بہت دکھ بھری پریشانی ہوتی ہے کہ پاکستان میں سزائے موت پر عمل درآمد ختم کر دیا گیا تھا۔ صدر جنرل مشرف کے زمانے کے آخری دنوں میں یہ شرمناک کام شروع ہوا۔ بھارت کے بدنام زمانہ دہشت گرد کشمیر سنگھ کو سزائے موت دی گئی تھی اور اس کی آخری اپیل بھی صدر پاکستان نے خارج کر دی تھی۔ میرا خیال ہے کہ یہ نیک اور جرات مندانہ اقدام ’’صدر‘‘ جنرل مشرف نے کیا ہو گا مگر ایک نگران وزیر انصار برنی نے صدر مشرف کو شیشے میں اتار لیا اور کشمیر سنگھ کی رہائی اور آزادی کے معاملے میں فیصلہ کن کردار بلکہ بدکرداری ادا کی۔ میجر (ر) نذیر نے کشمیر سنگھ کو سزائے موت دی تھی۔ ملٹری کورٹ کے اس فیصلے کے لئے آرمی چیف نے رحم کی اپیل پر فیصلہ کرنا تھا۔ چنانچہ ’’صدر‘‘ جنرل مشرف نے کیا۔ سزائے موت پر آخری اپیل بھی خارج ہو گئی۔ اپیل خارج کرنے والے اس ’’آرمی چیف صدر‘‘ خود ہی نگران وزیر شذیر انصار برنی کے جھانسے میں آ گئے۔
صدر زرداری کے زمانے میں سزائے موت پر باقاعدہ پابندی لگا دی گئی تھی۔ صدر زرداری کے خاص وزیر قانون فاروق ایچ نائیک کوٹ لکھپت جیل میں ایک دوسرے بھارتی دہشت گرد سے ملنے کے لئے آتے رہے۔ مگر شاید ڈیل پایہ تکمیل تک نہ پہنچی۔
صدر زرداری نے صرف بیرونی آقائوں کو خوش کرنے کے لئے سزائے موت پر پابندی سخت کر دی۔ سینکڑوں دہشت گرد اور ہزاروں قاتل سکھ کی نیند سوئے رہے۔ قتل و غارت بڑھی اور دہشت گردی میں اضافہ ہوا۔ آج رحمان ملک ایکشن پلان کے لئے بنائی گئی کمیٹی میںصدر زرداری کی طرف سے نامزد کئے گئے ہیں تو وہ شاید سزائے موت پر پابندی پر زور دیں گے۔ اس کے علاوہ کیا کریں گے جو انہوں نے پانچ برس کے اقتدار میں نہیں کیا تھا؟
سزائے موت پر نواز شریف نے جنرل راحیل شریف کی ہدایت پر پابندی ختم کی ہے۔ یہ ایک اچھا اقدام ہے۔ ملک میں چاروں طرف سے اس اقدام کا خیرمقدم کیا گیا ہے مگر کچھ این جی اوز شور مچا رہے ہیں مگر وہ شرمندہ ہیں کیا وہ اپنے بچے کے قاتل کو معاف کر دینے کے لئے آمادہ ہوں گی۔ قاتل کے حقوق ہوتے ہیں اور مقتول کے کوئی حقوق نہیں ہوتے۔ جیسے بے دردی سے مارا گیا تھا اس کے بچے در در دھکے کھاتے پھریںمگر قاتل کو پھانسی نہ دی جائے۔ ان میں ایک ایسا شخص بھی ہے جس نے اپنی بیوی کو ذرا سی غلطی پر اس کے دوپٹے سے پھانسی دے دی تھی مگر اسے پھانسی نہ دی جائے۔ بے چارے کے انسانی حقوق پامال ہوں گے۔
یہ جو پشاور آرمی پبلک سکول میں دہشت گردوں نے ڈیڑھ سو بچوں کو قتل کیا ہے مگر انہیں قتل نہیں کرنا چاہئے تھا کہ یہ ’’سزائے موت‘‘ ہے۔ اب انہیں قتل کرنے والے فوجیوں پر مقدمہ چلانا چاہئے۔ انہیں سزائے موت دی جائے مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہونا چاہئے۔ دہشت گرد مسجدوں پر حملہ کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہوئے لوگوں کو نماز جنازہ کے لئے تیار کر دیتے ہیںچرچ (گرجا گھر) پر حملہ کرکے کئی مسیحی خواتین و حضرات کو موت کی سزا دینے والوں کو سزائے موت نہ دی جائے۔
میرے دل میں محترمہ طاہرہ عبداللہ کے لئے نرم گوشہ ہے۔ وہ بزرگ خاتون سماجی کارکن ہیں۔ ان کے ساتھ میں نے کئی ٹی وی پروگرام کئے ہیں۔ وہ بہت سلیقے سے بات کرتی ہیں۔ مگر انہوں نے ایک مضحکہ خیز اور معنی خیز بات کی ہے۔ دہشت گردوں کو تو سزائے موت دے دی جائے۔ وہ کسی حد تک قابل قبول ہے۔ یہ بھی پشاور میں قیامت خیز سانحہ نہ ہوا ہوتا تو طاہرہ عبداللہ کے یہ خیالات نہ ہوتے۔ وہ آج بھی سزائے موت کے قیدی دہشت گردوں کے حق میں ہیں۔ مگر انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ جو سزائے موت کے قیدی ہیں انہیں پھانسی نہ دی جائے۔ انہوں نے جو قتل کیا ہے وہ غلطی تھی مگر جرم نہ تھا۔ مرنے والے تو مر گئے مگر مارنے والے سے زندگی نہ چھینی جائے۔ اس نے بھی کسی سے زندگی چھینی تھی مگر یہ اتنا بڑا قصور نہیں ہے۔ ان سے کوئی نہیں پوچھتا کہ امریکہ کی کئی ریاستوں میں سزائے موت برقرار ہے اور وہاں امریکی بھی کوئی اعتراض نہیں کر سکتے۔ پاکستانی این جی اوز امریکہ کے ان ریاستوں میں سزائے موت کے لئے مطمئن ہیں؟
یورپی یونین بھی دہشت گردوں کو تختہ دار پر چڑھانے کے خلاف ہیں۔ پشاور سکول میں معصوم بچوں کے قاتلوں میں سے کوئی بچ جاتا تو اس کے لئے بھی سزائے کی حمایت نہ کی جاتی۔ ان کے خیال میں دہشت گردی ان کا ’’حق‘‘ ہے؟ اس ظالمانہ رویے کے خلاف بھی احتجاج کرنا چاہئے۔ یہ دہشت گردی سے بھی بڑا ظلم ہے۔ بے خبر بے گناہ لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024