30 نومبر 1967ء کو لاہور میں جناب بھٹو کی چیئرمین شپ میں پاکستان پیپلز پارٹی قائم ہوئی‘ جس کے رہنما اصول تھے (1) جمہوریت ہماری سیاست ہے (3) سوشلزم ہماری معیشت ہے اور (4) طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ 18 اکتوبر 2014ء کو جناب ذوالفقار علی بھٹو کے نواسہ بلاول زرداری المعروف بلاول بھٹو نے اپنے نانا کی پارٹی کے تین رہنما اصولوں کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ (1) اسلام ہمارا دین ہے۔ (2) جمہوریت ہماری سیاست ہے اور (3) طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ ان کی تقریر سے ’’سوشلزم ہماری معیشت ہے کا اصول غائب تھا جناب ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا سیاسی وارث اپنے والد آصف زرداری سے بڑی عمر کے بزرگوں اور اپنی اور اپنی دونوں بہنوں بختاور بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری سے کم عمر لڑکیوں اور لڑکوں کے ذریعے پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کے قائد کو اپنے نانا سے بھی زیادہ تیز زبان میں ڈانٹتے ہوئے مشورے دے رہا تھا ’’بھٹو ازم میں ہی پاکستان کے عوام کے مسائل کا ہر حل موجود ہے۔
30 نومبر 1967ء کو پارٹی کے تاسیسی اجلاس میں چیئرمین بھٹو کے ساتھ سکہ بند سوشلسٹ سیاستدان اور دانشور‘ جناب جے اے رحیم‘ بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید‘ ڈاکٹر مبشر حسن‘ خورشید حسن میر اور معراج محمد خان بیٹھے تھے اور 18 اکتوبر کو بلاول بھٹو کے ساتھ سٹیج پر ان کے والد جناب آصف زرداری ان کی ہمشیرہ محترمہ فریال تالپور اور جناب زرداری کے منہ بولے بھائی جناب اویس مظفر ٹپی ’’بھٹو ازم کے پرچارک‘‘ کی حیثیت سے نمایاں تھے۔ بھٹو صاحب اقتدار میں آنے سے پہلے ’’غریبوں کے حق میں انقلاب‘‘ لانے کا وعدہ دہراتے رہتے تھے اور مفلوک الحال لوگوں کو تاثر دیا کرتے تھے کہ وہ جاگیرداری اور سرمایہ داری کا خاتمہ کر دیں گے اور عوامی جمہوریہ چین کے بانی چیئرمین ماؤزے تنگ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان میں بھی سوشلسٹ انقلاب لائیں گے۔
پاکستان دو لخت ہوا اور جناب بھٹو ’’نیا پاکستان‘‘ کے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر منتخب ہوئے تو اگر وہ چاہتے تو غریبوں کے حق میں انقلاب برپا کر سکتے تھے۔ پاک فوج انہیں منع کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ بھٹو صاحب نے MIXED ECONNMY (مخلوط معیشت) رائج کر دی۔ شاید اسی وقت ’’بھٹو ازم‘‘ کے نفاذ کا آغاز ہو گیا تھا اور جب پارٹی کے سیکرٹری جنرل جے اے رحیم کو (وفاقی وزیر کی حیثیت سے) ان کی سرکاری رہائش گاہ پر ایف ایس ایف کے اہلکاروں سے پٹوایا گیا۔ جناب مختار رانا کو سویلین مارشل لاء کے تحت 4 سال کی قید بامشقت دلوا کرانہیں قومی اسمبلی کی رکنیت سے محروم کیا گیا۔ معراج محمد خان اورحنیف رامے کو 4/4 سال کے لئے جیل بھجوایا گیا اور پارٹی کے لاتعداد ترقی پسند لیڈروں کو پارٹی سے نکال دیا گیا یا نکلنے پر مجبور کیا گیا کیا وہ بھی ’’بھٹو ازم‘‘ ہی تھا؟
کیا یہ بھی ’’بھٹو ازم‘‘ ہی تھا کہ جب چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو‘ نواب محمد احمد خان کے قتل کے مقدمے میں گرفتار ہوئے تو انہوں نے ’’جمہوریت ہماری سیاست ہے‘‘ کا رہنما اصول نظرانداز کیا اور اپنی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کی چیئرپرسن نامزد کر دیا۔ بیگم نصرت بھٹو نے شفقت مادری سے مغلوب ہو کر محترمہ بے نظیر بھٹو کو پارٹی کی ’’شریک چیئرپرسن‘‘ مقرر کر دیا جبکہ پارٹی کے دستور میں شریک چیئرپرسن کا کوئی عہدہ ہی نہیں تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دوسرے دور دسمبر 1995ء میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے 33 ارکان کا اجلاس وزیراعظم ہاؤس میں طلب کیا۔ بیگم بھٹو کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ارکان نے ’’متفقہ طور پر‘‘ بیگم نصرت بھٹو کو برطرف کرکے محترمہ بے نظیر بھٹو کو چیئرپرسن ’’منتخب‘‘ کر لیا۔ یہ سب ’’بھٹو ازم‘‘ کے تحت ہوا۔
’’بھٹو ازم‘‘ کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی میں کبھی انتخابات ہی نہیں ہوئے۔ پہلے اوپر سے لے کر نیچے تک ہر عہدے پر جناب بھٹو نامزدگیاں کرتے تھے‘ ان کے بعد بیگم نصرت بھٹو پھر محترمہ بے نظیر بھٹو۔ عجیب بات ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں اپنے شوہر نامدار کو پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دیا۔ یہ بھٹو ازم تھا یا زرداری ازم؟ کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ان کی ایک ایسی وصیت برآمد کر لی گئی جس کے تحت جناب زرداری نے اپنے بیٹے بلاول زرداری کو ’’بھٹو‘‘ کا خطاب دے کر پارٹی کا چیئرمین نامزد کر دیا اور خود شریک چیئرمین ’’منتخب‘‘ ہو گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد بھی پاکستان پیپلز پارٹی کو انفرادی ملکیت کی حیثیت سے چلایا جا رہا ہے۔ یعنی کل بھی بھٹو زندہ تھا۔ آج بھی بھٹو زندہ ہے؟
سید یوسف رضا گیلانی نے چیئرمین بلاول سے التجا کی ہے کہ ’’جناب چیئرمین! پارٹی کی پرانی تنظیمیں تحلیل کر دیں اور نئی تنظیمیں بنائیں! چیئرمین نے یہ التجا سنی ان سنی کر دی۔ جناب گیلانی کے بارے میں شاعر نے پہلے ہی کہہ دیا تھا…
’’بات بھی کھوئی التجا کرکے!‘‘
بیرسٹر اعتزاز احسن نے اپنے سے پہلے پارٹی کے کچھ اہم لیڈروں کی خوشامدانہ تقریروں پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس جلسے کو‘‘ انجمن ستائش باہمی‘‘ نہیں بنانا چاہئے۔ میرے سمیت یوسف رضا گیلانی اور رضا ربانی جیسے لوگوں کو عزت و احترام کے ساتھ پچھلے بنچوں پر بٹھا دیں اور ان سے مشورے بھی کریں لیکن پارٹی میں نوجوانوں کو لانا پڑے گا۔ ان سے نئے وعدے کرنا ہوں گے اور ان وعدوں کو پورا بھی کرنا پڑے گا۔ محترم بیرسٹر اعتزاز احسن صاحب! اگر جناب ذوالفقار علی بھٹو غریبوں کے حق میں انقلاب لانے کا وعدہ پورا کر دیتے تو غریبوں کی بددعاؤں سے جناب بھٹو‘ محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے دونوں بھائی شاہ نواز بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو غیر فطری موت سے ہمکنار کیوں ہوتے؟ یہ جلسہ ’’انجمن ستائش باہمی‘‘ نہیں تھا بلکہ ’’انجمن ستائش چیئرمین و شریک چیئرمین تھا۔ بھٹو صاحب زندہ ہوتے تو خوشامدیوں کو کھڑے کھڑے پارٹی سے نکال باہر کرتے؟
11 مئی 2013ء کے عام انتخابات سے پہلے جناب زرداری نے اپنی صدارت بچانے کے لئے پارٹی کے شریک چیئرمین کا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری اپنی جان کے خوف سے پارٹی کے عام جلسوں سے خطاب نہیں کرتے تھے۔ یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف بھی تھرتھر کانپتے تھے۔اسی لئے انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی ’’شہادتوں‘‘ کو کیش نہیں کرایا جا سکا۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ’’جب ہم عام انتخابات کے لئے میدان میں اتریں گے تو ہمارے اپنے کارکن ہم سے پوچھیں گے کہ ہم محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو سزا کیوں نہیں دلوا سکے؟‘‘ کسی نہ کسی عدالت یا گاؤں کی پنچایت میں کبھی نہ کبھی تو جناب آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کو جواب ضرور دنیا ہو گا کہ ’’آپ دونوں (باپ اور بیٹا) محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں خود مدعی کیوں نہیں بنے؟‘‘
’’بھٹو ازم‘‘ کے پروانوں‘ دیوانوں‘ جیالوں اور متوالوں نے سندھ حکومت کے وسائل اور پارٹی ٹکٹ کے امیدواروں کی FUND RAISING سے بہت بڑے جلسے میں سندھ اور دوسرے صوبوں کی ثقافت کو خوب اجاگر کیا۔ اب دوسرے صوبوں خاص طور پر پنجاب کو کون فتح کرے گا؟ بلاول بھٹو نے جنوبی پنجاب کا رونا رویا پنجاب تو پاکستان پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے اسی وقت نکل گیا تھا جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے دانشور وزیراعلیٰ حنیف رامے (مرحوم) سے 15 جولائی 1975ء کو استعفیٰ لے کر ملتان کے نواب صادق حسین قریشی کو وزیراعلیٰ بنا دیا تھا۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کو پنجاب میں اپنا وزیراعلیٰ نصیب نہیں ہوا۔
جب جناب آصف زرداری نے محترمہ بے نظیر کی مبینہ وصیت کی برآمد کے بعد پاکستان کھپے کا نعرہ لگا دیا تھا کیا وہ کافی تھا؟ جناب زرداری کا تازہ ترین انکشاف یہ ہے کہ ’’سندھ مدرسہ (جس میں قائداعظم نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی) میرے بزرگوں نے بنایا تھا‘‘ زرداری صاحب یہ بھی جان لیں کہ گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالنے کے بعد قائداعظم نے اپنی جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اسے قوم کے نام کر دیا تھا اور اپنی سگی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح‘‘ کو مسلم لیگ اور حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دیا تھا۔ حاکم علی زرداری (مرحوم) کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ مولانا حسرت موہانی‘ قائداعظم سے بڑے لیڈر تھے۔ اور ہاں جناب آپ زرداری! کیا آپ کے پاس یہ ریکارڈ موجود ہے کہ BAMBINO CINEMA میں کس کس بڑے آدمی نے فلم دیکھی؟ جناب زرداری کے دور صدارت میں چند ہزار غریب (خاص طور پر بیواؤں) کو بے نظیر انکم سپورٹ کے تحت ایک ہزار روپے وظیفہ دیا جاتا رہا ہے۔ یہ وہ وعدہ ہے جو جناب زرداری کے ’’روحانی والد‘‘ جناب بھٹو نے بھی نہیں کیا تھا۔ کیوں نہ ان کی روح کو خوش کرنے کے لئے بے نظیر انکم سپورٹ‘ ہماری معیشت ہے‘‘ کا رہنما اصول بنا لیا جائے لیکن جب تک نئی نسل پر یہ بات واضح نہ ہو جائے کہ ’’بھٹو ازم‘‘ ہے کیا؟ کسی کو بھی ’’بھٹو ازم‘‘ دی پھکی ۔ دھکو دھکی‘‘ سے اب کام نہیں چلے گا!؟
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024