میں نے مسلم لیگ (ن) کے اندر’’دھڑے بندی‘‘ اور اختلافات پر ’’قلم‘‘ اٹھانے میں ہمیشہ گریز کیا ہے شاید اس جماعت میں ’’دوستوں‘‘ کی تعداد سب سے زیادہ ہے جب بھی مسلم لیگ (ن) کے اندر ’’محلاتی سازشوں‘‘ پر لکھا تو اس سے کچھ دوستوں کو’’ناراضی‘‘ کا موقع ملا بعض اوقات میں مسلم لیگی حکومت کی’’اندرون خانہ کہانی‘‘ بیان کردوں تو اس سے اس تاثر کو تقویت دینے کی کوشش کی جاتی ہے شاید میں اس’’دوست‘‘ کے اشارے پر یہ سب کچھ لکھ رہا ہوں۔ میں یہ بات دعویٰ سے کہہ سکتاہوں کہ کسی کے کہنے پر کبھی لکھا ہے اور نہ ہی کسی کیلئے ’’فرمائشی‘‘ کالم لکھا ہے البتہ کالم میں جس شخصیت کا ذکر آگیا اس کے حوالے سے ’’تعریف وتوصیف‘‘ اور ’’شکایات‘‘ کے انبار لگ جاتے ہیں۔ ایک بار میں نے ’’شیدا ٹلی کی واپسی‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا تو اشاعت کے بعد جناب مجید نظامی کا فون آگیا کہ ’’شیدا ٹلی آیا تھا آپ کے کالم کی شکایت کررہا تھا کہنے لگے سیاست دانوں میں ذرا بھر برداشت نہیں ہوتی‘‘ حالانکہ اس کالم کی منظوری جناب مجید نظامی نے ہی دی تھی۔ اس کے بعد میں نے ’’محبوب سیاست دان‘‘ کو بھلا ہی دیا۔ اس کا کالموں میں ذکر کرنا ہی چھوڑ دیا‘ میدان سیاست میں، میری سب سے زیادہ ’’دوستی‘‘ چکری کے راجپوت چوہدری نثار علی خان سے تصور کی جاتی ہے اوران کو میرے ’’قلم کی دہشت گردی‘‘ سے سب سے زیادہ شکایات بھی ہیں‘ ایک دو مرحلے تو ایسے آئے کہ ہمارے درمیان ’’دوستی‘‘ ختم ہونے لگی۔ اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پچھلے کچھ عرصہ سے سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کے گرد گھیرا ڈالے رکھنے والے ان مسلم لیگیوں کا ٹارگٹ بھی وہی ہیں جو ہر روز ان کو یہ باور کرانے میں کوشاں رہتے ہیں کہ وہ اپنے حق میں کالم لکھواتے ہیں اور ان کی حیثیت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرے بارے میں میاں نوازشریف کو اس حد تک باور کرا دیا گیا وزیراعظم ہائوس میں ہونے والی مشاورت کی خبر کا ’’سورس‘‘ ہی چوہدری نثار علی خان ہیں حالانکہ وہ کوئی بات بتانے سے گریز کرتے ہیں بلکہ سرے سے ان تک کسی کی رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ اگر رسائی ہو بھی جائے تو اندر کی خبر نہیں بتاتے اور پھر وہ کالموں میں انہیں گھسیٹنا بھی پسند نہیں کرتے لیکن میں پھر بھی ان کی ’’ناراضی‘‘ کی پروا کئے بغیر ان کی شخصیت کے حوالے سے ’’قلم کاری‘‘ کرنے کی جسارت کرتا رہتا ہوں۔ صحافتی حلقوں میں چوہدری نثار علی خان کے بارے میں مجھے ’’ایکسپرٹ‘‘ کی حیثیت حاصل ہے۔ جب کوئی ٹی وی چینل چوہدری نثار علی خا ن کے بارے میں ’’درفنطنی‘‘ چھوڑتا ہے تو اکثر دوست احباب صحیح خبر کی تلاش میں مجھ سے رابطہ کرتے ہیں اور پھر میں اپنے تجربہ کی بناء پر ان کی ’’رہنمائی‘‘ کرتا رہتا ہوں۔ مجھے مسلم لیگ (ن) کے اندر ’’فاختائوں اور عقابوں‘‘ کے درمیان پائی جانے والی جنگ کا بہت پہلے سے علم ہے لیکن پچھلے دو تین ماہ کے دوران اس جنگ نے اس وقت شدت اختیار کرلی جب سابق وزیراعظم محمد نوازشریف سے کچھ لوگوں نے چوہدری نثار علی خان کی ’’وفاداری‘‘ کے حوالے سے سوالات اٹھائے۔ میاں نوازشریف ’’خاموشی‘‘ سے سنتے رہے شاید یہ عمل دن میں کئی بار دہرایا جاتا ہو جب چوہدری نثار علی خان تک مصدقہ اطلاعات موصول ہوئیں تو ان کی طرف سے ردعمل فطری تھا پھر اس پر طرفہ تماشا یہ کہ ان کو مشاورتی اجلاسوں میں بلانا ہی چھوڑ دیا گیا ’’ناراضی‘‘ کی صورتحال اس وقت تک برقرار رہی جب تک سپریم کورٹ کا میاں نوازشریف کیخلاف فیصلہ نہیں آگیا۔ چوہدری نثار علی خان اپنے غصے کا بڑی حد تک اظہار وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کرچکے تھے‘ رہی سہی کسر انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں نکال لی تھی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے مشاورتی اجلاسوں میں چوہدری نثار علی خان کی موجودگی سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ نوازشریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان فاصلے کم ہوگئے ہیں۔ مسلم لیگی زعماء کے اجلاس میں ’’کاروان جمہوریت‘‘ کا موٹروے پر روٹ طے ہونے کے باوجود ’’عقابوں‘‘ نے تبدیل کرا دیا لیکن چوہدری نثار علی خان کو ٹیلی ویژن کے ذریعے روٹ کی تبدیلی کا علم ہوا چوہدری نثار علی خان نے چکری پراستقبال کرنے کا عندیہ دیا‘ جب روٹ تبدیل ہوا تو چوہدری نثار علی خان نے اعتراض کیا البتہ وہ نوازشریف کو الوداع کہنے پنجاب ہائوس آئے اور نہ ہی ان کے ساتھ لاہور گئے تو پھر ’’عقاب‘‘ ان کیخلاف ’’سرگرم‘‘ عمل ہوگئے۔ میں نے ان سے اس بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ 99 فیصد سینئر قیادت ریلی میں موجود نہیں تھی۔ اس بارے میں مجھ سے کیوں سوال کیا جا رہا ہے جب کہ سب جانتے ہیں کہ میں جلسے‘ جلوس اور ریلی والا آدمی نہیں ہوں۔ اب لاہور میں سردار یعقوب ناصر کی بطور قائم مقام صدر کی جانے والی نامزدگی نے ایک اور تنازع کھڑا کردیا۔ چوہدری نثار علی خان کو مشاورتی عمل سے نکال دیا گیا انہیں سردار یعقوب ناصر کی نامزدگی کے بارے میں ٹیلی ویژن کے ذریعے معلوم ہوا تو انہوں نے پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس سے قبل سردار یعقوب ناصر کو قائم مقام صدر بنانے کے فیصلے کے اعلان پر اپنے تحفظات کا اظہار کردیا اور کہا کہ ’’اجلاس سے قبل لاہور میں فیصلے کرلئے جاتے ہیں تو پھر مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کی کیا ضرورت تھی۔ اس بات کی تحقیق ہونی چاہئے کہ فیصلے پریس تک کس طرح پہنچ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ’’میں پارٹی قیادت کو اپنی سوچ کے مطابق مشورے دیتا رہا کچھ پر عمل ہو اہے لیکن کچھ پرعملدرآمد نہیں کیا گیا۔ میں نے کہا کہ’’وزیراعظم عدالت سے اپنے منصب کا استثنیٰ مانگیں، محاذآرائی سے گریز کریں لیکن میرے مشوروں کو درخور اعتناء نہ سمجھا گیا لیکن جن کے مشوروں سے ہمیں یہ دن دیکھنا پڑا ان سے کیوں نہیں پوچھا جاتا؟ خواجہ سعد رفیق اور چوہدری تنویر خان نے چوہدری نثار علی خان کے خیالات کی تائید کی۔ چوہدری نثار علی خان کی اس ’’حق گوئی‘‘ نے ایک بار پارٹی کی صفوں میں کھلبلی مچا دی۔ لاہور میں کئے جانے والے فیصلوں کو چیلنج کرنے کی روش پر اگلے ہی روز سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سنیٹر پرویز رشید جوآج کل ’’عقاب صفت‘‘ رہنمائوں کی صفوں میں کھڑے ہیں نے ایک جوابی بیان داغ دیا۔ ڈان لیکس کے بعد انہوں نے خاموشی اختیار کررکھی تھی وہ اس وقت میاں نوازشریف کے بہت قریب تصور کئے جاتے ہیں۔ ان کی طرف سے بین السطور چوہدری نثار علی خان کو تنقید کا نشانہ بنانا معمولی بات نہیں تھی‘ انہیں کہیں سے آشیرباد نہ ہو وہ بات نہیں کرتے
سنیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ’’وزارت داخلہ کے ہوتے ہوئے ہمارے خلاف فیصلے ہوگئے، ایک متنازعہ جے آئی ٹی بنی اور ہماری حکومت ہونے کے باوجود ہمارے ساتھ بہت کچھ ہوگیا۔ ڈان لیکس پر بے گناہ ہوتے ہوئے بھی جمہوریت کیلئے قربانی دی۔ انہوں نے کہا کہ میاں نوازشریف کیخلاف اسٹیبلشمنٹ کی سوچ نے اقدام کیا ہے اور پی ٹی آئی مہرہ بنی، ادارے کا نام نہیں لیتا لیکن افراد ملوث ہیں، مشرف کی’’بدروح‘‘ سیاستدانوں اور اداروں میں موجود ہے جس نے یہ سازش کی ،پہلے جتنے بھی وزرائے اعظم نکالے گئے وہ خاموشی سے اپنے گھروں کو گئے اس لئے لوگ ان کا نام بھی بھول گئے مگر اس دفعہ ایسا نہیں ہوا اور لوگوں کا فوری ردعمل بھی سامنے نہیں آیا، ہمیں اب اسٹیبلشمنٹ کی اس سوچ کا مقابلہ کرنا ہوگا اور اسے ختم کرنا ہوگا۔ ڈان لیکس پر ہم نے بہت صبر اور برداشت سے کام لیا۔‘‘سابق وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی سنیٹر پرویز رشید کا چڑھا ہوا ادھار فوری طور پر اتا ردیا۔ ان کی طرف سے سنیٹر پرویز رشید کے بیان پر ردعمل آگیا ۔ انہوں نے کہا کہ’’معلوم نہیں کچھ لوگوں نے کیوں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا سارا بوجھ وزارتِ داخلہ اور اسٹیبلشمنٹ پر ڈال دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایسے لوگوں کی سوئی وزارتِ داخلہ اور سابق وزیرِ داخلہ پر آکر پھنس گئی ہے ۔ کاش وہ اپنے بیان میں یہ بھی وضاحت کردیتے کہ ان کی ’’کارستانیوں‘‘ پر پردہ ڈالنے کیلئے وہ وزارتِ داخلہ سے کس قسم کی مدد کی توقع کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ جس چھ رکنی کمیٹی نے ان کے خلاف ڈان لیکس میں فیصلہ دیا اسکا صرف ایک ممبر وزارتِ داخلہ جبکہ باقی پانچ ممبر وفاقی یا صوبائی حکومت کے ماتحت تھے۔ اگر وہ اتنے ہی معصوم ہیں توانہیں اپنی حکومت کو یہ مشورہ دینا چاہئے کہ ڈان لیکس کمیٹی رپورٹ منظرعام پر لائی جائے تاکہ سب کچھ واضح ہوجائے۔ ان میں یہ بھی اخلاقی جرأت ہونی چاہئے کہ قوم سے پہیلیاں بجھوانے کے بجائے سازش کے بارے میں کُھل کر وضاحت کریں۔ مسلم لیگ (ن) میں ’’فاختائوں اور عقابوں‘‘ کے درمیان ’’جنگ‘‘ نے خطرناک صورت اختیار کرلی ہے۔ میاں نوازشریف نے فوری طور پر مداخلت کرکے ’’سیزفائر‘‘ نہ کرایا تو دو مختلف سوچ رکھنے والے لیڈروں کی لڑائی پارٹی کو دو حصوں میں منقسم کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ کیا سنیٹر پرویز رشید نے جو کچھ کہا ہے کیا اس کو میاں نوازشریف کی تائید بھی حاصل ہے؟ اگر ایسا نہیں تو میاں نوازشریف کو پارٹی کو بچانے کیلئے ایک قدم آگے بڑھ کر صورتحال کی بہتری کیلئے اقدام اٹھانا چاہئے۔