عمران خاںنے کہا کہ سونامی اسلام ا ٓباد پر چڑھ دوڑا ہے، اسلام ا ٓباد کا تو کچھ نہ بگڑا، پاکستان کا بہت کچھ بگڑ گیا اور پھر سونامی نے ملک پر چڑھائی کر دی۔
ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی درد مندی کی جس قدر تحسین کی جائے کم ہے، وہ ضرب عضب کے مہاجرین کے مسائل سے ابھی نبٹنے میںمصروف تھے ا ور پھر چھ ستمبر کی ولولہ ا نگیز یادیں تازہ کرنے کے لئے وہ مہاجرین کے درمیان جا پہنچے۔ درمیان میں انہوںنے چھوٹی عید بھی مہاجر بچوں کے ساتھ ادا کی، ننھی حرا کو انہوںنے رنگ برنگی چوڑیا ںدیں، اس نے کانچ کی یہ چوڑیاں پہلی بار دیکھی تھیں اور چھن چھنا چھن ، وہ دیوانہ واربھاگتی پھرتی تھی اور پاکستان زندہ باد کے نعرے مستی میں لگا رہی تھی۔
آصف جاہ ایک اور سنگین خطرے کی بو سونگھ رہے تھے، تاخیر کی بارشوںنے قیامت خیز سیلاب کو جنم دیا ، سری نگر سے بدین تک پورا پاکستان طغیانی کا شکار ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب مریضوں کے درد کا درماںبنے، بے گھروں کے لئے خیمے لے گئے اور پھلوں ، بسکٹوں اور دیگر اشیائے خوراک کے پیکٹ بھی، اب ان کے جی میں آئی ہے کہ جن کے گھر تباہ ہو گئے ہیں ، انہیںنئے گھر بنا کر دیئے جائیں۔یہ بہت بڑا ٹاسک ہے۔
ڈاکٹر صاحب یہ پبتا سنا رہے تھے ا ور ان کے سامنے بیٹھے شیخ اعجاز کی اور میری حالت غیر ہو رہی تھی،میرے پاس تو ایک قلم ہے ، میں اس درد کو قلم سے مٹا نہیںسکتا مگر اعجاز سکا کو اللہ نے بڑا دل عطا کیا ہے۔پتہ نہیں کس حوصلے سے انہوںنے بتایا کہ ان کے اپنے کاروبار کا نوے فی صد حصہ تو اس تباہی کی لپیٹ میں آ گیا ہے مگر انہوںے پھر بھی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ بہانہ نہیںبنائوں گا کہ میں تو خود آفت رسیدہ ہوں، میرے بس میںجوہوگا ،اس سے بڑھ کر کروں گا، شیخ صاحب نے یہ بتا کر ہمیں ورطہ حیرت میںمبتلا کر دیا کہ سابقہ دونوں سیلابوں میں ان کی شاہدرہ کی فیکٹری ڈوب گئی تھی اور انہوںے سترہ فٹ گہرے پانی میں خود تیر کر کچھ سامان بچانے کی کوشش کی تھی۔ مگر نامعلوم ان دکھوں کو کس طرح اس انسان نے اپنے من میں سمویااور ان کی شدت اور سنگینی ظاہر نہ ہونے دی،یہ گوشت پوست کا انسان نہیں،کوئی مشین ہے یا روبوٹ کہ اندرونی تاثرات اس کے چہرے اور زبان سے ظاہر نہ ہو سکے۔
اس سیلاب نے کچھ بھی تو نہیں چھوڑا، نہ حکومت کا بھرم ،نہ غریب کے لئے دو وقت کی روٹی اور اس کے سر سے چھت بھی چھین لی، فصلیں ڈوب گئیں، مویشی بہہ گئے، گھر کا سامان دریا برد ہو گیا۔جتنے بند توڑے گئے، وہ غریبوں کی تباہی کا باعث بنے، میرا اپنا سوال ہے کہ کیا جھنگ اور ملتان میں انسان بستے ہیں اور وہ بھی کوئی اشرف المخلوقات کہ سیلاب کا رخ صرف غریبوں کی بستیوں اور فصلوں کی طرف موڑا گیا۔ بھٹو دور میں اٹھارہ ہزاری بند پر پنا ہ گزین لوگوںنے مجھے بتایا تھا کہ دریا کے دائیںجانب فخر امام اور سیدہ عابدہ حسین کی زمینوں کو بچانے کے لئے بند بائیں طرف سے توڑا گیا ، اب شور اٹھا ہے کہ بند کے دائیں طرف شوگر ملوں کو بچانا مقصود تھا، کچھ حکمرانوں کی اپنی ملکیت، کچھ ان کے قریبی عزیزوں کی ملکیت اور باقی حکمران پارٹی کے ارکان ا سمبلی کی ملکیت، اس الزام کی کسی نے ابھی تحقیق نہیں کی اور جس الزام کی تحقیق نہ ہو، اسے لوگ سچ مان لیتے ہیں۔زبان خلق نقارہ خدا بن جاتی ہے۔
دنیا بھر کے اری گیشن کے ماہرین کہتے ہیں کہ دریائوں کا قدتی کٹائو دائیں کنارے کی طرف ہوتا ہے، راوی نے کسی زمانے میں شرق پور کی زمینوں کو دریا برد کیا تھا،اسی لئے سیلاب کی صورت حال میں دائیں جانب کے حفاظتی بند توڑے جاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ تیز بہائوکے ساتھ پانی ارد گرد کی زمینوں میں پھیل جائے ا ور قیمتی ہیڈ ورکس بچ جائے۔ یہ بات ذہن میں رکھئے کہ دریا کے حفاظتی بند میں شگاف ہمیشہ دریا پر واقع ہیڈ ورکس کو بچانے کے لئے ڈالا جاتا ہے اور اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں لیکن شگاف دائیں بند میں ہونا چاہئے یا بائیں بند میں ، اس کا فیصلہ بھی فنی ماہرین کو ہمیشہ کے لئے کرلینا چاہئے، ورنہ الزامات لگتے رہیں گے اور غریب ڈوبتے رہیں گے اور حکمران ہیلی کاپٹروں سے اتر کر ان سے خالی خولی ہمدردی کاا ظہار کرنے پر اکتفا کریں گے۔میرے بچپن میں سن تریپن کا سیلاب بڑا خوفناک تھا ، کہتے ہیں کہ لاہور کی چوبرجی بھی ڈوب گئی تھی۔میرے گائوں کے سامنے فیروز پورہیڈ ورکس کو بچانے کیلئے دریا کے دائیں طرف کے حفاظتی بند توڑے گئے تھے اور اسی وجہ سے اٹھارہ بیس فٹ اونچا ریلا ہمارے گائوں سے سب کچھ بہا لے گیا۔
کس قدر ستم ظریفی ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مارشل لا کے خلاف روزانہ تقریریں ہوتی ہیں مگر ان میں کسی ایک کو یہ توفیق نہیں ہو سکی کہ وہ اپنے حلقے میں جائے اور ان ووٹروں کا دکھ درد بانٹے جن کے سچے جھوٹے ووٹوں کی وجہ سے یہ لوگ اس ایوان میں پہنچے۔احسن اقبال اور خواجہ ا ٓصف وزیر اعظم کے ہیلی کاپٹر سے لٹک کر گئے ہوں گے مگر انہیں یہ جرات نہیں کہ بد نصیب ووٹروں کا سامنا کر سکیں، اس وقت تو جہاںجہاں وزیر اعظم جاتے ہیں ، وہاں گو گو نواز گو کے نعرے لگتے ہیں،پی ٹی آئی والے کہتے ہیں ، یہ ہمارے ووٹر نہیں، ن لیگ کے ووٹر ہیں جو اس سے خفا ہیں۔سری نگر میں تو سیلاب زدگان نے ریسکیو کرنے والی فوج پر حملے کئے مگر پاکستان میں صرف فوج ہی وہ واحد ادارہ ہے جو اس وقت ریسکیو کا فریضہ انجام دے رہا ہے،ا س لئے کہ ا س کے پاس ضروری سازو سامان موجود ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اہل وطن کی مدد کا جذبہ بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
اور میرے دوست احمد ریاض شیخ نے بتایا ہے کہ اب تو بلاول بھٹو بھی پنجاب کے سیلاب زدگان کی مد دکے لئے آن پہنچے ہیں۔ مگران کا یہ دورہ علامتی نہیںہو نا چاہئے ، ان کا فرض ہے وہ کچھ علاقوں میں تباہ شدہ بستیاںاز سر نو تعمیر کرنے کی ذمے داری قبول کریں،پیپلزپارٹی میں بھی کار خیر کرنیوالے موجود ہیں ۔ وہ اندرون ملک اور بیرون ملک سے فنڈز اکٹھا کر سکتے ہیں۔اور نہیں تو حاجی نواز کھوکھر اور ملک ریاض تو ہمیشہ کی طرح دستگیری کے لئے موجود ہیں۔
میں پھر ڈاکٹرا ٓصف جاہ کی مثال دوں گا۔بدھ کے روز وہ پنڈی بھٹیاں گئے، حبس سے ان کا براحال ہو گیا، وہ ایک چارپائی پر لیٹ گئے مگر اس حالت میں بھی وہ مریضوں کے چیک اپ میںمصروف رہے ا ور ان کے لئے ادویہ تجویز کرتے رہے، اب وہ لاہور آئے ہیں ، اعجاز سکا کے ساتھ سر جوڑ کر اگلے مرحلے کی تیاری کے لئے سوچ بچار کرنے میںمصروف ہو گئے۔میںنے انہیں یقین دلایا کہ ان کی درد مندی، بے لوثی اور انسانیت نوازی کے پیش نظر وہ مجھے بھی اپنی ٹیم کا ادنی سا ممبر سمجھیں ، میںنے ڈونیشن اکٹھے کرنے کے لئے پروفیسر محفوظ قطب اور عظمت شیخ کو قائل کیا ہے کہ وہ اپنے فن پارے اس گروپ کو عطیہ کریں تاکہ ڈونرز کی حوصلہ افزائی کے لئے یہ فن پارے ان کو ہدیہ کئے جا سکیں۔ اسمائے حسنی اورحرمین شریفین کے عکاس فن پاروں کی کوئی قیمت نہیںلگائی جا سکتی مگر انسانی جذبے سے مالا مال انسانوںکے لئے اس سے بہتر کوئی ہدیہ نہیں ہو سکتا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024