پاکستان 70 سال میں لاکھوں کشمیریوں کے انسانی حقوق کی پامالیوں کو عالمی مسئلہ نہ بنا سکا۔ بھارت نے ایک جاسوس کا معاملہ70 گھنٹوں میں عالمی مسئلہ بنا دیا۔۔۔۔ بھارتی جاسوس کا فیصلہ حسب توقع آیا ہے۔اندرون ملک صورتحال ایسی نہیں کہ اس کو قابل رشک قرار دیا جائے، ا ناج پیدا کرنے والے محنت کش کسان بار دانہ کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں، توانائی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے، بجلی کی طویل بندش نے لوگوں کی زندگی عذاب کر دی ہے، بنیادی مسائل حل نہیں کیئے جا سکے اور صاحب بہادر چلے ہیں عالمی عدالت میں مقدمہ لڑنے وہ بھی ازلی دشمن بھارت کے خلاف ؟عالمی عدالت انصاف نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی پھانسی پر حکم امتناعی جاری کردیا ہے جس کے تحت پاکستان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ عدالت کا فیصلہ آنے تک یادیو کو پھانسی نہیں دے سکتا۔جبکہ عدالت نے بھارتی قونصلر کی کلبھوشن یادیو تک رسائی کی درخواست بھی منظور کرلی ہے۔عالمی عدالت کے اس تیز رفتار فیصلہ پر پاکستان کو کئی حوالوں سے خفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ فی الحال دفتر خارجہ نے اس فیصلہ پر اپناواضح م¶قف پیش نہیں کیا البتہ عالمی عدالت میں کلبھوشن یادیو کے مقدمے کے حوالے سے دفتر خارجہ یہ کہہ چکا ہے کہ بھارت کشمیر سے نظریں ہٹوانے کی خاطر کلبھوشن یادیو کا مقدمہ لڑرہا ہے جبکہ عالمی عدالت کو مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر نہیں آرہیں۔
جس وقت عالمی عدالت کے جج رونی ابراہیم کلبھوشن یادیو کے مقدمہ میں حکم امتناعی جاری کررہے تھے عین ان لمحات میں جی ایچ کیو میں آرمی چیف نے صحافیوں کے ایک سیمینار سے خطاب کے دوران یہ انکشاف کیا کہ کلبھوشن یادیو کے مقدمہ کے لئے وکیل فوج نے کیا ہے۔(یہ واضح نہیں آیا یہ وکیل ملٹری کورٹ میں مقدمہ کے دوران کلبھوشن یادیو کو فراہم کیا گیا یا عالمی عدالت میں جانے والا سرکاری وکیل ہے۔۔۔)تمام اداروں کو خود اپنا اپنا کام کرنا چاہئے،ہر کام فوج پر نہیں ڈالنا چاہئے۔آرمی چیف کا یہ بیان وسیع تر تناظر میں دیکھاجانا چاہئے۔فوج نے ہی کلبھوشن یادیو کو جاسوس کنفرم ہونے اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے بعد پھانسی کی سزا کا حکم سنایا تھا لیکن پاکستان کا وکیل عالمی عدالت کو یہ باور کرانے میں ناکام رہا ہے کہ عالمی عدالت کلبھوشن یادیو کا مقدمہ سننے کااختیار نہیں رکھتی۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں جب ملک میں عالمی قوانین کے ماہرین کی ایک ”فوج“ موجود ہے تو انہیں آن بورڈ کیوں نہ لیا گیا۔اب جبکہ یہ بات سامنے آرہی ہے کہ ہمارے وکیل کو عالمی عدالت کے ضابطہ کاراور نئے ڈیکلریشنز کا علم ہی نہیں تھا تو کیا یہ ملک کے ساتھ کھلا مذاق نہیں ہے کہ ایسے وکلا کو عالمی عدالت میں دفاع کیلئے بھیج دیا گیا جو اس کا تجربہ نہیں رکھتے تھے اور ہم یہ بھول گئے کہ یہ پاکستانی عدالتیں نہیں،دشمن کی حلیف عدالت ہے جہاں اسکو فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں کلبھوشن یادیو کے مقدمہ کے تناظر میں کئی باتیں ایسی ظہور پذیر ہوئی ہیں جن پر پاکستان کی سلامتی اور اسکے اداروں کی ساکھ کا سوال اٹھ رہا ہے۔سب سے پہلے تو یہ بات اہم ہے کہ اس عالمی عدالت میں جہاں بھارت نے آج تک مقدمہ کشمیر کو التوا میں ڈلوارکھا ہے وہاں کلبھوشن یادیو کا مقدمہ لڑنے کے لئے پاکستان نے دفاع کیوں کیا؟اس حوالے سے عالمی قوانین کے ماہر کہہ رہے تھے کہ پاکستان کو عالمی عدالت میں کلبھوشن یادیو کا مقدمہ نہیں لڑنا چاہئے اور دفاع میں خود کو پیش نہ کرتے تو اچھا تھا۔اس کیس میں پاکستان کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ ہوا ہے۔پاکستان کوعالمی عدالت کے حالیہ ڈیکلریشن کی رو سے ان قانونی نزاکتوں کا احساس کرنا چاہئے تھا جن کی ایما پر کلبھوشن یادیو مقدمہ میں بھارت کو فیورٹ ازم حاصل ہو رہی ہے۔
ان حالات کے باوجود کہ عالمی عدالت میں پاکستان نے کلبھوشن یادیو کو جاسوس ثابت کیا ہے اور بھارت نے اسکو حاضر سروس افسر تسلیم کیا ہے،تاہم اسکا انحصار بھی عدالت کے فیصلہ پر ہوگا کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کرانے کے جرم میں جاسوس کلبھوشن یادیو کی قسمت کا کیا فیصلہ کرتی ہے۔شبہات ابھی سے ظاہر کئے جارہے ہیں کہ عالمی عدالت حکم امتناعی جاری کرنے کے بعد اس پوزیشن میں آجائے گی کہ کلبھوشن یادیو کی رہائی کا فیصلہ دیا جاسکے۔عالمی عدالت انصاف دہشت گردی میں ملوث مجرموں کا کیس نہیں سنتی جبکہ پاکستان نے اپنے دفاع میں یہ نکتہ اٹھایا ہے اور اسکے ثبوت بھی پیش کئے ہیں لیکن پھر وہی بات آجاتی ہے کہ کیا عالمی عدالت انصاف پاکستان کے اس موقف اور ثبوتوں سے بھرے صندوقوں کو تسلیم کرلے گی۔اس کا انحصار پاکستان کی بہترین خارجہ پالیسی اور ماہرین قانون کی ٹیم پر ہوگا۔
ایک رائے یہ سامنے آرہی ہے کہ پاکستان کو عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو خاطر میں نہیں لانا چاہئے۔واضح رہے کہ عالمی قوانین اور ضوابط کی روسے عالمی عدالت کے مقدمات میں فیصلوں کو نظر انداز کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔اگر پاکستان نے عالمی عدالت کے فیصلہ کو نظر انداز کیا تو اقوام متحدہ میں کئی پہلو¶ں سے پاکستان پر دباو¿ڈالا جاسکے گا اور پاکستان جو چین کے ساتھ ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے میں بہت آگے بڑھ چکا ہے ،اسکی ترقی کا پہیہ جامد کیا جاسکتا ہے تاہم اسکا انحصار پاکستان کی خارجہ پالیسی اور قانونی بصیرت اور مہارت پر ہوگا کہ پاکستان اس معاملے میں کتنی بالادستی اور تیزی دکھاتا ہے۔لیکن افسوس کہ اس پہلو پر ہماری تاریخ ہمیں بہت شرمندہ کرتی ہے۔عالمی عدالت انصاف سے لیکر قومی سلامتی اور دیگر عالمی امور میں پاکستان بھارت کے مقابلے بہت پیچھے ہے،اسکی لابی نحیف ہے۔یہ مسئلہ پانیوں کا ہو،کشمیر یا پاکستان میں بھارتی مخالفت کا معاملہ ہو۔بھارت اقوام متحدہ کے اراکین کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف دیوار کھڑی کردیتا ہے اور حالیہ مقدمہ میں یہ بات صاف طور پر محسوس کرائی گئی ہے۔عالمی عدالت نے فیصلہ آنے سے پہلے ہی بھارت کو حکم امتناعی سے آگاہ کردیا تھا۔عالمی عدالت انصاف کی جانبداری واضح ہوچکی ہے۔ مگر کیا ہم اس قابل ہیں کہ عالمی عدالت انصاف کے اس معتصبانہ فیصلہ اور اسکے دائرہ کار کو چیلنج کرسکیں۔؟پاکستان کو آئینہ دکھانا مقصود تھا۔ پاکستانی کشمیری سرکار کے لئیے لمحہ فکریہ ہے کہ عالمی عدالت کے منہ توڑ فیصلے کے بعد مسئلہ کشمیر کو دل سے قبول کیا جائے اور دہشت گرد بھارت کو ہاکستان کا ازلی دشمن تسلیم کر لیا جائے۔
٭٭٭٭٭
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024