آج پورے ملک میں ہمارے قومی شاعر بلکہ شاعر مشرق علامہ اقبال کا دن منایاجا رہا ہے علامہ اقبال جنہوں نے مسلمانان ہند کوخودی اور خودداری کے ساتھ زندہ رہنے کا ایک نظریہ دیا۔ آزاد اور خودمختار مملکت تعمیر کرنے کا حوصلہ دیا۔ ضمیروں کو جھنجھوڑا اور قوم کی سوچوں کا دھارا موڑ دیا جنہوں نے قوم کو بتا دیا کہ زندگی ایک جہد مسلسل کا نام ہے۔ مسجد قرطبہ کی نظم میں ان کے چند اشعار ہیں۔
ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام
جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق خود اک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام
یہ اشعار مجھے اس وقت یاد آنے لگے جب نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی سالانہ کارکردگی کی رپورٹ جناب شاہد رشید پیش کر رہے تھے اور سلائیڈ پر زیر تعمیر ایوان قائد اعظم کی تصویریں دکھائی جا رہی تھیں۔ اور جناب ڈاکٹر مجید نظامی دھیمے دھیمے لہجے میں انہی سانسوں کو حروف میں ڈال کر بتا رہے تھے کہ کس جذبہ عشق نے انہیں ایوان قائد اعظم کو تعمیر کرنے کا حوصلہ اور ہمت عطا کی وہ کہہ رہے تھے اتنے بڑے پاکستان میں کئی کئی منزلوں پر مشتمل پلازوں کے بڑے بڑے شہروں میں اور ہاں قائد اعظمؒ اور محمد علی جناح کے ناموں سے دھڑا دھڑ ہر شہر کے ہر کوچے میں تعلیمی ادارے بنانے والوں میں کسی کو خیال تک نہ آیا کہ ایک عظیم الشان بلڈنگ حضرت قائد اعظم کے نام نامی سے بھی ہونی چاہئےے۔ سو انہوں نے اس کار خیر کا بیڑا اپنے رفقائے کار کے ساتھ مل کر اٹھانے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ جناب ڈاکٹر رفیق احمد تو ایک ایسے مستقل رفیق ہیں جو نظریہ پاکستان اور قائد اعظم کے حوالے سے ہر کار خیر کے لئے اپنی زندگی وقف کر چکے ہیں۔ لاہور شہر کے دل سے بڑی شریان کی طرح ایک نہر نکلتی ہے کبھی تنہا ہوتی تھی آج کل اس کے کنارے امراءکی خوش رنگ اور دلکش کالونیاں آباد ہو گئیں ہیں۔ یہی نہر موٹروے تک مسافروں کا پیچھا کرتی ہے اسی نہر کے کنارے وہ عالی شان، منفرد اور بلند و بالا بلڈنگ سر اٹھائے کھڑی ہے جس کے ماتھے پر لکھا ہے یہ ایوان قائد اعظم ہے قائد اعظم محمد علی جناح کے نام کا سب سے بڑا ادارہ ایک نظریاتی یونیورسٹی نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ کی پاسبان درسگاہ چاروں صوبوں اور کشمیر وگلگت کی نوجوان نسلوں کو اپنی آغوش شفقت میں بلاتی ہوئی ماور مہربان: جنرل کونسل کے اس اجلاس کے سامنے جناب ڈاکٹر مجید نظامی نے ایوان قائد اعظمؒ کے لئے اور اس نظریاتی یونیورسٹی کے لئے پورا لائحہ عمل پیش کیا۔ جدید سائنسی سہولیات سے مزین یہ یونیورسٹی اپنی مثال آپ ہو گی۔ اس میں مادر ملت کے نام کی ایک عظیم الشان لائبریری ہو گی جس کے اندر محمد علی جناحؒ، علامہ اقبالؒ، مادر ملت اور پاکستان کے سارے جانثاروں کے بارے میں لکھی ہوئی کتابیں ، کسی بھی زبان میں ہوں دنیا بھر سے منگوائی جائیں گی۔ تقریباً دو لاکھ سے زائد کتب اکٹھی کرنے کا پروگرام ہے پھر ایک ایسا آڈیٹوریم تعمیر کیا جا رہا ہے جس میں پندرہ سو افراد بیٹھ کر لیکچر سن سکیں یا پروگرام دیکھ سکیں۔ مشاہیر کے نام پر الگ الگ بلاک اور کانفرنس روم تعمیر کئے جا رہے ہیں۔ کچھ لوگ شور مچا کر کام کرتے ہیںجتاجتا کر، نعرے لگا لگا کر، مگر ڈاکٹر مجید نظامی اور ڈاکٹر رفیق احمد جیسے لوگ بولتے کم ہیں کام زیادہ کرتے ہیں مگر ان کے کام سورج کی روشنی کی طرح دن دیہاڑے نظر آتے ہیں اہل اقتدار بھی آتے رہتے ہیں جس خزانے کے مالک بن جاتے ہیں اس میں سے تھوڑی سی عنایات بھی کر جاتے ہیں مگر مجید نظامی صاحب نے اپنے رفقائے کار اور بورڈ کے ارکان سے بھی کہہ رکھا ہے کہ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ایوان قائد اعظم کی تعمیر میں حصہ ڈالتے جاﺅ۔ جس نے اتنا بڑا اور شاندار ملک تمہیں بنا کر دیا اس کے نام پر پھول چڑھایا کرو دیکھو چند اینٹوں کی وجہ سے یہ یادگار رک نہ جائے اس کا پورا بجٹ 90 کروڑ کا ہے 60 کروڑ تک بن چکا۔ آگے بھی انشاءاللہ بنتا رہے گا۔ اس ایوان کے سائے میں بہتی ہوئی نہر سارا دن کہتی رہتی ہے، ارے اس ملک کا خزانہ خالی نہیں ہے اگر اٹھارہ کروڑ عوام صرف راہ چلتے ہوئے نہر کے حوالے صرف ایک ایک سو روپیہ کرتے جائیں تو راتوں رات رقم اکٹھی ہو جائے تکے کباب کی دوکانوں پر بیٹھنے والے صرف ایک دن مرغن کھانا نہ کھائیں اور ایک ہزار چڑھائیں تو بھی.... مگر ڈاکٹر نظامی صاحب یہ کہیں گے نہیں اینٹیں بات کریں گی۔ سریا سر اٹھائے گا نہر شور مچائے گی جو کہتی رہتی ہے ارے تم اپنے ثقافتی شو پر ایک ارب خرچ کرتے ہو اپنی شادیوں پر دو ارب خرچ کرتے ہو اپنے بم پروف محلات پر تین ارب خرچ کرتے ہو اور ....اچھا چلیں جانے دیں ہماری دعا ہے باری تعالیٰ ڈاکٹر مجید نظامی اور ڈاکٹر رفیق احمد کو صحت و سلامتی سے لمبی عمر عطا کرے آمین وہ خود اس مشن کا ا فتتاح کریں اور اس کے اندر کام شروع کریں جس طرح سالوں پہلے انہوں نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ بنا کے کام شروع کیا تھا۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کو آباد ہوئے تقریباً بیس سال ہو گئے ہیں ان بیس سالوں میں 27 لاکھ سے زائد طلباءو طالبات کو نظریہ پاکستان سے آگہی ہوئی پندرہ ہزار سے زائد لوگوں نے اس لائبریری سے استفادہ کیا۔ موبائل نظریاتی یونٹس تقریباً ڈیڑھ لاکھ تعلیمی اداروں میں گئے نظریاتی تربیتی ورکشاپ سے 630 اساتذہ کرام نے ٹریننگ حاصل کی کئی فکری نشستیں ہوئیں اکابرین کے دن منائے گئے ویب سائٹ سے تقریباً تینتالیس لاکھ طلباءطالبات اور افراد نے استفادہ کیا اس کے علاوہ سیرت کانفرنسیں، محافل میلاد، پاکستان پائیندہ باد کانفرنس کتابوں کی رونمائیاں، شخصیات کے نام سے اعزازی تقریبات سارا سال اس ہال میں ہوتی رہتی ہیں جس کو غلام حیدر وائیں کے نام پر وائیں ہال کا نام دیا گیا ہے ہر میٹنگ میں وائیں صاحب کو یاد کیا جاتا ہے اور دعاﺅں کا تحفہ بھیجا جاتا ہے کہ انہوں نے ہی نظریہ پاکستان کے نام سے اس بلڈنگ کو تعمیر کرنے کا قصد کیا تھا۔ ڈاکٹر صفدر محمود کہتے ہیں ”میں بھی تو تھا“ یہی ہیں وہ لوگ جنہیں ہم محبان وطن، محبان قائد اعظم، اور محبان علامہ اقبال کہہ سکتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ ان کی تقلید کرنے والے آتے رہیں۔ اور اپنے پاکستان سے اپنی محبتوں کا اظہار کرتے رہیں۔ کیونکہ ہمارے علامہ اقبال نے ہی کہا ہے
رنگ ہو یاخشت و سنگ چنگ ہو یا حرف صوت
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود
قطرہ خون جگر سیل کو بناتا ہے دل
خون جگر سے ملا سوزوسرود سرور
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024