ہم نے فرض کر لیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کاجنون راحیل شریف کو لاحق تھا، وہ چلے گئے تو ہم نے اس فریضے سے نبٹنے کو اپنی درد سری نہیں سمجھا۔
جنرل راحیل کی مقبولیت کابڑا سبب اس فتنے کو کچلنا تھا، چنانچہ ہم نے جنرل راحیل کی مقبولیت کا سحر ختم کرنے کے لئے ان کے خلاف بلیم گیم شروع کر دی، ان کی ٹرم کے آخری تین ماہ تو انتہائی تلخ تھے مگر سعودی مشترکہ فورسز کی کمان کے مسئلے کی آڑ میں بھی ہم نے ان پر طنز کے تیر چلائے۔
اس طرح ہر ایک پر واضح ہو گیا کہ جو کوئی اس ملک کی بھلائی کرے گا ، اسے دشنام کا سامنا کرناہو گا، تو کسی کو کیا پڑی تھی کہ ا س اوکھلی میں سر دیتا۔
اگر کسی کو یاد ہو تو جنرل راحیل نے اپنی رخصتی کی تقریر میں بھی کہا تھا کہ دہشت گردی پر پوری طرح قابو نہیںپایا جا سکا، ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ،مگر ہم نے ان کی اس نصیحت پر کان نہیں دھرے۔
ویسے دہشت گردی کوئی بڑا مسئلہ رہ نہیں گیا تھا، مگر چاند ماری کی مسلسل ضرورت تھی، اس سے ہم نے اغماض برتا اور ہمارے حکمران اپنے روٹین میں منہمک رہے۔
ہماری قوم خواب خرگوش میںمست ہوجائے تو اسے جگانے کے لئے صورا سرافیل کی ضرورت ہے جب تک دشمن کوئی کاروائی نہ کرے اور بڑی کاروائی نہ کرے، ہم ہوش کے ناخن لینے کےلئے تیار نہیں ہوتے۔
کہنے کو ہم نے ایک نیشنل ایکشن پلان بنا رکھا ہے اور ہمارے ساتھی حاجی نواز رضا کے مطابق اس کے لئے وزیر داخلہ نے سخت محنت کی تھی مگر صوبوںنے فرض کر لیا کہ جس نے یہ پلان بنایا، وہی ا س پر عمل بھی کرتا پھر ے حالانکہ آئینی ترامیم کے بعد اب امن و امان کا مسئلہ صوبوں کی ذمے داری میں چلا گیا ہے، مگر کیا مجال ایک صوبے نے مہینوںسے ایپکس کمیٹی کاکوئی اجلاس بھی طلب کیا ہو۔پنجاب ا ور سندھ میں گھناﺅنی وارداتیں ہوئیں ، ان میں سے پنجاب نے تو چودہ برس بعد انگڑائی لی ہے۔ حالانکہ یہ صوبہ اس دروان کئی بار لہو لہان ہوا۔سندھ میں رینجرز اور فوج کو کاروائی کا موقع دیا جاتا رہا ور وہ بھی نخرے دکھانے کے بعد۔اب پنجاب نے رینجرز کے ایکشن کو شواہد کے ساتھ منسلک کر دیا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ سندھ کی مرضی کیا ہے، اس حکومت کے فیصلے دبئی سے درآمد کئے جاتے ہیں۔ سندھ میں سیہون شریف کا سانحہ انتہائی دکھی کر دینے والا تھا، مگر سندھ میں شاید ہی اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا ہے، میری معلومات ناقص ہوں تو معافی چاہتا ہوں مگر بلاول نے وفاقی وزیر داخلہ کو صلواتیں سنا کر یہ ظاہر کر دیا ہے کہ ا ن کی پارٹی صوبے کے عوام کی حفاظت کے لئے کس حد تک سنجیدہ ہے۔
حالیہ دھماکوں کے بعد ہمارا سارا بیانیہ یہ ہے کہ مغربی سرحد کے پار کچھ گماشتے ہیں جو شرارت پر تلے ہوئے ہیں،فاٹا میں ضرب عضب کی شدت کی وجہ سے انہوں نے افغانستان میںمحفوظ پناہ گاہیں ڈھونڈ لی ہیں مگر اس بیانئے میں کہیں یہ ذکر نہیںملتا کہ یہ کس طاقت کے گماشتے ہیں اور ہم نے اس کا سر کیسے کچلنا ہے۔
قوم نے سب سے بڑا بلنڈر یہ کیا کہ پانامہ کے ٹرک کا پیچھا کرنا شروع کر دیا جبکہ دنیا کے کسی ملک نے پانامہ کی الف لیلٰی کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ پانامہ پر اسلام آباد کو تاراج کرنے کی کوشش کی گئی، وزیر اعظم کے گھر کا گھیراﺅ بھی کیا گیا اور جب کوئی دال نہ گلی تو مسئلہ عدالتوںمیں چلا گیا۔ اب پانامہ ہے، ہماری سپریم کورٹ ہے، فریقین کے وکلا ہیں اور ٹاک شوز کے خود ساختہ ماہرین ہیں جنہوںنے پانامہ کا ہنگامہ کھڑا کر رکھا ہے،مجھے خدشہ ہے کہ کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا والا حشر ہو گا۔ مگر ہم نے قوم، ملک، عدلیہ کا قیمتی وقت ضائع کیا اور حکومت کی توجہ ملک کے اصل مسائل سے ہٹا دی۔ اس کا فائدہ ہمارے دشمنوںنے پورا پورا اٹھایا، اپنی تیاری جاری رکھی اور ایسے وار کیا کہ ہم بوکھلا کر رہ گئے۔
ایک مشکل یہ ہے کہ ہم دہشت گردی کے خاتمے کے نسخے کسی وارادت کے بعد تلاش کرنے لگتے ہیں، اگر دہشت گردی اسکول میں ہو جائے تو ہم پورے ملک کے اسکولوں کی دیواریں اونچی کرنے لگ جاتے ہیں، اگر مزار پر دہشت گردی ہو جائے تو مزاروں کومقفل کر دیتے ہیں ،مشرف پر دو حملے پلوں کے نیچے سے ہوئے، ہم نے ملک کے سارے پلوں کے نیچے ا ورا وپر پولیس والے بٹھا دیئے، گویا دہشت گرد ہمارے استاد اور گرو ہیں، ان کے ہتھکنڈے بدل جائیں تو ہمیں بھی اپنی ساری حکمت عملی پر نظر ثانی کرناپڑتی ہے، یوں تو دہشت گرد ہمیں تھکا دیں گے، نڈھال کر دیں گے۔ہلکان کر دیں گے´
ابھی یہ علم نہیں کہ ہم میں سے کون ہے جو دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہے، کئی مذہبی اور سیاسی جماعتیں کھلم کھلا ان کی حمایت کرتی ہیں اور جو جماعت کھلم کھلا انہیں خوارجی فتنہ قراردیتی ہے،ا سکے سربراہ کو ہم نے نظر بند کر دیا ہے۔ویسے ہمارے آرمی چیف نے جو فہرست افغانستان کے حوالے کی ہے، ان میں اس نظر بند جماعت کا نام شامل نہیں ہے۔ مگر ہمارے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ حافظ سعید کی جماعت خطرہ بن سکتی ہے۔بھئی، ملک کی کوئی تو ایک ایجنسی ہو جو ا س جماعت کو خطرہ سمجھتی ہو۔
حکومت اگر سمجھتی ہے کہ ملک کو دہشت گردی کامسلسل خطرہ لاحق رہے گا تو اس کے تدارک کے لئے پارلیمنٹ میں مختلف تجاویز پر غور کرے اور جو جماعتیں پارلیمنٹ سے باہر ہیں، ان کو بھی ایک میز پر بٹھائے تاکہ قومی اتفاق رائے سے ٹھوس اقدامات کئے جا سکیں۔ چونکہ عوام کو شک ہے کہ قومی لیڈر شپ دہشت گردی کے خاتمے کے مسئلے پر منتشر ہے، اس لئے بہتر ہوگاکہ قوم سے فیصلہ لے لیا جائے اور ایک ریفرنڈم کے ذریعے طے کر لیا جائے کہ دہشت گردوں کے ساتھ نرمی برتنی ہے یا ان کا قلع قمع کرنا ہے،۔
دہشت گردی کے بارے میں ہمار امائنڈ سیٹ وہی ہے جو ٹرمپ کا ہے، اوباما کا تھا اور بش کا تھا، اس لئے مجھے نظر آتا ہے کہ ہم غلطیوں پہ غلطیاں کرتے رہیں گے۔