اگر حکمرانی کا استحقاق جتانے اور عوامی مقبولیت کا اندازہ لگانے کا پیمانہ کسی سیاسی جلسے کے شرکا کی تعداد ہے تو پھر 18 اکتوبر کے کراچی کے جم غفیر والے پبلک جلسے کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت بھی گذشتہ سال کے انتخابات میں عوام کے ہاتھوں مسترد ہونے کے باوجود اپنے اگلے اقتدار کے استحقاق کی دعویدار ہو سکتی ہے اور ملتان کے ضمنی انتخابات میں اپنے امیدوار کی ضمانت تک ضبط ہونے کے معاملہ کو شد و مد کے ساتھ انتخابی دھاندلی کا شاخسانہ قرار دے سکتی ہے، تو کیا اب عمران خان کو اپنے بڑے پبلک جلسوں کے باعث اپنے اقتداری استحقاق اور سب سے زیادہ عوامی مقبولیت کے زعم سے باہر نہیں نکل آنا چاہئے؟ اس وقت بات صرف یہ جائزہ لینے کی ہے کہ عوام ہر ایک کے سیاسی جلسے کی رونق کیوں بڑھا رہے ہیں، اس تجزیے میں ملتان کے ضمنی انتخابات پر بھی بات ہو سکتی ہے اور اُجڑنے والے اسلام آبادی دھرنوں کے اب تک برقرار رہنے کے معاملہ کا بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ یہ سارے معاملات نہ اتنے سادہ ہیں اور نہ ہی پیچیدہ، کڑیاں ملتی جائیں تو گتھیاں سلجھانے میں کوئی دشواری نہیں رہتی۔ چنانچہ کوئی عام فہم آدمی بھی اُجڑے ہوئے اسلام آبادی دھرنوں کے باوجود یہ دھرنے ختم کرانے میں حکومتی ناکامی کا جائزہ لے کر زمینی حقائق پر مبنی نتیجہ اخذ کر سکتا ہے۔ تین روز قبل مجھے بھی پارلیمنٹ ہائوس اسلام آباد کے باہر گذشتہ دو ماہ پانچ روز سے جاری انقلابی تحریکی اورنئے پاکستان کے دھرنوں کی اصل حالت کے مشاہدہ کا موقع ملا تو ان دھرنوں اور دھرنے بازوں کی حالت زار دیکھ کر دل میں سوال اُبھرا کہ دھرنوں میں اتنی قلیل تعداد میں موجود شرکاء کو منتشر کرنے کے لئے اب کیا امر مانع ہے جبکہ حکومت ریاستی طاقت کا ہلکا سا استعمال کر کے ان دھرنوں کو ساز و سامان سمیت ٹرکوں میں لاد کر لاہور واپس بھجوا سکتی ہے۔ اگر حکومت اب بھی اس معاملہ میں بے بس ہے تو پھر جان لیجئے اور یہ کوئی راز والی بات نہیں کہ دھرنوں کی طاقت دھرنے میں بیٹھے لوگوں اور ان کے قائدین کی نہیں، ان مقتدر لوگوں کی ہے جنہوں نے کسی خاص مقصد کے تحت یہ محفل لگائی اور سجائی ہوئی ہے ’’سجناں ایہہ محفل اساں تیرے لئی سجائی اے‘‘ مقصد کیا ہے۔ برادر مکرم سعود ساحر کے ہمراہ حکمران مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجہ ظفرالحق سے ان کے معتمر عالم اسلامی والے آفس میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے ایک نیا فلسفہ بیان کر دیا کہ یہ ساری بساط پاکستان چین تعلقات خراب کرنے کے لئے بچھائی گئی ہے جس کا خمیازہ ملک و قوم نے چینی صدر کے اہم ترین دورۂ پاکستان کی منسوخی کی صورت میں بھگت بھی لیا ہے۔ اس دھرنائی سیاست کی سرپرستی کے حوالے سے ان کا اشارہ امریکہ، بھارت اور اسرائیل کی جانب تھا جنہیں اس خطے میں چین اور پاکستان کے باہمی تعاون سے طاقت کے ایک نئے بلاک کی تشکیل ایک آنکھ نہیں بھا رہی۔ عمران خان اور قادری کی افراتفری سیاست کے حوالے سے مغربی میڈیا میں بھی اسی پس منظر میں کئی داستانیں منظرعام پر آ چکی ہیں جو راجہ ظفرالحق کے بیان کردہ فلسفے سے مطابقت رکھتی ہیں۔ جب راجہ صاحب نے بھی اسی کہانی کو آگے بڑھایا تو میرا تجسّس اور بھی گہرا ہو گیا کہ جن مقتدر قوتوں نے اب تک ان دھرنوں کو اُجڑنے کے باوجود زبردستی برقرار رکھا ہوا ہے کیا وہ بھی پاکستان کی سلامتی، استحکام اور مفاد کے خلاف ہونے والی بیرونی سازشوں میں حصہ دار ہیں۔ میں نے اپنے اس تجسّس کا راجہ ظفرالحق کے سامنے بھی اظہار کیا جس کا اس وقت تو ان کی جانب سے کوئی تسلی بخش جواب نہ آیا مگر یہ حقیقت ہے تو اس کا اظہار کرتے ہوئے کسی جھجک کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے۔ اگر نامعلوم مجبوریوں نے ہمارے ہاتھ باندھے اور ہماری زبانیں گنگ کئے رکھیں تو پھر ملک کی تمام سرحدوں پر کھلنے والے محاذ ملک کی سلامتی کے خلاف بیرونی قوتوں کی سازشوں کی کامیابی کا پیغام دیتے نظر آ رہے ہیں۔
بات پیپلز پارٹی کے کراچی جلسے اور عمرانی، قادری جلسوں میں عوام کی جم غفیر کی صورت میں شرکت کی ہو رہی تھی تو اس کا تجزیہ کرتے ہوئے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ حکمرانوں نے اپنے خلاف ایسی حشر سامانیوں کا اہتمام اپنے ہاتھوں سے کیا ہوا ہے۔ وہ گذشتہ انتخابات میں ملنے والے عوامی مینڈیٹ، اپنی عددی برتری اور پھر پارلیمنٹ میں سسٹم کو بچانے کی خاطر اپنے ساتھ سیاسی بزر جمہروں کے اکٹھ کی بنیاد پر کسی رعونت بھری سرشاری کا شکار ہو کر اس عوامی اضطراب کو بھی خاطر میں نہیں لا رہے جو ان کے بڑھائے گئے روٹی روزگار کے گھمبیر مسائل کے حل میں پیدا ہونے والی مایوسی کے باعث بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور وہ کتھارسس کے لئے ہر سیاسی دینی لیڈر کے پبلک جلسوں کی رونق لگا اور بڑھا رہے ہیں۔ آپ نہ مانیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ملتان کے ضمنی انتخاب میں جاوید ہاشمی کو مات بھی اس حکومت مخالف عوامی اضطراب کے نتیجہ میں ہوئی ہے، یہ الگ بحث ہے کہ جاوید ہاشمی کو سسٹم کے خلاف دھرنائی سیاست کے پس پردہ کرداروں کو بے نقاب کرنے کے بعد ضمنی انتخاب میں خود کودنا چاہئے تھا یا نہیں اور منافقانہ سیاست کی بھی یہ نادر مثال ہو گی کہ جس الیکشن کمشن پر دھاندلیوں کے الزامات کی بوچھاڑ کی گئی اسی کے ماتحت ہونے والے ضمنی انتخاب کے لئے ہاتھ کو اُلٹا گھما کر کان پکڑنے کے عمل کے تحت ملتان کے سابقہ راندۂ درگاہ پیپلز پارٹی کے امیدوار کو اڈاپٹ کر کے اس کے حق میں انتخابی مہم کے لئے ایڑی چوٹی کا عمرانی زور لگایا گیا مگر یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ موجودہ حکمرانی میں روٹی روزگار کے مارے عوام کا اضطراب ہی جاوید ہاشمی کی شکست کا باعث بنا ہے جن کے پیچھے حکمران مسلم لیگ جتھہ بند ہو کر کھڑی تھی۔ یہ بات بھی میرے ذاتی مشاہدے میں ہے کہ حکمران مسلم لیگ (ن) کے کئی ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور کئی وفاقی اور صوبائی وزراء کی ملتان کے ضمنی الیکشن میں جاوید ہاشمی کی کامیابی کی راہ ہموار کرنے کی باقاعدہ ڈیوٹیاں لگائی گئی تھیں جو پولنگ سے دو تین ہفتے قبل اپنی اپنی میڈیا ٹیموں سمیت ملتان میں ڈیرے لگا چکے تھے اس کے باوجود جاوید ہاشمی کو کامیاب نہیں کرایا جا سکا۔ تو جناب اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ اپنے اقتدار کے خلاف طوفانوں کی راہ اب خود ہی آپ اپنے بارعونت طرزِ حکمرانی سے ہموار کر رہے ہیں اور اب تو اس معاملہ میں آپ کی اپنی صفوں میں سے اضطراب جھلکتا نظر آ رہا ہے۔ اس اضطراب کی جھلک گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو کے ذریعے دکھائی جس کا میں نے اپنے گذشتہ کالم میں تذکرہ کیا تو میرے کئی کرمفرمائوں کی جبینِ نیاز پر پڑنے والی شکنوں کی جھلک بھی مجھے ایک خصوصی پیغام کے ذریعے دکھا دی گئی مگر میں تو اس اضطراب کی جھلک آپ کی پارٹی کے چیئرمین راجہ ظفرالحق کے چہرے پر بھی دیکھ آیا ہوں جو آپ کے ممدوح بزرگ صحافی سعود ساحر کی زبان پر آپ کے طرز حکمرانی کے حوالے آنے والے جائز اور بجا شکوے شکایات سُن کر آپ کا دفاع کے بجائے معنی خیز انداز میں زیر لب مسکراتے رہے اور پھر حسبِ حال ایک لطیفہ بھی سنا دیا اور پھر جناب کیا کرتے ہیں آپ۔ اگر آج آپ کے عزیزی چوہدری نثار علی خاں بھی یہ باور کرا رہے ہیں کہ ہم سب کو یہ ظالمانہ نظام درست کرنا ہو گا اور یہ کہہ کر آپ کو آئینہ دکھا رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) بھی اپنی کارکردگی بہتر بنائے تو حضور آپ خود ہی اپنی پارٹی میں موجود کسی ’’مینوفیکچرنگ فالٹ‘‘ کا کھوج لگا لیں۔ اور اس حوالے سے میں اپنا ہی ایک حسبِ حال شعر دُہرا دوں تو کیا مضائقہ ہے کہ ؎
میں تو شکوہ لب پہ لاتا ہی نہیں
اور کس کس کی زباں روکو گے تم
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024