روزوں میں افطار پارٹیاں معمول بن جاتی ہیں۔ ان میں بدن کو غذا تو بہت میسر آ جاتی ہے مگر ذہن کے لئے غذا کا بندوبست بہت کم ہوتا ہے۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل باجوہ نے دوپہر بارہ بجے فکری نشست رکھی، انہیں اس کے بعد واپس چلے جا نا تھا، اس لئے ان کی افطاری سے اخبار نویس محروم رہے، شاید وہ اس کمی کو دور کرنے کے لئے دوبارہ آئیں۔ وفاقی محکمہ اطلاعات کی افطاریاں قسط وار چل رہی ہیں، چند لوگوں کو بلایا جاتا ہے جس سے کھلی ڈھلی گپ شپ ہو جاتی ہے۔ دو افطاریاں ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے کرائیں، وہ کسٹم ہیلتھ کئیر ایسوسی ایشن کے سربراہ ہیں، ان کا مقصد بے گھروں کی معاونت کے لئے شعور بیدار کرنا اور فنڈز اکٹھے کرنا تھا، وہ اپنے مقصد میں بھرپور کامیاب رہے۔ ہفتے کے روز جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کی طرف سے ان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات یحیٰی مجاہد نے اواری ہوٹل کے مغل بورڈ روم میں ملاقات اور بعد میں خورشید محل میں افطار ڈنر کا بندوبست کیا۔ حاضرین کے اعتبار سے یہ افطاری بہت بڑی تھی، ہر اخبار اور چینل کی سینئر تریں نمائندے اس میں موجود تھے اور انتہائی وقیع شخصیات نے بھی اس کے لئے وقت نکالا۔
یحیٰی مجاہد نے جو زبانی اطلاع دی تھی اس کے مطابق حافظ صاحب کو شمالی وزیرستان کے مہاجرین پر گفتگو کرنا تھی اور ان کے مسائل سے آگاہ کرنا تھا، یہ ایک نیک مقصد تھا، میں نے بھی اس میں اسی لئے شرکت ضروری سمجھی، اسی مقصد کے ساتھ ڈاکٹرآصف جاہ کی تقاریب میں حاضری دی۔ الطاف حسن قریشی میرے استاد ہیں، انہوں نے مجھے یاد نہیں فرمایا، بُلاتے تو سر کے بل جاتا کہ اس میں ایک نہیں، تین فلاحی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ محکمہ اطلاعات کی افطاری میں مَیں نہیں گیا، صرف کھانے پینے کے لئے میں گھر سے نہیں نکل سکتا لیکن حافظ سعید صاحب کی افطاری سے فارغ ہو کر نیچے ہوٹل کی لابی میں آیا تو سیکرٹری اطلاعات محمد اعظم، پرنسپل انفارمیشن آفیسر رائو تحسین علی خاں، جناب شفقت جلیل اور لاہور کے ڈائریکٹر جنرل رائو لیاقت علی خاں کے ہتھے چڑھ گیا، ان کے کمرے میں ایسی نشست جمی کہ رات ڈھل گئی اور سحری کے وقت گھر پہنچ سکا۔
حافظ محمد سعید ان دنوں پھر خبروں میں ہیں، پاکستان میں کم مگر بھارت میں زیادہ، ایک بھارتی صحافی ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک کے ساتھ ملاقات کی وجہ سے بھارت میں ہا ہا کار مچی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر وید بے حد شرارتی انسان ہیں، ڈاکٹر مجید نظامی صاحب سے ملنے آئے تو طنزیہ انداز میں کہنے لگے کہ آپ کو بہت شوق ہے ٹینک پر بھارت جانے کا، اگر حکم کریں تو بھارت سے ایک ٹینک بھجوا دوں۔ نظامی صاحب نے دھوپ میں بال سفید نہیں کئے، تُرت جواب دیا ’’مہاراج! اپنے دائیں طرف ایک تصویر دیکھیں، میں بھارتی ٹینک پر سوار ہوں، یہ ہماری افواج نے 65ء کی جنگ میں کھیم کرن سے پکڑا تھا اور قصور میں نمائش کے لئے رکھا تھا۔‘‘ اب یہ حافظ صاحب کے پاس گئے تو چھوٹتے ہی کہنے لگے کہ مجھے ممبئی حملے کی ساری کہانی سچ سچ سُنا دیں۔ یہ صاحب اپنے آپ کو انڈین فارن کونسل کا چیئرمین ظاہر کرتے ہیں لیکن اگر ان کے سوالات کا معیار یہی ہے تو انہیںکسی پرائمری سکول میں دوبارہ سے داخلہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔ وہ پاکستان کے دورے میں ٹریک ٹو کے مقاصد کے حصول کے لئے آئے تھے، ان کی ملاقات وزیراعظم نواز شریف سے بھی ہوئی تھی، ان سے انہوں نے پہلا سوال یہی کیا ہو گا ’’کیا آپ بھارتی وزیراعظم مودی سے گلی ڈنڈا کھیلنا پسند کریں گے۔‘‘
میں بڑی چالاکی سے حافظ سعید صاحب کی گفتگو کی تفصیلات میں جانے سے گریز کر رہا ہوں، اس لئے کہ یہ گفتگو بڑی خطرناک تھی، امریکہ اور بھارت جس شخص کو خطرناک ڈیکلیئر کر چکے ہوں، اس کی گفتگو ابریشم کی طرح نرم تو نہیں ہو سکتی اور فی الواقع حافظ صاحب نے ایک دلیر اور غیور مسلمان کا لب ولہجہ اپنایا۔ یہ انداز گفتگو کسی کو بھی پسند نہیں آئے گا لیکن میں آپ کو بتائوں کی اس بھری محفل میں انہوںنے کسی کو پکڑائی نہیں دی۔
ایک اخبار کے چیف ایڈیٹر نے پوچھا کہ آپ نے ایک گھنٹے کی گفتگو میں شمالی وزیرستان آپریشن کا ذکر تک نہیں کیا جو ہماری زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ حافظ صاحب نے کہا کہ میں نے ایک بڑی جنگ کی بات کی ہے، شمالی وزیرستان تو اس سلسلے کی ایک کڑی ہے ، یہاں آپریشن کے لئے امریکیوں نے بہت دبائو ڈالا مگر یہاں حقانی گروپ تھا اور مُلا نذیر گروپ تھا جو افغانستان میں مزاحمتی کوششوں میں مصروف رہے، اس لئے پاکستان نے آپریشن امریکہ کے دبائو پر نہیں کیا اور اب اپنی حکمت عملی کے ساتھ اس علاقے کو کلیئر کیا جا رہا ہے۔ یہ آپریشن ایک محدود سے طبقے کے خلاف ہے جو زیادہ تر تاجکوں، ازبکوں اور دیگر غیر ملکیوں پر مشتمل ہے اور جنہیں امریکہ اور بھارت نے ایک سازش کے تحت پاکستان سے لڑنے بھڑنے کے لئے یہاں داخل کیا ہے اور انہیں خطرناک اسلحے سے لیس کیا ہے۔ پاکستانی فوج نے قبائل میں اپنی ساکھ کو بحال کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ فوج مہاجرین کی مد دکر رہی ہے، بوڑھی عورتوں کو کندھوں پر اٹھا کر محفوظ مقامات پر منتقل کر رہی ہے، ان کو راشن پانی مہیا کیا جارہا ہے اور انشأاللہ سوات کے مہاجرین کی طرح وہ بھی جلد اپنے گھروں میںجا بسیں گے، اس کے لئے پاک فوج دلیری سے لڑ رہی ہے، یہاں کسی فوج کو پَر مارنے کی اجازت نہیں تھی مگر ہم نے اپنی پلاننگ اور اپنے مفاد کے لئے ایک کٹھن کام میں ہاتھ ڈالا ہے۔ اگر آپ حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو یہ آپریشن بھارت ا ور امریکہ کی مذموم پلاننگ کے خلاف ہے۔ پاکستانی قوم اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ حب الوطنی کی یہ لہر قابل مبارکباد اورلائق اطمینان ہے۔
ایک نوجوان نے پوچھا کہ آپ کہتے ہیں ہم حالت جنگ میں ہیں مگر آپ نے کوئی طریقہ نہیں بتایا کہ ہم حالت جنگ سے کیسے نکلیں اور خوشحالی کا سفر تیزی سے کیسے طے کریں، حافظ صاحب نے اس نوجوان کے چہرے سے اس کی عمر کا جائزہ لیا اور پھر جچے تُلے لفظوں میں کہا جب آپ میدان میں ہیں اور میدان چھوڑ دیں تو آپ کا دشمن اس میدان پر قابض ہو جائے گا۔ ہمارے سامنے جو میدان لگا ہوا ہے ، اس میں بھارت اور امریکہ کی متحدہ قوت ہے، کیا ہم اس کے سامنے سرنڈر کر دیں، نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ تو حالت جنگ سے نکلنے کے لئے ہمیں پہلے اپنے دشمن کو چت کرنا ہو گا۔ نوجوان کالم نویس شاید ہار ماننے والا نہیں تھا، اس نے اگلا سوال داغا کہ آپ نے کشمیر کے جہاد کا ذکر نہیں کیا۔ حافظ صاحب نے پھر ایک گہری نظر اس نوجوان کے خدوخال پر ڈالی اور کہا کہ کشمیر میں جہاد کبھی ختم نہیں ہو سکتا، ابھی مودی وہاں گیا ہے تو حریت لیڈروں کی ایک کال پر سارے کشمیر میں شٹر ڈائون ہو گیا، وہاں کے گلی کوچوںاور بازاروںمیں ہُو کا عالم تھا، یہ جہاد نہیں تو اور کیا ہے۔ نوجوان جسے ایک ٹاک شو چلانے کی مہارت حاصل ہے اس نے تیسرا سوال داغا کہ آپ کہتے ہیں کہ چین کو ساتھ لے کر چلنا ہے تو چین میں نماز پڑھنے اور روزے رکھنے کی اجازت نہیں ہے، ایسے چین سے ہمیں کیا حمایت ملے گی؟ حافظ صاحب نے الجھنے کی بجائے معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ چین کل بھی ہمارے ساتھ تھا، آج بھی ہمارے ساتھ ہے۔ یہ خبریں جھوٹی ہیں اور یہ بے بنیاد پراپیگنڈہ ہے کہ چین میں شعائر اسلام پر پابندی ہے، اس لئے کہ حرم شریف میں وہ خود چینی مسلمانوں سے مل چکے ہیں، پورے چین میں کسی کو نماز روزے سے نہیں روکا گیا مگر جو عناصر شمالی وزیرستان میں ہماری افواج کے درپے ہیں اور ہمارے ائیر پورٹوں کو اُڑا رہے ہیں اور ہمارے چرچوں پر حملے کر کے ہمیں دنیا میں گندہ کر رہے ہیں، انہی کے کچھ ساتھی چین میں بھی مصروف پیکار ہیں، ہم ان کی کارروائیوں کو جائز قرار نہیں دے سکتے اور کوئی ریاست ان کے وجود کو برداشت نہیں کر سکتی۔ یہ امریکی اور اسرائیلی کارندے ہیں، ان کا جہاد سے کیا تعلق۔
ایک سرکاری نوکری پر فائز جہادی کالم نویس نے پوچھا کہ داعش کے بارے میں کیا رائے ہے، انہوں نے تو خلافت کا اعلان کر دیا ہے، حافظ صاحب پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ عراق میں صدام حسین کے پسماندگان نے امریکہ کے خلاف کامیاب جہاد کیا ہے مگر امریکہ نے ایک ایسا گروہ میدان میں جھونک دیا ہے جو اپنے آپ کو مجاہدین کا نام دیتا ہے مگر وہ مسلمانوں کے گلے کاٹنے کے شوق میں مبتلا ہے۔ ایک سوال آیا کہ اگر آپ کہتے ہیں کہ ملک حالت جنگ میں ہے تو اس کے لئے ایمرجنسی کے نفاذ اور وار کیبنٹ کی تشکیل کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے۔ حافظ سعید نے جواب دیا کہ ہم ایسے نمائشی اقدامات کی حمایت نہیںکرتے جن سے صرف سنسنی پھیل سکتی ہو، ہم عملی اقدامات کے حق میں ہیں اور عملی قدم یہ ہے کہ ہم اس جنگ کو اپنے دشمن کے علاقے میں دھکیل دیں۔
ہر دل سے آمین کی دعا نکلی اور ساتھ ہی افطاری کی ساعت سعید آن پہنچی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38