سانحہ پشاور کے احتجاج میں… پاکستان کی ساری مائیں سڑکوں پر نکل آئیں۔ ہجوم در ہجوم … ننگے سر، ننگے پیر … ان برف برساتے دنوں میں گھر سے باہر نکل کر احتجاج کریں، سینہ کوبی کریں۔ بھول جائیں سب دھرنے مرنے۔ بس سب سے بڑا دُکھ بچوں کا دکھ ہے۔ اس کے آگے سارے مسئلے ماند ہیں۔
میں آپ کا ساتھ دوں گی۔
وہ حیوان صفت لوگ، وہ دو ٹانگوں والے درندے، وہ انسانی چہروں والے وحشی، وہ ننگ انسانیت باشندے‘ وہ ننگ انسانیت کارندے … نہ ان کا کوئی مذہب نہ ان کی کوئی ملت نہ ان کا کوئی مقصد نہ ان کا کوئی خدا۔ وہ پیسے کے بیج سے اُگے ہیں، وہ پیسے کی دلدل میں پَل رہے ہیں۔ وہ دنیوی خواہشوں کے غلام ہیں۔ وہ ذلتوں کی آخری سطح کے مکین ہیں۔ ان کی ڈوریاں شیطان صفت گورو ہلاتے ہیں۔ کون انہیں راستہ دیتا ہے کس کے اشاروں پر وہ مذموم حرکتیں کرتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں۔ کیا ان کو کسی ماں نے نہیں جنا؟
کیا وہ سنپولئے ہیں۔ کیا وہ سانپوں کی نسل میں سے ہیں۔ کیا ان کو دودھ کی جگہ انسانی لہو پلا کر پالا گیا ہے۔
حیرت ہے وہ ہنستے بستے شہروں میں کیسے گھس آتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں سور کے بال ہیں کہ ان کو معصوم فرشتوں پر ظلم ڈھاتے ہوئے دریغ نہیں آتا۔
یہ کیسا ملک ہے یہ کیسی حکومت ہے؟
جو آپس کی لڑائی میں مگن ہے جو اپنی حفاظت کے لئے پولیس کے ہزاروں دستے رکھتی ہے مگر سکول کے مہنگے بچوں کی سکیورٹی کا احساس ہی نہیں!
سینکڑوں مائوں کی کوکھ اجڑ گئی۔ متعدد مائوں کے گھر اجڑ گئے۔ دل بکھر گئے۔ باپ صدمے سے ضعیف ہو گئے۔
فلک ناہنجار دیکھتا رہا۔ زمین چیخیں سنتی رہی۔
اگر حکومت مفلوج ہے۔ اگر شہر محکوم ہے۔ اگر انتظامیہ مجبور ہے۔ اگر فوج بہت دور ہے۔ اگر ہر کسی نے اپنے حال میں مست رہنا ہے۔ چلم پینی ہے اور نعرے لگانے ہیں۔ اگر اسی طرح سیاسی افراتفری مچائے رکھنی ہے۔
تو مائیں باہر نکلیں
ماں بہت بڑی طاقت ہے
ماں عرش کے پائے ہلا سکتی ہے؟
ماں سارے عالم کو جگا سکتی ہے۔ ماں کی فریاد کو رب موڑتا نہیں۔ ماں کا دل رب توڑتا نہیں۔
اے چیختی چلاتی مائو: آئو میرے سینے سے لگ جائو
آئو ہم حشر برپا کر دیں۔ زمین کے بخیئے ادھیڑ دیں۔ آسمان کو سر پر اٹھا لیں۔ حکومتوں نے کیا کرنا ہے۔
حکومتوں نے کرسی کی خاطر صرف لڑنا ہے۔ کانفرنس کرنی ہے۔ زیادہ ہوا تو شہید ہونے والوں کے لئے خزانہ تقسیم کرنا ہے۔
ارے بیدردو پیسے سے جگرگوشے نہیں خریدے جا سکتے۔ ارے نادانو! روپیہ پیسہ گھر کے بجھے ہوئے چراغ نہیں جلا سکتا۔
ماں باپ سودا نہیں کرتے۔ استاد بکائو نہیں ہوتے۔ درد بیچا نہیں جاتا۔ ساری مائیں لپکیں… میں ان کا ساتھ دوں گی۔ ہم آواز ملا کر کہیں گے۔ ارے خبیثو! … تم کو کتے سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی کیونکہ کتا جس در پہ کھاتا ہے اس کی وفاداری میں اپنی جان گنوا دیتا ہے۔ تم پاکستان کا رزق کھاتے ہو۔ پاکستان میں پناہ لے رکھی ہے۔ پاکستان کے کلیجے میں چھرا گھونپتے ہو۔ آگ اور خون کا کھیل ہم اس ملک میں عرصہ سے دیکھ رہے ہیں مگر اب نہیں۔
جو کام اقتدار نہیں کر سکتا وہ مائیں کریں گی۔
تم نے مائوں کی طاقت نہیں دیکھی۔ تم نے ماں کی آہ کو عرش پر جاتے نہیں دیکھا۔ تم نے ماں کی آہ سے سورج کو پگھلتے نہیں دیکھا۔ تم آدم خیل تنظیم نہیں ہو۔ تم آدم خور نسل ہو۔
اب مائیں تمہارا راستہ روکیں گی۔ اب مائیں اپنے بچوں کی حفاظت کریں گی۔ اگر حکومت اب بھی کچھ نہیں کرے گی اگر اب بھی ملک کے اندر انارکی کی جنگ جاری رہے گی۔ اگر اب بھی ہمارے بچوں کی سکیورٹی کے لئے کچھ نہیں کیا جائے گا۔ اگر اب بھی سکولوں کی چار دیواری کو مضبوط اور محفوظ نہیں بنایا جائے گا اگر اب بھی نشستند‘ گفتند و برخاستند کی پالیسی پر عمل کیا جائے گا۔ اگر اب بھی ڈنگ ٹپائو گفتگو کی جائے گی۔
تو یہ فیصلہ پاکستان کی غیرت مند مائیں اپنے ہاتھ میں لیں گی۔ مائیں تو ویسے بھی اپنے بچوں پر جان نچھاور کرنے کے بہانے ڈھونڈتی ہیں
مائوں کے خواب مشترک ہوتے ہیں
مائوں کا درد مشترک ہوتا ہے
مائوں کا خوف مشترک ہوتا ہے
مائوں کے مسائل مشترک ہوتے ہیں
یہ دما دم مست قلندر نہیں ہو گا۔ یہ مائوں کی فریاد ہو گی۔
مائیں ہاتھ پھیلا پھیلا کر یہ فریاد قائداعظم کو سنائیں گی؟
پاکستان کے ہر صوبے اور ہر شہر کی ماں اس فریاد میں شامل ہو گی!
تجھ سے فریاد ہے اے گنبد خضریٰ والے
کعبے والوں کو ستاتے ہیں یہ کعبے والے؟
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38