاتی ہے۔ کرپشن اوپر سے نیچے کو سفر طے کرتی ہے۔ چند ایک اوپر سے نیچے گرا دئیے جائیںؒ۔ نیچے خود بخود صفائی ہو جائے گی۔
٭٭٭٭٭