تبدیلی یا غنڈہ گردی ۔۔۔!
میڈیا نے دنیا بھر میں پاکستانیوں کو ڈیپریشن اور anxiety کا شکار کر دیا ہے۔ میڈیا نہ دیکھیں تو چین نہیں اور دیکھ لیں تو بے سکونی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ان حالات سے صرف حساس لوگ ہی متاثر ہوتے ہیں ورنہ پاکستان میں انتقام کی سیاست نے لوگوں کو بے رحم بنا دیا ہے۔ دل دکھانا تو بے معنی ہے، اب تو دل چیرنے سے کم کارروائی نہیں ہو رہی۔ عمران خان نے بہت عرصہ پہلے کہا تھا کہ الیکشن میں کامیابی کے لئے پنجاب سے کامیاب ہونا شرط ہے اور پنجاب سے اس وقت تک کامیابی ممکن نہیں جب تک میاں نواز شریف کا ووٹ نہ توڑا جائے۔ یہ بات کسی احمق کو بھی سمجھ آ جاتی ہے کہ نواز شریف کا ووٹ کا بینک توڑنے کے لئے اس کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانا لازمی تھا۔ عمران خان سے جب کہا گیا کہ آپ کی”توپوں کا رُخ“ آصف علی زرداری کی بجائے نواز شریف کی طرف ہی کیوں رہتا ہے تو انہوں نے فرمایا کہ نواز شریف زرداری سے بھی زیادہ کرپٹ ہیں۔ خان سے جب کہا گیا کہ یہ نفرت نواز شریف کے حق میں بھی جا سکتی ہے تو انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ جو عوام میری ایک کال پر چندہ دیتے ہیں وہ میری اس بات پر بھی یقین کریں گے۔تحریک انصاف کے اکثر لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں کہ آپ عمران خان کی فین تھیں پھر آپ ان کے خلاف کیوں لکھنے لگیں؟ تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ میں عمران خان کے خلاف نہیں بلکہ ان کی ہمدردی میں لکھتی ہوں۔ میں اس کی خیر خواہ ہوں۔ یہ شخص ہائی جیک ہو چکا ہے اور اس کے یار ہی اس کے قاتل ہوں گے۔ میںکبھی کسی سیاستدان کی فین نہیں رہی البتہ شوکت خانم میموریل ہسپتال کی وجہ سے ہم نے اکٹھا وقت گزارا اور اس شخص کے جذبے کو خراج تحسین پیش کیا کرتی تھی۔ امریکہ میں بھی کینسر ہسپتال کے لئے فنڈ ریزنگ میں حصہ لیتی رہی ہوں اور آج بھی اس رفاعی کام میں ہمارے جذبات سرگرم ہیں مگر ضروری نہیں کہ عمران خان اور ایدھی اچھے سیاستدان بھی ہو سکتے ہوں۔ خان کی ملک کے لئے رفاعی خدمات کو سیاست سے الگ رکھا جائے کہ عمران خان واحد خدمت گزار نہیں، بشمول ہمارے اندرون و بیرون ملک لاکھوں پاکستانی اپنی حیثیت کے مطابق خدمت خلق اور رفاعی خدمات میں مصروف ہیں۔ ہمیں پاکستان میں تیسری سیاسی پارٹی کے ابھرنے کی خوشی ہوئی کہ دونوں بڑی پارٹیوں کا غرور ٹوٹ سکے گا مگر خان تو ان سب سے زیادہ مغرور ثابت ہوا۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ اٹھارہ کروڑ عوام کے وہ واحد لیڈر ہیں اور باقی سب چور ہیں حتیٰ کہ موصوف نے کسی ادارے کو نہیں بخشا۔ عمران خان کی سیاست کو بھی نظر انداز کر دیا جائے مگر ایک ایسے انسان کو کیوں کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے جو ہر شخص کو گندا کرے، الزامات کی بوچھاڑ کر ے، نازیبا لب و لہجہ استعمال کرے مگر اس کا اپناکردار شرمناک ہو ، اس میں اتنی اخلاقی جرا¿ت نہ ہو کہ ایک حرام فعل سے پیدا ہونے والی اولاد کا اعتراف کر سکے؟ جس نوجوان نسل پر خان کو زعم ہے ،یہ حرام اولاد پیدا کرے اور کہہ دے کہ انہوں نے اپنے لیڈر سے یہی سیکھا ہے تو خان کے پاس کیا جواب ہو گا؟ اس دنیا میں کوئی انسان پاک نہیں مگر دوسروں کو گندا کرنے سے پہلے اپنا ماضی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق عمران خان کا اپنی بیٹی کے ساتھ رابطہ ہے، اسے کبھی کبھار خرچہ پانی اور تحائف بھی دیتے ہیں، ان کی منہ بولی بیوی جمائما بھی اس کی خبر گیری کرتی ہے، اس کے سوتیلے بھائی بھی انگریزی رسم و رواج نبھاتے ہیں کہ مغربی معاشرہ میں حرام اولاد اور سابقہ بیوی کے ساتھ ہنسی مذاق معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ مستقبل میں خان کے بیٹے بھی باپ کے نقش قدم پر چلیں تو خان اپنی پاکستانی یوتھ کے ساتھ اپنے نجی معاملات شیئر کرسکیں گے؟ غیرت مند باپ اپنی غلطیوں اور گناہوں کو ”ذاتی معاملات“ کہہ کر میڈیا کو خاموش کرا دیتا ہے اور باقی جس شخص کی چاہے سرعام پگڑیاں اُچھال دے۔ منافقانہ اور دوغلی شخصیت ایک نہ ایک دن بے نقاب ہو کر رہتی ہے۔ عام انتخابات سے پہلے ہم نے پاکستان کے دیہی علاقوں میں سروے کیا تو معلوم ہوا کہ اکثریت مسلم لیگ نون کو پیپلز پارٹی سے کم بُرا سمجھتی ہے اور عام انتخابات میں جب کم بُرے میںفیصلے کا مرحلہ آیا تو ووٹ نواز شریف کو ہی دئیے جائیں گے۔ 2013ءکے عام انتخابات سے پہلے متعدد دیہاتوں کی اکثریت ”شیر“ پر ٹھپہ لگانے کا عندیہ دے رہی تھی۔ جب عمران خان کی حمایت پر بات ہوئی تو دیہی علاقوں کی اکثریت نے اس رائے کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ ”عمران خان جذباتی، غیر مستقل مزاج، متکبر اور ناتجربہ کار“ ہیں، انہیں سےاست نہیں آتی، ان کی باتیں اچھی ہیں مگر تقریروں کی بنیاد پر ووٹ نہیں دےا جا سکتا۔“ہم میڈیا دیکھتے تو پی ٹی آئی کی تقریروں سے لگتا کہ عمران خان ہی مستقبل کے وزیراعظم ہوں گے جبکہ پنجاب کے دیہی علاقوں میں صورتحال مختلف تھی۔ میڈیا پروپیگنڈا اور زمینی حقائق میں تضاد نے شہری آبادی کو کنفیوز کر دیا۔ ہمارے لاہور ڈیفنس کے علاقے سے عمران خان کو کافی ووٹ ملے مگر دیگر پنجاب کا تجزیہ یکسر مختلف تھا۔ الیکشن سے پہلے وائس آف امریکہ نے ہم سے یہی سوال پوچھا اور ہم نے اپنا تجزیہ گوش گزار کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان اچھی تعداد میں ووٹ لے جائیں گے مگر وزارت اعظمیٰ نواز شریف کو ملنے کا امکان ہے۔ اس ماحول میں جبکہ عمران خان ہسپتال کے بستر پر پڑے تھے یہ تجزیہ مذاق معلوم ہو رہا تھا۔ الیکشن میں دھاندلی ہوئی مگر اسے ایک کرپٹ ریاست کی پرانی روایت کے طور پر لیا گیا۔ عمران خان نے اسے ”بدترین دھاندلی“ اس لئے قرار دیا کہ انہیں مشیران نے وزارت اعظمیٰ کا یقین دلا دیا تھا۔ طاہرالقادری سے بڑا ”وی آئی پی کلچر“ کا مریض ہم نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ اس کے مرید غربت کے ہاتھوں سوکھی مٹی چاٹنے پر مجبور ہیں اور یہ شخص اور اس کا خاندان انگریزوں کی غلامی کی اُجرت پر ”وی آئی پی“ لائف سٹائل انجوائے کر رہا ہے۔ خان اور قادری نے حق گوئی کا ٹھیکہ لے رکھا ہے تو حق سُننے کی بھی ہمت پیدا کریں۔ ہمیں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے ”کارناموں“ پر حیرانی نہیں ہوتی کہ پرانے پاپی ہیں، دکھ عمران خان کی اصلیت دیکھ کر ہوا ہے۔ آکسفورڈ سے پڑھ کر بازاری زبان استعمال کر رہے ہیں اور ان کی بے لگام یوتھ اس قدر شرمناک زبان اور حرکات کر رہی ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون پچاس بار بھی جنم لے تو تحریک انصاف کی ”اخلاقیات“ تک نہیں پہنچ سکتی۔ کالم لکھتے پندہ سال ہو گئے ہیں مگر کبھی کسی جماعت کے کارکن کی جانب سے ایسا ما حول دیکھنے کو نہیں ملا جو نام نہاد یوتھ کے اوباشوں نے اختیار کر رکھا ہے۔ خواتین کی عزت بھی بھول چکے ہیں۔ اب تو ہم بھی کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ نواز شریف گھر چلے جاﺅ ، سیاست اب شریفوں کی نہیں اوباشوں کی چلے گی اور ہر غنڈہ اور دہشت گرد ”تبدیلی“ لے کر آئے گا۔ ہمیں عمران خان کی سیاست سے نہیں صرف اس کی زندگی سے غرض ہے۔ اس کے یار ہی اس کے قاتل ہوں گے اور جرم نواز شریف پر ڈال دیا جائے گا۔