یہ ایک جائز سوال ہے۔ الیکشن میں اب کوئی زیادہ عرصہ نہیں رہ گیا، زیادہ سے زیادہ پانچ ماہ باقی ہیں جس کے دوران ایک نگران حکومت بھی آئے گی اور وہی الیکشن کا اہتمام کرے گی۔ قبل از وقت انتخابات کی آئین اور قانون میں گنجائش موجود ہے ، وسط مدتی انتخابات کی روایت تو عام ہے مگر جب الیکشن سر پہ ہو تو کسی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کرنا یا اس کے لئے دھرنے دینے کا کوئی جواز نہیں۔
مگر یہ سوال توا س ملک میں پوچھا جا سکتا ہے کہ جہاں آئین اور قانون کا لحاظ کیا جا رہا ہو، ہمارے ہاں تو گزشتہ الیکشن کے فوری بعد اس پر دھاندلی کا شور مچ گیا، اور تحریک انصاف نے اس کے لئے طویل دھرنا بھی دیا ، ان کے ساتھ کینیڈا سے درآمد کئے جانے والے ڈاکٹر طاہر القادری بھی شامل ہو گئے۔ انہوں نے وفاقی دارالحکومت اور انتظامیہ اور عدلیہ تک کو مفلوج کر دیا حتیٰ کہ بیرونی سفارت خانے بھی محصور ہو کر رہ گئے، پی ٹی وی پر تو قبضہ بھی جما لیا گیا۔ اس دھرنے کی وجہ سے الیکشن تو فوری نہ کروائے جا سکے البتہ پاکستان کے سب سے قریبی ا ور بااعتماد دوست چین کے وزیراعظم کا دورہ ضرور ملتوی کروا دیا گیا جس کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ عالمی تاریخ میں سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ جیسا عظیم الشان تجارتی منصوبہ بھی ایک سال کی تاخیر کا شکار ہو گیا، یہ دھرنا نہ ہوتا تو اب تک حکومت ملک بھر میں بجلی کے نئے کارخانوں کا جال بچھا چکی ہوتی، وہ تو نواز شریف اور شہباز شریف کی ہمت ہے کہ دن رات ایک کر کے پھر بھی یہ منصوبے تکمیل تک پہنچا دیئے اور موٹر ویز بھی بنا دی گئیں لیکن دھرنے والوں کی کوشش یہ تھی کہ ملک کی معیشت تباہ ہو جائے اور عوام بھوک، بیماری اور جہالت کے شکنجے میں جکڑے رہیں۔ اب دو روز قبل متحدہ اپوزیشن نے لاہور میں دھرنا دیا، اس دھرنے کو باشعور عوام نے ناکام بنایا اور سیاسی پارٹیوں کے مختلف الخیال اور متضاد نظریات کے حامل لیڈران کرام ٹی وی کیمروں اور خالی کرسیوں کے سامنے ہی خطاب کر پائے مگر ان کے منہ سے جھاگ اڑ رہی تھی اور وہ جمہوریت کی جس شاخ پر بیٹھے تھے، اسی پر ہی لعنت بھیج دی، شیخ رشید کی تو زبان قابو میں نہیں رہتی اور عمران خان کا شاید دماغ قابو میں نہیں ہے، دونوںنے کئی بار نعرہ لگایا کہ پارلیمنٹ پر لعنت، دونوں اصحاب جس قانون کی منظوری کی وجہ سے لعنت بھیج رہے تھے یہ قانون پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ لاہور کا دھرنا یوں تو ماڈل ٹاﺅن اور قصور کے قتل عام کے نام پر دیا گیا مگر کیا مجال کہ کسی نے ماڈل ٹاﺅن اور قصور کے مقتولین کا نام بھی لیا ہو۔ ماڈل ٹاﺅن اور قصور کے سانحوںمیں کوئی مطابقت نہیں، ایک جگہ پولیس کی فائرنگ سے لوگوں کی جانیں گئیں اور دوسری جگہ درندہ صفت انسانوںنے معصوم بچیوں کو اغوا کیا، ان کی حرمت لوٹی اور انہیں بے دردی سے قتل کر کے ان کی لاشیں کچرے کے ڈھیر پر پھینکیں۔ اگر یہی دھرنا قصور کی بے گناہ بچیوں کے بارے میں احتجاج کے لئے ہوتا تو کم از کم ان بچیوں کے والدین تو مطمئن ہوتے کہ کوئی ان کی ابتلا میں ان کے ساتھ کھڑا ہے مگر دھرنے سے پہلے قصور کی زینب کا نام تو لیا گیا۔ دھرنے کی تقریروںمیں اس پر کف افسوس ملنے والے بہت کم تھے۔ اس سے واضح ہے کہ ماڈل ٹاﺅن اور قصور کا نام محض سیاست چمکانے کی خاطرکیا گیا۔کس قدر ستم ظریفی ہے کہ دھرنا لیڈروں نے اپنا غصہ پارلیمنٹ پر نکالا۔ اس کام میں شیخ رشید نے پہل کی اور عمران خان نے ان کی پیروی کی۔ شیخ رشید تو پھر بھی ایک پرانے پارلیمنٹیرین ہیں اور پارلیمنٹ کی افادیت کا انہیں لحاظ ہونا چاہئے تھامگر عمران خان کے لئے پارلیمنٹ ایک اجنبی ادارہ ہے، وہ پچھلے چار برسوںمیں شاید دو چار مرتبہ ہی پارلیمنٹ کے اجلاس میں شریک ہوئے ہوں گے۔ انہوں نے پوری پارٹی کے ارکان کے ساتھ پارلیمنٹ سے استعفے دیئے اگر اسپیکر آڑے نہ آتے تو یہ لوگ کبھی کے گھر بیٹھے ہوتے اور ان کی جگہ کوئی دوسرا ضمنی الیکشن میں کامیاب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچ جاتا، اب بھی یہ لوگ استعفوں کا شوق پورا کرنا چاہتے ہیں تو پرویز رشید کے بقول یہ کل پارلیمنٹ کاد سواں حصہ بھی نہیں بنتے اور ان کی سیٹوں پر بڑے آرام سے ضمنی الیکشن کروا لئے جائیں گے۔ اصل قصہ یہ ہے کہ اپوزیشن نہ کھیلیں گے، نہ کھیلنے دیں گے کے اصول پر عمل پیرا ہے۔پیپلز پارٹی اس حد تک تو تحریک انصاف کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہے مگر جہاں تک پارلیمنٹ پر لعنت ملامت کا تعلق ہے توا س پر پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ نے انتہائی رد عمل کاا ظہار کیا ہے، قومی اسمبلی کے اجلاس میں سید خورشید شاہ نے احتجاج کا آغاز کیا اس کے بعد وسرے ارکان نے بھی اپنی آواز بلند کی اور آخر تحریک انصاف کے رویے کے خلاف ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی اس سے تحریک انصاف کو اندازہ ہو جانا چاہئے کہ وہ کس قدر تنہائی کا شکار ہے اور اس کے جمہوریت دشمن نظریات سے دوسری سیاسی پارٹیاں کس قدر اظہار نفرت کرتی ہیں۔
بہتر ہو گا کہ عمران خان ہوش کے ناخن لیں اور نواز شریف کی اس بات پر غور کریں کہ الیکشن سے چند ماہ پہلے دھرنا بازی اور حکومت توڑنے کی سازش بے معنی ، بلا جواز اور غیر آئینی ہے، عمران خان جمہوریت سے ذرا بھی لگاﺅ رکھتے ہیں تو اگلے الیکشن کی تیاری کریں اور حکومت کے جو چند ماہ باقی ہیں ، ان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے صوبے میں کوئی ایسے کارنامے انجام دیں جن کی وجہ سے کم از کم صوبے کے لو گ تو انہیں دوباری ووٹ دینے کے بارے میں سوچ سکیں۔، ورنہ وہ گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے۔
٭٭٭٭٭