پاکستان کا شاندار مستقبل ایک بار پھر میرے پیش نظر ہے اور میں ایک نئی امید صبح کے ساتھ بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کے خوابوں کی تعبیر بیان کرنے کے لئے قلم اٹھانے پر مجبور ہوں۔اب قوم کے یہ خواب ٹوٹ نہیں سکتے، بکھر نہیں سکتے۔
بلوچستان کے بارے میں کم ہی حکومتوں نے سوچا۔ اس کی دو وجوہات تھیں: ایک تو یہ کہ یہ ایک پسماندہ صوبہ ہے اور دوسرا یہ کہ یہاں ووٹ بینک موجود نہیں ۔ سیاسی جماعتوں کے زیادہ تر وزیراعظم پنجاب یا سندھ سے آئے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ پنجاب اور سندھ سے ہی ووٹ بینک اکٹھا کیا گیا اور انہی دو صوبوں کی بنیاد پر حکومتیں بنائی گئیں۔ پنجاب آبادی کے لحاظ سے بہت بڑا صوبہ ہے ۔ا س کی قومی اسمبلی میں نشستیں بھی زیادہ ہیں اور ایک موقع پر یہ بھی کہا جانے لگا کہ جو پنجاب سے ووٹ لے جائے ‘ وزیراعظم اسی جماعت کا بنتا ہے۔ اسی بناپر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ماضی میں پیپلزپارٹی کی تین حکومتیں بنیں اور تینوں کے وزرائے اعظم کا تعلق سندھ سے تھا۔ پیپلزپارٹی کو ہمیشہ سے سندھ میں اکثریت ملتی آ رہی ہے۔ یہ پارٹی اپنے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کے نام پر ووٹ اکٹھے کر لیتی ہے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان تین حکومتوں کے باوجود بھی سندھ کی حالت نہیں سدھر سکی جبکہ پنجاب کو دیکھا جائے تو حکمران جماعت مسلم لیگ ن بھی تین مرتبہ منتخب ہوئی‘ اقتدار میں آئی لیکن وزیراعظم نواز شریف نے ایک قدم آگے بڑھایا۔ انہوں نے صرف پنجاب کی ہی حالت بدلنے کی بات نہیں کی بلکہ دیگر صوبوں کو بھی ساتھ لے کر چلے۔اس کی ایک واضح مثال بلوچستان ہے جہاں موجودہ دور میں ترقی کے اتنے پراجیکٹ شروع کیے گئے ہیں جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم میاں محمد نوا زشریف نے بلوچستان کا دورہ کیا جو یقینا بلوچستان کی محرومیوں کو دور کرنے کا ذریعہ بنے گا اور یہ حقیقت بھی ہے کہ موجودہ حکومت نے وہاں بھی سڑکیں بنائیں جہاں دہشت گردی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سڑکیں بننے کے بعد ترقی بھی آ رہی ہے۔ آج بلوچستان میں گیارہ سو کلو میٹر طویل سڑکیں بن رہی ہیں جو ایک ایسا خواب ہے جس کی تعبیر انتہائی شاندار ہے۔ انہی سڑکوں کی بدولت آج گوادر پورے پاکستان اور چین سے منسلک ہو رہا ہے ۔
وزیراعظم محمد نواز شریف نے اس موقع پر بڑی اہم بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ماضی کا قرض اتار رہے ہیں کوئی احسان نہیں کر رہے ۔ آج ترقی ہو رہی ہے تو انسانوں کاخون کرنے والے بھاگ رہے ہیں۔ میرے خیال میں ایسی بات کوئی دانشمند وزیراعظم ہی کر سکتا ہے۔ وزیراعظم کو معلوم ہے کہ گوادر پاکستان کیلئے گیم چینجر ہے ،اسی لئے انہوں نے گوادر میں 300 بستروں پر مشتمل سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال ’ گوادر کی گلیوں کی پختگی کیلئے 100 کروڑ روپے اور پینے کے صاف پانی کیلئے سی پیک کے تحت پلانٹ لگانے اور یونیورسٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا۔
ماضی میں جتنے بھی حکمران بلوچستان کے دورے پر آئے ان کا مقصد فوٹو سیشن کے سوا کچھ نہ تھا۔ لیکن نواز شریف واقعتاً پہلے وزیراعظم ہیں جو یہاں رات بھر رہے۔ ویسے پہلے کوئی آتا بھی نہیں تھا۔ جو بھی آیا اس کے اپنے ذاتی مقاصد تھے جن کی تکمیل کے لئے یہاں دورے کئے گئے۔ وزیراعظم کے یہاں آنے سے مقامی شہریوں کو بھی اطمینان ہوا ہے کہ کوئی تو ہے جو ان کے مسائل کو سمجھتا ہے۔ یہاں کے مکینوں کا دیرینہ مطالبہ گوادر سے کوئٹہ تک بہترین سڑک تھی جس کی تکمیل ہو چکی ہے اور کوئٹہ سے آگے حسن ابدال جارہی ہے اور وہاں سے مانسہرہ سے چین کے بارڈر پر جا ملے گی۔اس موقع پر وزیراعظم نے افواج پاکستان ، پولیس ‘انتظامیہ اور عوام کا بھی شکریہ ادا کیا۔ یقینا افواج اور دیگر اداروں کی مشترکہ کاوشوں سے ہی آج یہ دن دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ گوادر دنیا بھر کے لئے مرکز نگاہ بن رہا ہے۔
تنقید کرنے والوں کے لئے اب منہ چھپانے کو جگہ نہیں۔ وہ جو کہتے تھے کہ سڑکوں سے کیا ہوتا ہے اور میٹرو بسوں کا کوئی فائدہ نہیں وہی لوگ آج جلدی جلدی اپنے صوبے میں میٹرو اور سڑکیں بنا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے اور یہ ہر کوئی مانتا ہے کہ سڑکیں بننے کے بعد ترقی آتی ہے، سکول، کالج‘ ہسپتال بنتے ہیں، کسانوں کی اجناس سڑک سے لائی جاتی ہیں، انڈسٹری آتی ہے ،خوشحالی آتی ہے اور اس طرح بیروزگاری کا خاتمہ ہوتا ہے ۔اس سے غربت کا خاتمہ ہوتا ہے اور جب غربت کا خاتمہ ہو تو قوم ترقی کرتی ہے ۔ ترقی یافتہ ملکوں نے بھی ایسے ہی ترقی کی جن خطوط پر آج پاکستان چل پڑا ہے۔
موجودہ حکومت کو لوڈشیڈنگ‘تباہ حال معیشت‘ خالی خزانہ ورثے میں ملا۔ اس وقت مزدور بے روزگار‘عوام بے حال اور دہشت گردی عروج پر تھی۔ ملک اقتصادی ترقی کی بجائے تنزلی کی جانب جارہا تھا مگر حکمران گھبرائے نہیں۔وزیراعظم نے درست فرمایا کہ آج سی پیک کا بڑا حصہ بلوچستان کی سرزمین پر ہے اور آج ترقی کا ہر راستہ بلوچستان سے نکلتا نظر آرہا ہے۔ پاکستان ایشیاء کا ٹائیگر اور بلوچستان پاکستان کا ٹائیگر بنے گا۔
بلوچستان میں آج ترقی کے جو نئے باب کھل رہے ہیں یہ ثابت کرتے ہیں کہ سول ملٹری تعلقات آج جس مضبوطی پر ہیں کبھی نہ تھے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج گوادر اور سی پیک جیسے شاندار منصوبے آب و تاب نہ دکھا رہے ہوتے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024