پاکستانی ٹی وی ڈراموں میں دوسری شادی کا رجحان بڑھتا جا رہاہے۔ ڈراموں میں اکثر دوسری شادی یا دوسری عورت سے دوستی یامحبت کی وجہ یہی دکھاءجاتی ہے کہ شوہر بیوی سے بیزار ہو چکا ہے اکتا چکا ہے کیوں کہ اس کی بیوی اسے سمجھ نہیں سکی، توجہ نہیں دیتی، بس ضروریات اور پریشانیوں کی فہرست سناتی رہتی ہے وغیرہ۔ شوہر کمائی کی مشین سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ دوسری شادی یا دوسری عورت سے دوستی کرنے والے مرد کو مشرقی معاشرے میں خراب سمجھا جاتا ہے جبکہ ضروری نہیں کہ ایسا مرد خراب ہے۔ مرد توجہ اور اہمیت چاہتا ہے۔ ماں اور بہنوں سے پیار اور اہمیت کا عادی مرد بیوی سے بھی توجہ اور محبت کی امید رکھتا ہے جبکہ عورت بچوں اور گھرداری میں شوہر کے جذبات اور فطری تقاضوں کو ادا کرنے میں حق تلفی کر جاتی ہے۔ ان حالات میں مرد کا دوسری عورت کی طرف متوجہ ہونا عجب بات نہیں۔ کاش کوئی ڈرامہ ایسا بھی بنایا جائے جس میں بیوی کو محبوبہ کے روپ میں پیش کیا جائے تاکہ مشرق کی عورت کو بیوی بننے ساتھ محبوبہ بننے کا شعور بھی دیا جا سکے۔ بیوی اور محبوبہ کو الگ الگ کرداروں میں پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر عورتیں گھر گاڑی ملنے اور دیگر خواہشات پوری ہونے پر راضی ہو جاتی ہیں لیکن شوہر کو راضی اور محبوب بنا کر رکھنا کتنا اہم ہے اس سے قطعی لا تعلق رہنا چاہتی ہیں۔ اگر شوہر دوسری عورت میں دلچسپی لے یا دوسری شادی کرے تو اس فعل کو ظلم و زیادتی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ دور حاضر کی عورت کو محبوبہ بننے کا شوق ہے لیکن گھرداری والی بیوی بننے سے کتراتی ہیں۔ مشرق تا مغرب یہی دیکھاہے کہ گھرداری والی عورت کو ہر معاشرے میں عزت ملتی ہے۔ ایک مشرقی عورت کی پہچان ہی اس کی گھر داری ہے جس سے آجکل کی لڑکیاں جان چھڑانا چاہتی ہیں۔ آجکل لڑکیوں کے رشتوں میں بڑی رکاوٹ کی ایک وجہ ان کا یہ تمسخرانہ انداز ہے کہ ”میں روٹیاں پکانے کےلئے شادی نہیں کروں گی۔ کچن والی چاہیے تو ملازمہ بیاہ لائیں“۔ کچن سے فرار دور جدیدکی ہر دوسری لڑکی کا مرض بن چکا ہے اور نتیجہ میں اپنا گھر برباد کر لیتی ہیں۔ شوہر کو اگر بیوی کو بھی ڈراموں والی محبوبہ بنا کر رکھنا ہے تو پھر دوسری عورت بطور محبوبہ اسے زیادہ بھاتی ہے۔ نہ کوئی ذمہ داری نہ بوجھ۔ بیوی کا کمال تب ہے کہ بیوی بن کر بھی محبوبہ جیسی محسوس ہو۔ گھر داری کو جہالت اور دقیانوسی سے تعبیر کرنے والیاں نہ گھر کی رہتی ہیں نہ گھاٹ کی۔ گھر داری عورت کو اس کی خوبصورتی یا قابلیت اور صلاحیت سے محروم نہیں کرتی بلکہ عورت کو مکمل کرتی ہے۔ حیرانی ہے ان عورتوں پر جو مردوں کی موجودگی میں باہر کی ذمہ داریاں خود پر لاد لیتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ وہ آزاد ہو گئی ہیں، مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی ہیں۔ ایک مکمل بیوی اور ماں کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد عورت کے پاس اتنا وقت کہاں ہے کہ وہ ”شانہ بشانہ“ کا شوق پورا کر سکے؟ عورت محبوب بیوی کے روپ میں حسین لگتی ہے۔ عورت جب ماں بنتی ہے تو مرد سے آگے کھڑی نظر آتی ہے۔ عورت کو ہر کام کرنے کے لئے نہیں کہا جا سکتاجو مرد کر سکتے ہیں،جیسا کہ کمیونسٹ نظام والی حکومتوں میں دیکھنے میں آتا تھا۔ خواتین کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ باہر جا کر زمین کھودنا شروع کر دیں، یہ ان کی نازک فطرت کے منافی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ عورت جب ماں بنتی ہے تو اس کا مقام عام عورتوں سے محترم ہو جاتا ہے بلکہ عورت مکمل ہی ماں بننے کے بعد ہوتی ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ماں بن کر بیوی کی ذمہ داریاں پس پشت ڈال دے۔ مغربی دنیا میں مرد نے اپنی ذمہ داریاں عورت پر ڈال کر عورت کو برابری کے اعزاز سے تو نواز دیا لیکن اسے ہمدردی اور رحم سے محروم کر دیا۔ مغرب میں عورتیں گھاس بھی کاٹتی ہیں، برفباری میں برف بھی ہٹاتی ہیں، ہر مشکل اور تھکا دینے والا کام کرتی نظر آتی ہیں، یہ آزادی اسے اس قدر مہنگی پڑی ہے کہ حس نسوانیت بھی جاتی رہی۔ طلاق لیتے وقت مغربی عورت کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ ”ہائے میرا کیا بنے گا“ کیوں کہ جب سے پیدا ہوئی ہے اس نے اپنی ماں کو بھی مردوں کی طرح کام کرتے دیکھا ہے۔ ترکی اور ایران کی عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر تی ہیں لیکن اپنا کچن اور گھر بھی سنبھال رہی ہیں۔ پاکستانی عورت خوش نصیب ہے کہ اس کا شوہر اپنی عورت کو گھر بٹھا کر زندگی کی تمام سہولیات مہیا کرتاہے۔ مشرق کی عورت اپنی قابلیت اور صلاحیت منوانا چاہے تو شوہراس کی اجازت بھی دیتا ہے۔ اس کے باوجود مشرق کی عورت محبوبہ نما بیوی کیوں نہیں بن سکتی۔ ناشکر گزاری بھی کرتی ہے۔نا شکری کا رواج پندرہ بیس سال پہلے شروع ہواورنہ ہماری مائیں قناعت، صبر، شکر میں با عزت گزارہ کر تی تھیں، بچے بھی ایک آدھ درجن سے کم نہیں ہوتے تھے لیکن گھر وں میں سکون اور برکت ہوتی تھی۔ اور آج گھر داری سے جان جاتی ہے۔ باہر سے حرام اور مردار کھایا جائے تو گھروں اور زندگیوں میں سکون اور برکت کیسے آ سکتی ہے؟ گھرداری کی توہین سے عورت نہ صرف اپنا مقام گنواتی ہے بلکہ اپنا مرد بھی گنوا دیتی ہے۔ مرد خواہ کس قدر آزاد خیال کیوں نہ ہو، اس کے دل میں گھرداری والی ماں راج کرتی ہے۔ بیوی کو محبوبہ بننے کے لئے کچن یعنی شوہر کے معدے سے ہو کر دل میں جانا پڑتا ہے۔ بحیثیت بہو اور ماں ذمہ داریاں نبھانا اپنی جگہ لیکن شوہر کی منظور نظر بننے کےلئے بیوی کم اور محبوبہ زیادہ بننا پڑتاہے۔ محبوبہ بیوی کا شوہر پھر دوسری عورت میں محبوبہ تلاش نہیں کرتا۔
٭٭٭٭٭