عمران خان نے دھرنا ختم کر دیا ۔۔۔ تو کیا کریں ۔۔۔ لڈیاں ڈالیں یا ڈھول بجائیں ۔۔۔؟ یہ فیصلہ خان کی سیاسی ضرورت تھا ۔۔۔ خان نے کسی پر احسان نہیں کیا، خدا کا شکر کرے کہ اس کے بیٹے اس سکول میں زیر تعلیم نہ تھے ورنہ دھرنا تو کیا اس کا جینا ختم ہو جاتا۔ نواز شریف کا غصہ عوام پر نکالا گیا۔ شہر بند کر دو، ٹریفک بند کر دو، بندے مرنے دو۔ خود یہ سب سکیورٹی حصار میں رہتے ہیں اور عوام سیاست کے بھینٹ چڑھائے جا رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ خیبر پی کے خوب چُھٹیاں منا چکے، اب شہیدوں کے چالیسویں کا بندوبست کریں۔ سانحہ پشاور کے بعد سب چہرے بے نقاب ہو چکے ہیں۔ سب اقتدار پرست ہیں۔ ان لوگوں نے اگر عقل اور ہوشمندی سے کام لیا ہوتا تو آج پاکستان کی یوں نسل کشی نہ ہو رہی ہوتی۔ معذرت خواہ ہوں مگر یہ قلم ہے کہ زہر اُگلنے سے باز نہیں آ رہا۔ دھرنا ختم ہوا ہے، شیخ رشید کا سگار جل رہا ہے۔ ساڑھے تین سال کا طویل انتظار اسے چین سے بیٹھنے دے گا۔ عمران خان نیک دل انسان ہے، ایک باپ کا دل بھی اس کے سینے میں دھڑکتا ہے مگر اس نے کئی میر جعفر بھی پال رکھے ہیں۔ سانحہ پشاور کے بعد حکومت خیبر پی کے اپنا صوبہ دیکھے اور لاشوں کی گنتی سیکھے۔ وفاقی حکومت مدت پوری کرنے کے پاپڑ بیل رہی ہے اور اپوزیشن میڈیا کی عادی ہو چکی ہے۔ دیکھیں یہ اتحاد کب تک قائم رہ سکے گا۔ دھرنا ختم ہونے میں بھرم رہ گیا ورنہ نہ استعفیٰ ملا اور نہ وزارت عظمیٰ مل سکی۔ اس وقت سیاست دانوں کے فیصلے اور بیانات کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ بڑے نخرے اٹھا لئے میڈیا نے ان سب کے۔ اب میڈیا بھی متوازن راستہ اپنائے۔ ان لوگوں کی چھوٹی چھوٹی خبروں کو بڑی بڑی بنا کر پیش کرنا چھوڑ دے تاکہ انہیں احساس ہو سکے کہ ان کی مقبولیت سکرین کی محتاج ہے۔ یہ لوگ مسکرائیں تو بریکنگ نیوز، دو آنسو بہائیں تو بریکنگ نیوز۔ سارا زمانہ رو رہا ہے، اگر نواز شریف اور عمران خان آبدیدہ ہو گئے تو ’’بریکنگ نیوز‘‘ بن جاتی ہے؟ ان کو تو دھاڑیں مار مار کر رونا چاہیے تھا۔ سب کچھ انہی کا تو کیا دھرا ہے۔ اس قیامت کے یہی لوگ ذمہ دار ہیں۔ 16 دسمبر 2014ء کی جب بھی قیامت لکھی جائے گی، میاں نواز شریف اور عمران خان کے نام لہو سے لکھے جائیں گے۔ بہت تماشے دیکھ لئے، میڈیا اب ان سیاست دانوں کو بلا ضرورت کوریج دینا بند کرے۔ انسان کو جب صدمہ پہنچتا ہے تو حاکم وقت کا نام لیا جاتا ہے۔ زخم بھرنے میں وقت لگے گا۔ وزیراعظم صاحب تعزیتی سیاسی اتحاد میں بیٹھے ہیں اور مسکراتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر انہیں بچوں کی عیادت کے لئے ہسپتال نہ جانا ہوتا تو وہ بھی خان صاحب کے ساتھ کنٹینر میں جاتے اور خان صاحب کھلکھلا کر مسکرا تے ہیں۔ یہ مسکرانے کا وقت تھا؟ خدا ان کے (اثاثے) سلامت رکھے۔ ان لوگوں کا رونا ’’کرسی‘‘ کے لئے ہوتا ہے، جو آج ہے کل نہیں۔ سانحہ پشاور کے غم میں امریکہ بھر میں تعزیتی شمعیں جلائی گئیں۔ دعائے مغفرت کی ضرورت معصوم شہیدوں کو نہیں بلکہ ان سیاست دانوں کو ہے جو ملک و قوم کی حفاظت میں بُری طرح ناکام ثابت ہوئے۔ سانحہ واہگہ بارڈر پیش آیا اور دشمن نے اپنی موجودگی کا برملا اعلان کر دیا مگر سکیورٹی اداروں اور حکمرانوں نے اس واقعہ کو بھی معمول کا واقعہ سمجھا۔ واہگہ بارڈر کے سانحہ کے بعد کسی بھی قیامت کا اندیشہ تھا مگر پاکستان کے تمام ادارے مفلوج ثابت ہوئے۔ سانحہ پشاور میں پاکستانیوں کی نسل کشی کا پیغام پنہاں ہے۔ کچھ میڈیا چینل پرویز مشرف کو ہیرو بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ اس شخص کے حکم پر جامعہ حفصہ کی بچیوں کو خون میں نہلا دیا گیا مگر (مولوی شر) کو زندہ چھوڑ دیا گیا۔ ظالمان کے ساتھیوں کو میڈیا پر دکھانا لواحقین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ پرویز مشرف نے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بھیانک کردار ادا کیا ہے۔ اس شخص کا بویا ملک کا ہر گھر بھگت رہا ہے۔ غیر ملکی بلیک واٹر کا بغیر ویزہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخلہ، غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کے کارندوں کی پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت پرویز مشرف کی وہ گھنائونی پالیسی تھی جس نے اس ملک کی مٹی کو لہو میں نہلا دیا۔ اس شخص نے اسرائیل کو دوست بنانا تھا کہ امریکہ کی دوستی رنگ لے آئی۔ پاک افغان تعلقات اچھے ہو رہے ہیں، انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ دونوں ملکوں کو اندرونی دشمن سے نجات پانے کے لئے بھائی بھائی بننا ہو گا۔ بھارت کے پیٹ میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں مگر پاک افغان بھائی مل کر حقیقی دشمن پر قابو پا سکتے ہیں۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب پاکستان کی تمام سیاسی و عسکری قیادت ہریالی پرچم تلے اکٹھے ہو جائے۔ سانحہ پشاور پاکستان کو آخری موقع مہیا کر رہا ہے ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024