چیف جسٹس چودھری کی ریٹائر منٹ پر میڈیا کیساتھ بدمزگی کی صورت پیش آئی۔ایک اخباراور چینل نے اپنے دفاع میں کہا کہ اسکوپ تو صحافت کا طرہ امتیاز ہے، یہ دعوی بہت سے لوگوں کی زبانی دہرایا گیا، ان میں سے میں حامد میر، سہیل وڑائچ اور افتخار احمد سے شناسا ہوں، اس لئے ان سے دلیل کی زبان میں بات کر سکتا ہوں۔ وہ میری اس بات کو جھٹلانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ چیف جسٹس کی الوداعی تقریب کوئی خفیہ واقع نہ تھا کہ جس کی کوریج کو اسکوپ کا نام دیا گیا، یہ تو سرکاری اور پبلک تقریب تھی ، اسے سب کے لئے کھلا ہونا چاہئے تھا یا سب کے لئے بند ہونا چاہئے تھا۔اس میںاگر صرف ایک چینل نے کوریج کی تو یہ اسکوپ ہرگز نہیں تھا، یہ سراسر فیورٹ ازم تھا جو جانے والے چیف جسٹس کے شایان شان نہیں تھا۔اگر ایک مخصوص چینل نے کوریج کر لی تو میری نظر میں اس نے ایسا کوئی تیر نہیںمارا،صرف یہ ہوا کہ باقی کا حق مارا گیا اور جن کا حق مارا گیا ،ظاہر ہے انہیں تکلیف ہوئی ا ور انہوںنے اس کا اظہار بھی کیا، اب یہ کہنا کہ باقی چینل تو جانے والے چیف جسٹس کے خلاف ادھار کھائے بیٹھے تھے اور ان کے خلاف کسی موقع کی تلاش میں تھے، چلئے یہ صورت بھی ہو تو ریٹائرہونے والے چیف جسٹس نے یہ موقع کیوں فراہم کیا۔
اخبار نویس اپنے حق کے لئے ہمیشہ لڑتے آئے ہیں۔پچھلے دور میں جن صحافیوں کو شاہی قرب نصیب نہیں ہوا،انہوںنے اسکا بدلہ یوں لیا کہ ایک رٹ کر کے وزارت اطلاعات کا وہ فنڈ ضبط کروا دیا جس میں سے صحافیوں کو اسلام آباد کے دورے کروائے جاتے رہے ہیں یا بیرونی دوروں پر بھجوایا جاتا رہا ہے۔ساتھ ہی عدالت کے ذریعے ایک فہرست حاصل کر کے شائع کر دی گئی کہ فلاں فلاں صحافی پر سیکرٹ فنڈ سے رقم خرچ ہوئی، اب صحافیوں کا خدا ہی جانتا تھا کہ انہیں دورے کروائے جاتے ہیں تو کس فنڈ سے خرچ اٹھتا ہے۔ اس فنڈ کو سیکرٹ کہہ لو یا کھلا کہہ لو ، فرق کیا پڑتا ہے، صحافیوں کو بلانا اور صدر یا وزیر اعظم کے ساتھ بھجوانا حکومت کی ضرورت ہے، یہ رشوت کہاں سے بن گئی ، ہاں مخصوص صحافیوں کو نوازنا کرپشن کہلا سکتی ہے۔مگر بیرونی دوروں میں ہر حکومت کے دور میں صحافیوں کی باالعموم ایک ہی لسٹ چلتی رہتی ہے۔ضیا الحق کے زمانے میںپابندی تھی کہ صحافی ٹکٹ کے پیسے جیب سے ادا کریں گے ، چنانچہ اس پابندی پر عمل ہوتا رہا۔ جوایڈیٹر یا رپورٹر یا کالم نویس پیسے خرچ کر سکتا تھا، وہ صدر یا وزیراعظم کے ساتھ چلا جاتا تھا ۔پھر حکومت نے یہ خرچ اپنے ذمے لے لیا۔ دوروں پر جانے والے صحافیوں کی منظوری اخباری مالکان ہی دیتے تھے، اس طرح بھی یہ عمل کرپشن کی ذیل میں نہیں آتا۔
صحافیوں کے دوروں کی ایک قسم وہ ہے جس میںبجٹ ، پوسٹ بجٹ یا کسی خاص مسئلے پر حکومت نے بریفنگ دینی ہو تو سارے ملک سے سو ڈیڑھ سو صحافیوں کو مدعو کر لیا جاتا ہے۔اس خرچ کو بھی کرپشن نہیں کہا جاسکتا مگر رٹ کے ذریعے سیکرٹ فنڈ کو منجمد کروا کر ایسے دوروں کے سامنے بھی بند باندھ دیا گیا۔ میرا خیال ہے کہ یہ صحافیوں کو بدنام کرنے کے بجائے پی پی پی کی حکومت کو صحافیوں سے دور کرنے کی ایک کوشش تھی ۔ورنہ موجودہ حکومت نے تو پھر ایسے دوروں کا راستہ کھول دیا ہے، فرق یہ ہے کہ پہلے ہر صحافی کو اسلام آباد کی بریفنگ میں شرکت کا موقع مل جاتا تھا، اب صرف ایک مخصوص ٹولہ بہرہ مند ہو رہا ہے، ایک فرق اور واقع ہوا ہے، پہلے تو صحافیوں کو دارالحکومت کے دو چھوٹے ہوٹلوںمیں ٹھہرایا جاتا تھا، اب دو اعلی تریںہوٹلوں کے دروازے اپنے چہیتوں پر کھول دیئے گئے ہیں۔
فوج بھی بریفنگ کے لئے کبھی کبھار میڈیا کو یاد کرتی ہے۔ جنرل اسلم بیگ کے زمانے میں ضرب مومن کی مشقوں میں ملکی اور غیر ملکی میڈیا کو مدعو کیا گیا، جنرل کیانی نے یہ سلسہ جاری رکھا۔مگر ان کا چنائو بہت محدود ہوتا۔ایک کالم نویس عرفان صدیقی کے بارے میں انہوںنے سب کے سامنے کہا کہ میں کچھ بھی مس کر سکتا ہوں لیکن آپ کا کالم نہیں۔یہ بات اب عرفان صدیقی نے اپنے حالیہ کالم میں لکھی بھی ہے۔ ان کے کالم میں جنرل کیانی کے لئے کیا جادو پوشیدہ تھا، اس کا عقدہ کبھی جنرل کیانی ملیں تو ان سے ہی کھولنے کے لئے کہوں گا۔وہ چھ برس گزار گئے، ان کے دربار میں میری باریابی صرف ایک مرتبہ ہوئی اور وہ بھی ان کی آخری لاہور کی تقریب تھی جب ان کی ریٹائرمنٹ میں صرف دو دن باقی تھے ۔سجاد میر کو بھی یہی شکوہ ہے۔ اور بھی میڈیا پرسن ایسے ہوں گے جن کو جنرل کیانی سے ہمکلام ہونا چاہئے تھا مگر کسی وجہ سے موقع نہیں ملا ۔
ن لیگ کے دور میں تو باوا آدم نرالاہے، اس حکومت کی لسٹ بہت محدود ہے، وہی جاتی عمرہ جا سکتے ہیں، ماڈل ٹائون تک بھی انہی کی رسائی ہے اور اسلام آباد کے جدید تریں ہوٹل بھی انہی کے لئے کھلے رہتے ہیں۔ابھی یہ ہوائی جہازوںمیں سوار نہیں ہو سکے اور میاں صاحب کے پچھلے دور والے ہیلی کاپٹر گروپ کے وارے نیارے شروع نہیں ہوئے۔اس حکومت کے وزرا اور مشیران بھی مخصوص حلقے سے باہر معلومات شیئر نہیں کرتے۔بلکہ کسی ٹیلی فون کال تک کا جواب دینا گوارا نہیں کرتے۔ان کے میڈیا ایڈوائزر سرکاری خرچ پر ملک ملک کے دورے کرتے ہیں لیکن عوام کو کچھ بتانے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ طرز عمل اطلاعات تک رسائی کے مساوی آئینی حق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔اور یہ ایک ایسی حکومت کے ہاتھوں سرزد ہو رہی ہے جو جمہوریت کی چیمین بنتی ہے۔
کئی سیاسی جماعتیں بھی پسند ناپسند کے مطابق میڈیا روابط استوار کرتی ہیں خاص طور پر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی تو چھوئی موئی واقع ہوئی ہیں اور اپنے نقادوں کو قریب تک نہیں پھٹکنے دیتیں۔ بلکہ جان سے مارنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے تک کی دھمکیاں دیتی ہیں۔ فکس اپ کا لفظ بھٹو کی زبان پر آیا تھا اور انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی زیڈ اے سلہری کو فکس اپ کر دیا تھا۔ اخبارات و جرائد کے خلاف انتقامی کاروائیوں میں دولتانہ نے نوائے وقت کو بند کر کے ایک بری رسم کی بنیاد رکھی ۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں احمد سعید کرمانی نے اس ہتھکنڈے کو بھونڈے طریقے سے استعمال کیا اور بطل حریت شورش کاشمیری کو تختہ مشق بنایا ، صحافت کے سرتاج جناب حمید نظامی بھی ایوبی ہتھکنڈوںکے ہاتھوں دل ہار بیٹھے، کرمانی کے بیٹے آج کل نواز شریف کے مصاحب خاص ہیں ، خدا کرے کہ وہ اپنی نوکری تک محدود رہیں اور دوسروں کی نوکریوں کے پیچھے نہ پڑیں۔
معلومات تک رسائی کے مساوی حق کودنیا کے ہر آئین میں تحفظ حاصل ہے اور موجودہ دور میں وکی لیکس اور سنوڈن نے تو اس حق کا ایسا استعمال کیا کہ دنیا ششدر رہ گئی۔ پاکستان کے میڈیا کو مجبور نہ کیا جائے کہ وہ تنگ آمد ، بجنگ آمد کے مصداق تہلکہ، وکی لیکس یا سنوڈن کا طرز عمل اختیار کر لے۔نظام سقہ کا شاہی دور لد چکا، یقین کر لیجئے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024