علاّمہ اقبالؒ نے تو کسی اور موڈ میں کہا تھا کہ …
’’عُروقِ مُردۂ خاکی میں خونِ زندگی دوڑا‘‘
لیکن سابق صدر جنابِ آصف زرداری اِن دنوں عُروقِ مُردہ پی پی میں خونِ زندگی دوڑانے کے لئے پہلے اسلام آباد اور پھر پشاور پہنچے۔
اسلام آباد میں جنابِ زرداری نے کہا ’’جرنیل چاہتے ہیں کہ چھڑی اوپر کریں گے تو لوگ کھڑے ہوں گے اور نیچے کریں گے تو بیٹھ جائیں گے لیکن مَیں جادو کی چھڑی سے خوفزدہ نہیں ہوں۔ کور کمانڈر کراچی (لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار) کی جارحانہ ٹریننگ ہوئی ہے۔ اُن کی اپنی سوچ ہے‘‘ حالانکہ سِولین لباس میں ملبوس کور کمانڈر کے پاس جادو کی کوئی چھڑی نہیں تھی۔ وہ تو اپنا تجزیہ/ تجربہ بیان کر رہے تھے۔ ’’کراچی میں منشیات فروشوں سے لے کر القاعدہ کے ڈیرے ہیں، سیاسی سرگرمیوں اور دہشت گردی میں فرق ختم ہوگیا ہے اور سیاسی اور انتظامی نااہلی سے مسائل پیدا ہوئے ہیں‘‘۔ اُن کا اشارہ یقیناً وزیراعلیٰ قائم علی شاہ اور اُن کی انتظامیہ کی نااہلی کی طرف تھا، جنابِ زرداری کا تو انہوں نے نام تک نہیں لِیا تھا۔
اسلام آباد میں جنابِ زرداری نے یہ بھی کہا تھا ’’ذوالفقار مرزا کی زبان گندی ہے اور وہ کسی کے اشارے پر چل رہے ہیں‘‘۔ پشاور میں اپنی دُودھ سے دُھلی زبان سے سابق صدرِ پاکستان نے کہا کہ ’’عمران خان مچھّر کیا کرے گا؟۔ پھر کہا ’’خیبر پختونخوا میں جعلی پختونوں کی حکومت ہے‘‘۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے مخاطب ہو کر جنابِ زرداری نے کہا ’’پارٹی کو مضبوط بنانے کے لئے بلاول آ رہا ہے‘‘۔ زرداری صاب نے یہ نہیں بتایا کہ کونسی پیپلز پارٹی؟ ۔ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں تو مخدوم امین فہیم کی چیئرمین شپ میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز (پی پی پی پی) ہے۔ جناب ذوالفقار بھٹو اورمحترمہ بے نظیر بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین کا عہدہ جنابِ زرداری نے لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر 22 مارچ 2013ء کو چھوڑ دِیا تھا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں اپنے شوہر نامدار کو پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا لیکن اُن کے قتل کے بعد اُن کی ’’برآمدہ وصیت‘‘ کے مطابق جنابِ زرداری نے بلاول زرداری کو ’’بھٹو‘‘ کا خطاب دے کر پارٹی کا چیئرمین مقرر کردِیا اور خود شریک چیئرمین بن گئے۔ یہ ’’جادو کی چھڑی‘‘ ہی تھی کہ ’’نان گریجویٹ آصف زرداری، صدرِ پاکستان بنائے گئے اور انہوں نے پورے پروٹوکول کے ساتھ صدر جنرل پرویز مشرف کو رخصت کِیا۔ اُس سے قبل ’’جادو کی چھڑی‘‘ نے ہی صدر جنرل پرویز مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو میں "N.R.O" کرایا ۔ اِس سے قبل دو متحارب سیاستدانوں میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے لندن میں ’’ میثاق جمہوریت‘‘۔ یہ جادو کی چھڑی کا اشارہ پا کر ہی کِیا تھا۔
جنابِ آصف زرداری نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو ’’بِلّا‘‘ کا خطاب کسی جادو کی چھڑی کا اشارہ پا کر ہی دِیا تھا اور اب وہ ایک لمبے تڑنگے ’’نوبیاہتا 62 سالہ گبھرو جوان‘‘ کو ’’مچھر‘‘ کہہ رہے ہیںاور خیبر پختونخوا کی حکومت کو ’’جعلی پختونوں کی حکومت‘‘ حالانکہ ’’پختون، پختون ہوتا ہے‘‘۔ خواہ اُس کے بزرگ صدیوں سے میانوالی میں رہ رہے ہوں جِس طرح نواب شاہ یا سندھ کے کسی دوسرے شہر میں پیدا ہونے والا ’’بلوچ‘‘ بلوچ ہی کہلاتا ہے ۔ مرزا غالب نے کسی ’’شیریں لب‘‘ سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ …
کِتنے شیریں ہیں ، تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے ، بے مزہ نہ ہُوا؟
جنابِ زرداری ’’شیریں لب‘‘ نہیں ہیں احتیاط کِیا کریں ۔ پنجابی کا ایک اکھان ہے کہ ’’رکھّ پتّ رکھا پتّ‘‘۔ پنجاب میں آ کر پنجابی بولنے والے جنابِ زرداری اس اکھان کا مطلب یقیناً جانتے ہوں گے۔ 2011ء میں پنجاب پر موذی مچھر ’’ڈینگی‘‘ حملہ آور ہُوا تو مَیں نے اپنے کالم میں خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف سے گذارش کی تھی کہ ’’آپ ماہرین کی کسی کمیٹی سے تحقیق کرائیں کہ حضرت ابراہیم کے دَور میں بابل کے بادشاہ نمرود کی ناک میں گھس کر اُس کی موت کا باعث بننے والا مچھر ’’ڈینگی‘‘ تھا یا کسی دوسری نسل کا ؟‘‘۔ مَیں نے یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ ’’تحقیقاتی رپورٹ کی ایک کاپی صدر آصف علی زرداری کو بھی بھجوائی جائے‘‘۔ مجھے نہیں معلوم کہ خادمِ اعلیٰ نے تحقیق کرائی یا نہیں؟ اگر کرائی ہوگی تو اُس کی رپورٹ جنابِ زرداری کو بھی بھجوائی ہوگی ورنہ وہ مچھّر سے خوفزدہ نہ ہوتے۔
(Role Modle Shoaib Shaikh)
ہمارے یہاں خواتین (خاص طور دولت مند اور با اثر خواتین) کی بہت عِزّت کی جاتی ہے اور فِلمی ہیروینز "Heroines" سے مُحبّت قدیم یونان میں ’’دیوی جیسی خوبصورت اور غیر معمولی عورت کو "Heroine" کہا جاتا تھا ۔ کسی مثالی شے یا شخصیت کو ماڈل ( Model) کہا جاتا ہے۔ "A Model of Self Discipline" کا مطلب ہے خود تنظیمی کی مثال۔ یہ ترکیب کسی بھی سیاستدان، مذہبی رہنما، وکیل، پروفیسر، ڈاکٹر یا کسی بھی مثالی انسان کے لئے استعمال کی جاسکتی ہے ۔ منی لانڈرنگ/ سمگلنگ کے الزام میں پکڑی جانے والی ’’ماڈل ایان علی‘‘ متذکرہ بالا تعریفات میں نہیں آتی۔ وہ عدالتی ریمانڈ پر ہے لیکن نیوز چینلوں پر دکھایا جاتا ہے کہ جب بھی اُسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران / اہلکار عدالت میں پیش کرتے ہیں تو اُس کی ایک جھلک دیکھنے والے بھی اُس کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے ہوتے ہیں ( حالانکہ وہ ٹکٹکی کھول کر بھی دیکھ سکتے ہیں ) شاعر نے کہا تھا …
یا رب نگاہ ناز پر لائسنس کیوں نہیں؟
یہ بھی تو قتل کرتی ہے ، تلوار کی طرح!
یہ کِس طرح کا ریمانڈ ہے؟ کہ ماڈل ایان علی کو کسی ماہر ترین اور بہت ہی ’’ مہنگے میک اَپ مین‘‘۔ کی خدمات حاصل ہیں اور اُس کے چہرے پر اطمینان کی ٹھاٹھیں مارتی ہُوئی لہروں سے پتہ چلتا ہے کہ کیس کی مُدّت طویل ہوگی۔ ایان علی کی آنِیاں جانِیاں دیکھ کر اُس کی مارکیٹ ویلیو ضرور بڑھ گئی ہوگی اور اب "Axact" کے چیف شعیب احمد شیخ کی آمد آمد ہے ۔ کہیں چھاپا اور کہیں ’’چُھپا کا‘‘۔ پتہ چلا کر ’’کراچی میں "Axact" کے دفاتر کا صِرف معائنہ اور وہاں کے افسران اور اہلکاروں سے تعارف ہُوا ہے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے دفاتر کی جانچ پڑتال اور ملازمین سے پوچھ گچھ ہُوئی۔ یہ امریکی اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ بھی خوب ہے۔ پاکستان کے ذہین ترین انسان کو "Evil Genius" ظاہر کردِیا۔ شعیب احمد شیخ کے پاس بڑے بڑے اور مہنگے وُکلاء کی خدمات حاصل کرنے کے وسائل موجود ہیں ۔ سیاستدانوں کے روپ میں شعیب احمد شیخ سے بھی "Genius" لوگ موجود ہیں۔ اول تو پکڑے نہیں جاتے۔ پکڑے جاتے ہیں تو چُھوٹ جاتے ہیں۔ یہ بات مشہور ہے کہ ’’جب بڑے سے بڑے مجرم کی ضمانت ہو جائے تو سمجھ لو مقدمہ ختم‘‘۔ کوئی بھی ’’جمہوری حکمران‘‘ (آج کے دور میں بھی) اپنے بھائی بندوں کے خلاف مقدمات کی پیروی میں دلچسپی نہیں لیتا۔ مجھے خواب میں بابا ٹلّ نے بتایا کہ ’’شعیب احمد شیخ بھی کسی روز بہت سے "Genius" نوجوانوں کا "Role Model" بن جائے گا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024