زرداری بولنے سے باز نہیں آ رہے۔ کہتے ہیں مارشل لا سے نہیں ڈرے، اب ڈر کاہے کا۔ بالکل کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، مگر قانون کے سامنے بڑے بڑوں کی گھگی بندھ جاتی ہے۔ قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ بھتے خوری کی اجازت ہے۔ ڈاکے کی اجازت ہے،کرپشن کی اجازت ہے مگر یہ دھندا مارشل ہو یا نہ ہو جاری رہتا ہے، کون مارشل لا سے ڈرتا ہے۔اور کون جمہوری نظام میں ڈرتا ہے۔ایان علی کو ڈر ہوتا تو وہ لاکھوں ڈالر لے کر باہر جانے کی کوشش نہ کرتی اور اگر وہ نہیں ڈری تو زرداری توسابق صدر ہیں، دو مرتبہ وزیر اعظم بننے والی محترمہ بے نظیر بھٹو کے شوہر نامدار ہیں اور بچی کھچی پیپلز پارٹی کے سربراہ ہیں، وہ تو اپنے لخت جگر بلاول تک کو خاطر میں لانے کے لئے تیار نہیں، بھلا مارشل لا یا کسی جادو کی چھڑی سے کیا ڈر۔
خوف توپیپلز پارٹی کے بانی کو بھی کسی کا نہ تھا، وہ ستر کے الیکشن میں حکومت سازی کے لئے اکثریت حاصل نہ کر سکے تو نعرہ لگا دیا، کہ ادھر ہم، ادھر تم۔ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا تو انہوں نے دھمکی دی کہ جو رکن اسمبلی اس اجلاس میں شرکت کے لئے جائے گا، اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی، احمد رضا قصوری نے جسارت کی، وہ بعد میں ایف ایس ایف کے فائرنگ اسکواڈ کانشانہ بنے مگر موت ان کے والد کی لکھی ہوئی تھی۔بھٹو کو اس جرم میں شریک ہونے پر پھانسی کی سزا ملی، کہا جاتا ہے یہ سزا غلط تھی،مگر جس شخص نے ستر اور ستتر کے دو الیکشنوں میں عوام کے مینڈیٹ کا قتل عام کیا، اس کی اور کیا سزا ہو نی چاہئے تھی۔
پیپلز پارٹی کو جمہوریت بڑی عزیزہے اور مارشل لا سے چڑ ے مگر بھٹو نے جب ڈیڈی ایوب خان سے وزارت لی تو اسے مارشل لا سے کوئی چڑ نہ تھی، اور جب بچے کھچے پاکستان میں پیپلز پارٹی نے پہلی مرتبہ اقتدار کا مزہ چکھا تو سول مارشل لا ایڈ منسٹریٹر بن کر۔
واقعی مارشل لا سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں، بھٹوکے بیٹے مرتضی بھٹو نے بیرون ملک بیٹھ کر الذوالفقار بنائی اور چودھری ظہورالٰہی کو نشانہ بنایا تو یہ مارشل لا کے عروج کا زمانہ تھا، یہی وہ دور ہے جب مرتضیٰ بھٹو نے پی آئی اے کی پرواز کو اغوا کر کے کابل اور دمشق پہنچایا اور راستے میں ایک میجر اور ایک ایئر ہوسٹس کا بہیمانہ قتل کیا تو یہ بھی مارشل لا کے عروج کا زمانہ ہے۔ مارشل لا سے لڑنے بھڑنے کے لئے ایم آری ڈی بھی تشکیل دی گئی مگر محترمہ نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو علاج کے لئے رخصت لے کر بیرون وطن چلی گئیں۔جب مارشل لاایک پٹاخے کی نذر ہوا تو محترمہ کو پاکستان ہی کی نہیں عالم اسلام کی بھی پہلی خاتون وزیر اعظم بننے کا شرف حاصل ہوا۔
پیپلز پاٹی واقعی کبھی کسی سے نہیں ڈری ،صرف آئین کی 58.2.B کے سامنے بے بس ثابت ہوئی۔
اور زرداری بھی کسی سے نہیں ڈرے، ڈرنے کی ضرورت ہی نہ تھی، سارے کیس تو فاروق لغاری اور سیف الرحمن کے بنائے ہوئے تھے۔محترمہ اور زرداری کی دولت بیرون ملک محفوظ تھی، پاکستان کی ریاستی رٹ سے باہر۔زرداری کو تو بس جھوٹے سچے مقدموں میں پیش ہونا تھا اور میرے مرشد نظامی نے انہیں مرد حر کا خطاب دے دیامگر ایک ٹی وی انٹرویومیں نظامی صاحب نے کہا کہ وہ اپنا خطاب واپس لیتے ہیں۔
زرداری کو کس بات کا زعم ہے، کیا سندھ کارڈ کا۔جب تک ایم کیو ایم اس کا ساتھ نہ دے، اندرون سندھ کی آبادی یہ کارڈ اکیلے نہیں کھیل سکتی۔ اور ایم کیو ایم کراچی کی بندرگاہ کیوں سندھ کارڈوالوں کے حوالے کرے گی۔ سندھ کارڈوالے تو پنوں عاقل کی چھاﺅنی بنانے کے حق میں نہ تھے، وہ سندھ کے جنگلوں میں ڈیرہ ڈالے ڈاکووں کے خلاف آپریشن کے حامی نہ تھے۔مگر یہ سب کچھ ہوا۔اور وفاق پاکستان کی وحدت، سلامتی اور یک جہتی کے لئے آئندہ بھی جو مناسب ہو گا، وہ ہوتا رہے گا، سندھ کی حیثیت مشرقی پاکستان جیسی نہیں، اسلام آباد اور کراچی کے مابین بھارت کی وسعتیں حائل نہیں۔ہاں، بھارتی را کھل کھیل رہی ہے اور اس کی دم پر سیکورٹی ایجنسیوں نے بوٹ رکھ دیئے ہیں۔اس را میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ سندھ کارڈ کو کامیابی سے کھیل سکے ، را تو ستر سال میں بلوچستان جیسے صوبے میں سوائے گڑ بڑ کے اور کچھ حاصل نہیں کر سکی۔
کراچی میں را کو کھل کھیلنے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے، بھتہ خوری، ڈکیتی، چوری، قتل عام کا لائسنس اسے کیسے دیا جا سکتا ہے۔ آئے روز لاشیں، آئے روز لاشیں تڑپتی ہیں، یہ سلطنت روما تو نہیں کہ نیرو بانسری بجاتا رہے اور موت کاکھیل تماشہ جاری رہے، پاکستان ایک مہذب، آئین پسند جمہوری، وفاقی ریاست ہے، اسے گیدڑ بھبکیوں سے خوف زدہ نہیں کیا جا سکتا۔
میں یہاں وزیر اعظم سے ایک التجا کروں گا کہ وہ پا کستان کے محافظ کا کردار ادا کریں، میثاق لندن کی آڑ میں بد حکومتی، قتل و غارت اور خونریزی کی اجازت نہ دیں۔ جمہوریت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ملک کو بھیڑیوں کے آگے ڈال دیا جائے۔ اور بیس کروڑ پاکستانیوں کو خونی گدھ نوچتے رہیں۔اور جو ایسا کرتے ہیں وزیر اعظم کو ان سے فاصلہ بڑھا لینا چاہئے، انہیں ریاست پاکستان کے وسائل سے خریدے گئے جہاز پر لے لے کر نہ پھرتے رہیں۔ان کی بلائیں نہ لیں، ان کو اشیر باد نہ دیں۔
پاکستان مملکت خداداد ہے، یہ قدرت کا عطیہ ہے، ہمیں اس نعمت کا شکر ادا کرنا چاہئے۔یہ ملک نہ ہوتا تو ہم نریندرمودی اور راہول گاندھی کے کتوں اور خنزیروں کو چارہ ڈال رہے ہوتے۔ ہمیں سویت روس کے حشر سے سبق سیکھنا چایئے جس کے پاس میزائلوں اور ایٹمی اسلحے کا ڈھیر تھا مگر یہ ریزہ ریزہ ہو گیا، ایک زخم ہم اکہتر میں سہہ چکے ہیں، مزید ستم سہنے کی ہم میں سکت نہیں، پاکستان میں بھی نہیں۔
دعا ہے کہ زرداری ، سب پہ بھاری رہیں مگر پاکستان کے لئے بھاری بننے کی کوشش نہ فرمائیں۔اور کوئی ان کے بھاری پن کے جادو کو چلنے بھی نہیں دے گا، پاکستان کے عوام کی اکثریت نے اس ملک کی خاطر جانوں، اور عصمتوں کی قربانی دی ہے،کراچی کے مہاجروں نے بھی اور مشرقی پنجاب کے مہاجروں نے بھی، وہ جیتے جی تو گلشن حیات کو خزاﺅں کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیں گے۔
کراچی کے مجرم پیشہ عناصر کسی ہمدردی کے لائق نہیں،کسی بھی علاقے کے مجرموں سے رو رعائت نہیں ہونی چاہیے، سیکورٹی فورسز حرکت میں آئی ہیں تو وفاق پاکستان کی نمائندہ حکومت کے حکم پر۔ان کو واپس بلانے کا اختیار صرف قوم کے مینڈیٹ کی حامل حکومت کو حاصل ہے، سندھ کی حکومت کوئی کستوری ہے تو اسے کسی اور مقصد کے لئے سنبھال رکھئےے، کیاملک گیر پارٹی کے پاس سندھ کی وزارت اعلی کے لئے صرف ایک پیر فرتوت ہی رہ گیا ہے، ایسے لوگوں کے بارے میں میرے مرشدنظامی کہا کرتے تھے کہ ان کی فائل فرشتہ اجل سے غائب ہو گئی ہے۔ عجائب گھروں اور اہرام مصر کی زینت بننے والی ممیوں کا مقام سندھ کا وزیراعلی ہاﺅس نہیں ہے ، زرداری صاحب کسی دوسرے کونامزدکر دیں، ان کے پاس چہیتوں کی کمی نہیں، اور نہیں تو ڈاکٹر سومرو کو یہ صوبہ بخش دیں ۔ کم ازکم وہ بھاﺅ تاﺅ کی مہارت تو رکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے، پتھاریداروں ، ڈکیتوں، دہشت گردوں کو وہ نیوٹرلائزکر دیں اور پاکستان کا گیٹ وے پھر سے رنگوں، روشنیوں اور قہقہوں کا مرقع بن جائے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024