اب ایران کی باری ہے، وہ کیوں پیچھے رہتا، پاکستان کو سزا دینے کا موقع وہ ضائع کیوںکرتا، اس نے پہلے تو دھمکی دی کہ اسے پاکستان کے اندر کارروائی کرنی پڑی تو وہ دریغ نہیں کرے گا اور اگلے ہی روز اس نے دھمکی پر عمل کر دکھایا، عالمی سرحد پر فائرنگ کی اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے ایک صوبیدار کو شہید کر دیا ور تین اہلکار شدید زخمی ہو گئے۔ کیا اس فورس نے ایران کی سرحد کے اندر مداخلت کی تھی، کیا پاکستان نے ایران کے خلاف کسی جارحیت کا ارتکاب کیا تھا، کیا ایران اور پاکستان کی آپس میں کوئی پرانی دشمنی چل رہی ہے، کیا ایران اور پاکستان میں عرب و عجم کا کوئی صدیوں پرانا تنازعہ ہے۔ نہیں، اس میں سے کوئی مفروضہ درست نہیں۔ حقیقت صرف یہ ہے کہ پاک فوج کو ایک مذموم منصوبے کے تحت پوری سرحد اور ملک کے کونے کونے میں پھیلنے اور الجھنے پر مجبور کر دیا جائے، اس پر تابڑ توڑ حملے کر کے اسے مضمحل کر دیا جائے تاکہ جس کسی نے آخری وار کرنا ہے، اسے کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بارہ برس سے پاکستان کو دہشت گرد مار رہے ہیں، مار کیا رہے، مار مار کر لہو لہان کر چکے ہیں۔ جسدِ قومی سے خون کا آخری قطرہ بھی بہانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ساٹھ ہزار پاکستانیوں کی جانیں لے چکے ہیں، کھربوں کی معیشت کو کھنڈر بنا چکے ہیں۔
پاکستان کا قصور کیا ہے، کچھ بھی تو نہیں، امریکہ کے خلاف نائن الیون ہوا، امریکہ نے اس کا بدلہ لینے کی ٹھانی۔ نائن الیون کے حوادث میں کوئی پاکستانی شریک نہیں تھا، کوئی افغانی شریک نہیں تھا، کوئی عراقی شریک نہیں تھا مگر امریکہ نے انہی ممالک کو نشانہ بنایا، عراق کا فالودہ بنا ڈالا، افغانستان کا تورا بورا بنا دیا اور پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے ہلہ بول دیا گیا ہے۔ عراق کا قصور یہ بتایا گیا کہ اس ملک کے پاس ایٹمی اسلحہ موجود ہے جس سے انسانیت کو وسیع پیمانے پر تباہی سے خطرہ ہے، افغانستان کا قصور یہ گنوایا گیا کہ یہاں نائن الیون کے دہشت گردوں کا سرغنہ اسامہ بن لادن پناہ گزین ہے جسے طالبان نے امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کیا، مگر پاکستان نے تو امریکہ کا حلیف بننے سے انکار نہیں کیا، کیا یہی اس کا جرم تھا، جی ہاں، دہشتگروں نے پاکستان کو اسی جرم کی سزا دی اور اسامہ بن لادن جس نے ایڈیٹر اوصاف حامد میر کے ساتھ آخری انٹرویو میں اقرار کیا تھا کہ ا س کے پاس ایٹمی اسلحہ ہے، یہ انٹرویو انگریزی روزنامہ ڈان میں بھی شائع کروایا گیا تاکہ یہ ساری دنیا تک پہنچ سکے مگر اسامہ نے اپنا ایٹمی اسلحہ کہیں نہیں چلایا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ عراق کے خلاف جھوٹے الزام کی طرح اسامہ کے بارے میں بھی یہ دعوی بے بنیاد تھا، محض ایک ذہنی اختراع تھی، ایک بہانہ چاہئے تھا، وہ اس انٹرویو نے بہم پہنچا دیا۔ دنیا نے الزام لگایا کہ یہ ایٹمی اسلحہ پاکستان سے چوری کیا گیا ہے یا پاکستان نے از خود اسامہ کے حوالے کیا ہے۔ مگر بارہ برس کی لڑائی کے بعد ثابت ہوا کہ یہ انٹرویو جھوٹ تھا، سراسر جھوٹ، اسامہ سے جو کچھ منسوب کیا گیا، اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی مگر اس کی وجہ سے افغانستان اور پاکستان کی شامت آ گئی، افغانستان کی سزا پوری ہوئی یا نہیں لیکن پاکستان کی سزا ابھی پوری نہیں ہوئی، اس کے کس بل نکالنے کے لئے کئی مہرے آگے کر دیئے گئے ہیں، افغانستان اس کا جانی دشمن ہے حالانکہ اس ملک کے لئے پاکستان نے برسوں تک قربانی دی، لاکھوں افغان مہاجرین کا بوجھ بھی اٹھایا۔ امریکہ ، نیٹو فوج ، ڈرون طیارے اور دہشت گرد جتنا پاکستان کو مار سکتے تھے، مارتے رہے، اب نئی فورس میدان میں جھونک دی گئی ہے، یہ ایران ہے جو امریکہ کی نئی نئی دوستی کے مزے اٹھا رہا ہے، وہ بھارت کے بھی بے حد قریب ہے، بھارت نے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے پراجیکٹ کی تکمیل کا بیڑہ اٹھایا ہے تاکہ خشکی سے گھرے ہوئے افغانستان کو بندر گاہ کی سہولت میسر آ سکے۔ بھارت نے افغانستان میں پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ کا طوفان کھڑا کر رکھا ہے، بلوچستان میں اس کی براہ راست مداخلت جاری ہے اور لاہور کی انارکلی میں بم دھماکوںکی ذمہ داری بلوچ دہشت گرد قبول کر رہے ہیں۔ بھارت نے اپنے تربیت یافتہ دہشت گردوں کے ذریعے جی ایچ کیو کا محاصرہ کیا، آئی ایس آئی کے دفتر کو اڑانے کی کوشش کی، کامرہ میں بار بار حملہ کیا اور آخرکار اواکس طیارہ تباہ کر کے چھوڑا، کراچی کے نیول بیس پر دہشت گردی میں اورین طیارہ تباہ کیا، اس طرح پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو مفلوج بنانے کی کوشش جاری رکھی۔ اب وہ براہ راست میدان میں کود پڑا ہے، اس کی سرحدی افواج نے سیالکوٹ اور آزاد کشمیر کے مختلف محاذوں پر گولہ باری شروع کر دی ہے، بھارت کا خیال ہے کہ پاکستانی افواج ضرب عضب میں مصروف ہیں، اس لئے اس کی جارحیت کا جواب نہیں دے پائیں گی، ایران کا وہم بھی یہی ہے کہ پاکستانی فوج کو سر کھجانے کی فرصت نہیں۔
اب کون سا ہمسایہ ایسا باقی رہ گیا ہے جسے پاکستان کے سر پر ٹھاپ لگانے کا شوق ہے اور وہ اپنی یہ خواہش پوری نہ کر پایا ہو، کیا چین یہ حرکت کر سکتا ہے، اس ملک میں دہشت گردی کا ارتکاب ہوا، اس روز وزیر اعلیٰ پنجاب چین میں تھے، سنکیانگ کے دارالحکومت اورمچی میں دہشت گردوں کی طرف سے قیامت ڈھا دی گئی۔ چینی صدر نے یہ حکم دے دیا کہ پاکستان ا ور چین کی سرحد پر سنگلاخ سربفلک دیوار کھڑی کر دی جائے، خدانخواستہ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ اس ملک پر چڑھ دوڑو اور اسے سبق سکھا دو۔
پاکستان ہر طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے اور قوم کے اندر جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے، کوئی بیرونی شہری یہاں ایک صوبے کا مدار المہام بننے کے خبط میںمبتلا ہے، ایک اور بیرونی شہری ملک میں انقلاب کا پھریرا لہرانا چاہتا ہے، ایک کرکٹر جس کی اولاد بیرون ملک بیٹھی ہے وہ نیا پاکستان بنانے کے لئے کوشاں ہے اور حکمران پارٹی جس کے اثاثے اور اولادیں بیرون ملک ہیں، وہ جمہوریت کے نام پر اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتی ہے، اس انتشار کی فضا میں بیرونی جارحیت کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے، پاکستان کے خلاف ہر کوئی جیسے بھرا بیٹھا ہے۔ چاروں طرف سے یلغار پر یلغار جاری ہے، غنیم ہمیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ اور ہم باہم دست وگریبان ہیں۔
مجھے یاد آرہا ہے کہ حافظ محمد سعید نے رمضان المبارک میں ایک دعوت اٖفطار کے موقع پر یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ دشمن اپنی جنگ ناحق پاکستان کی سرزمین پر لڑ رہا ہے جس سے ہر لمحے ہمارا نقصان ہو رہا ہے، ہمیں چاہئے کہ یہ بیرونی جنگ دشمن کی سرزمیں واپس دھکیل دیں اور اپنے نقصانات سے بچیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ اگر ہم نے حافظ محمد سعید کے سبق پر عمل نہ کیا تو کسی روز بنگلہ دیش کے طیارے پاکستان میں آ کر بمباری شروع کر دیں گے اور شاید دور پار کاکوئی اور ملک بھی پاکستان پر چڑھ دوڑے جس کے دل میں پاکستان کے خلاف جارحیت کی حسرت پرورش پا رہی ہے، سبھی اپنی اپنی حسرتیں پوری کرنے کی کوشش کریں گے اور ہم کیا کریں گے، کسی کو پتہ ہو تو مجھے ضرور مطلع فرمائے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024