معین قریشی اور طاہر القادری؟
عمران خان بڑی محنت سے کم از کم ملتان میں ”نیا پاکستان“ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ عمران خان صاحب نے ایسے حالات پیدا کئے کہ پاکستان تحریک انصاف کے صدر جناب جاوید ہاشمی نے ملتان کی قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے دیا تو چیئرمین عمران خان نے پاکستان پیپلز پارٹی کے جدی پشتی وفادار ملک عامر ڈوگر کو ہاشمی صاحب کی نشست پر منتخب کرا لیا۔ ہاشمی صاحب مسلم لیگ ن کی حمایت کے باوجود ہار گئے۔
اسمبلی سے ”طلاق مغلظ“ کا قانون؟
تجزیہ کاروں/ نگاروں کو گلہ ہے کہ ”عمران خان نے بہت بڑا جلسہ کیا۔ جلسہ گاہ میں دم گھٹنے سے 7 بے گناہ لوگ بھی اپنے پیاروں کو چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے لیکن ضمنی انتخاب میں TURN OUT بہت کم رہا۔“ اب میں ان بھولے تجزیہ کاروں/ نگاروں کو کیسے سمجھا¶ں کہ جس طرح نماز جنازہ کا پڑھنا ”فرض کفایا“ ہوتا ہے یعنی اگر کوئی کسی کی نماز جنازہ نہ پڑھے تو اسے کوئی گناہ نہیں ہوتا‘ اسی طرح اگر کوئی ووٹر کسی انتخاب میں اپنے ووٹ کا استعمال نہ کرے اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ صادق اور امین نہیں رہا۔ یا اس سے کوئی جرم سرزد ہو گیا ہے۔ اگر ”جمہوریت کے تسلسل“ کے علمبرداروں کی طرف سے کئی بار یہ مہم چلائی گئی ہے کہ ”ہر ووٹر (مرد اور عورت) کو ووٹ ڈالنے کا پابند کیا جائے اور جو ووٹر اپنے ووٹ کا استعمال نہ کرے اسے سزا دی جائے“ لیکن یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔ شاید اس لئے کہ اس طرح اس ووٹر کے انسانی حقوق میں مداخلت ہوتی اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کے حقوق میں بھی۔
قومی اور صوبائی اسمبلی کے بعض انتخابی حلقوں میں سارے کے سارے امیدوار ووٹروں کے لئے ناپسندیدہ ہوتے ہیں۔ ووٹرز ان کی شکل دیکھنے کے روا دار بھی نہیں ہوتے۔ وہ ٹیلی وژن پر کوئی مزاحیہ پروگرام دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اگر ان کے محلے کا گلو بٹ انہیں زبردستی پولنگ سٹیشن پر مل جائے تو؟ اگر اس انتخابی حلقے کا کوئی ”SERVING“ یا سابق امیدوار پھر پلے پڑ جائے تو ووٹر خواتین و حضرات اپنے بچوں کے ساتھ پکنک منانے کے لئے چلے جاتے ہیں اگرچہ مہنگائی کی وجہ سے پکنک منانا بھی فرض کفایا ہی بن گیا ہے۔ ہر ضمنی انتخاب میں ووٹرز کو ووٹ دینے کی دوسری بار سزا بھگتنا پڑتی ہے اگر کوئی کامیاب امیدوار کسی انتخابی حلقے سے اپنی جیتی ہوئی نشست چھوڑ دے تو اس میں اس حلقے کے ووٹروں کا کیا قصور؟
قانون تو اس طرح کا بنانا چاہئے کہ کوئی کامیاب امیدوار اپنی جیتی ہوئی نشست سے مستعفیٰ ہو جائے تو اس کے اس فعل کو اسمبلی سے ”طلاق مغلظ“ سمجھا اور قرار دیا جائے‘ جب تک ”حلالہ“ نہ ہو جائے یعنی اس نشست پر کوئی دوسرا امیدوار کامیاب نہ ہو جائے۔ شیخ رشید احمد آف عوامی مسلم لیگ‘ عمران خان کے جلسہ عام میں پیش گوئی کر گئے تھے کہ ”ملتان کا کوئی کھڈی والا جناب جاوید ہاشمی کو ووٹ نہیں دے گا“ ممکن ہے ایسا ہی ہوا ہو لیکن اب شیخ صاحب کہتے ہیں کہ عامر ڈوگر کی جیت کا سہرا مخدوم شاہ محمود قریشی کے سر ہے۔ اپنے دور کے مخدوموں کے بارے میں عظیم مرثیہ گو میر دبیر نے کہا تھا۔
”دنیا کو طلاق اپنے بزرگوں نے دیا ہے“
مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ امیدوار ہونے کے باوجود جناب جاوید ہاشمی ہار گئے انہوں نے مسلم لیگی قیادت کا شکریہ ادا کیا ہے۔ مسلم لیگی قیادت کو علم تھا کہ گھوڑا جیتنے والا نہیں ہے لیکن انہیں دا¶ پر لگانا پڑا۔ اب ہاشمی صاحب اس کے کسی کام کے نہیں۔ جناب ہاشمی اگر چاہیں تو رائے ونڈ جانے والے کسی بھی قاصد یا نائب قاصد کے ذریعے پیغام بھجوا سکتے ہیں کہ
”مجھ کو اپنا بنا کے چھوڑ دیا!
کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے؟“
ملک عامر ڈوگر نے عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کے دوسرے لیڈروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے۔ عمران خان سمیت تحریک انصاف کے 34 ارکان قومی اسمبلی کے استعفے پہلے ہی جناب سپیکر قومی اسمبلی کے پاس بطور امانت پڑے ہیں۔ انہوں نے مستعفی ہونے والے معزز ارکان کو کئی بار پیغام بھجوایا ہے کہ اپنے اپنے استعفے کی تصدیق کے لئے ”کلے کلے آ¶!“ فرض کیا کہ اگر تحریک انصاف کے مستعفیٰ ہونے والے سبھی ارکان کے استعفے منظور ہو جاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ ’جمہوریت کے تسلسل“ کے لئے قومی اسمبلی کے 34 ارکان کے 34 انتخابی حلقوں میں ضمنی انتخابات تو ہوں گے۔ مرزا غالب نے کہا تھا۔
کھیل لڑکوں کا ہوا‘ دیدہ بینا نہ ہوا“
کیا ہی اچھا ہو کہ قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشست سے ایک بار مستعفی ہونے کو بھی ”طلاق مغلظ“ کا قانون بنا دیا جائے؟
”مرسوں مرسوں‘ ووٹ نہ ڈیسوں“
18 اکتوبر کو نواسہ ذوالفقار علی بھٹو اور جگر گوشہ جناب آصف علی زرداری‘ بلاول بھٹو زرداری بلاول بھٹو زرداری کی چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کی حیثیت سے دوسری بار رسم تاج پوشی تھی اور اس سے دو دن پہلے 16 اکتوبر کو ملتان این اے 149 کے ضمنی انتخاب میں بلاول بھٹو کی پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار ڈاکٹر جاوید اقبال نے 6326 ووٹ حاصل کرکے ناکام ہونے والے امیدواروں میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور اپنی ضمانت ضبط کرائی۔ ملتان میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی گدی ہے اور وہ ڈاکٹر جاوید صدیقی کے لئے ووٹ مانگنے Door To Door (در بہ در) گئے تھے۔ اس کے بعد گیلانی صاحب نے جناب آصف زرداری کو پیغام بھجوا دیا کہ
”مرے کام کچھ نہ آیا‘ یہ کمال نے نوازی“
1970ءکے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین جناب ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے جن 5 حلقوں سے قومی اسمبلی کا انتخاب جیتے تھے‘ ان میں ایک ملتان کا حلقہ بھی تھا۔ 16 اکتوبر کے ضمنی انتخاب نے ثابت کر دیا کہ گڑھی خدا بخش میں ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی قبریں اب پیپلز پارٹی کا ووٹ بنک نہیں ہیں۔ کم از کم شہید اولیائے ملتان کے ووٹروں نے تو جناب بھٹو کے ”روحانی فرزند“ جناب آصف زرداری کو ان کے فرزند حقیقی کی رسم تاجپوشی سے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ”مرسوں مرسوں ووٹ نہ ڈیسوں“
معین قریشی اور طاہر القادری؟
کئی دوستوں نے مجھے ٹیلی فون کرکے مبارکباد دی اور کہا کہ ”آپ کی تجویز یا فرمائش پر علامہ طاہر القادری بڑی مدت بعد اپنے دورہ جھنگ کے دوران اپنے والد محترم ”فرید ملت“ جناب فرید الدین کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے تشریف لے گئے۔“ لیکن میں نے عرض کیا کہ اس کا کریڈٹ یا ”ثواب“ تو اسلام آباد کے ریٹائرڈ انجینئر مرزا عزیز بیگ کو ملنا چاہئے کہ جن کی فراہم کردہ معلومات پر میں نے ”شیخ الاسلام“ کو یاد دلایا کہ وہ اس بار اپنے دورہ پاکستان کے دوران اپنے والد مرحوم کی قبر پر بھی حاضری دیں۔
جب کوئی مہمان بہت عرصہ بعد چہرہ نمائی کرتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ
بعد مدت کے لائے ہو تشریف!
خوش تو ہیں آپ کے مزاج شریف“
خانوادہ میاں محمود علی قصوری (مرحوم) کے جناب معین قریشی 1995ءمیں پاکستان کے نگران وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے لئے 30 سال بعد امریکہ سے پاکستان آئے تو انہیں دو فائدے ہوئے۔ ایک تو ان کا قومی شناختی کارڈ بن گیا اور دوسرا یہ کہ میونسپل کارپوریشن لاہور کے ”ماہرین آثار قدیمہ“ نے ان کی والدہ محترمہ کی قبر دریافت کرکے وزیراعظم کی خوشنودی حاصل کر لی تھی۔ جناب معین قریشی اپنے فرائض منصبی انجام دے کر اور لاہور میں اپنی والدہ کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھا کر اپنی ڈیوٹی پر واپس چلے گئے تھے۔ اس کے بعد وہ پاکستان نہیں آئے۔ اس لئے کہ وہ اس کے بعد کسی امریکی صدر سے اس طرح کا پروانہ حاصل نہیں کر سکے کہ ”حامل رقعہ ہذا کو پاکستان کا نگران وزیراعظم مقرر کر دیا جائے۔
علامہ طاہر القادری کینڈین شہریت حاصل کرنے کے بعد پاکستان میں انقلاب لانے کے لئے پہلی بار دسمبر 2012ءمیں اور دوسری بار جون 2014ءمیں تشریف لائے ہیں۔ اب خبریں ہیں کہ ”علامہ القادری کی ہدایت پر ان کے ”انقلابیوں“ نے اپنے خیمے لپیٹ لئے ہیں۔
میر تقی میر میکدے سے رخصت ہوئے تھے تو وہ ہم مشربوں کو آس دلا گئے تھے کہ
اب تو چلتے ہیں میکدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا!
اس بار علامہ القادری گئے تو کب لوٹیں گے؟ کیا انہیں ”انقلاب“ لانے کے لئے پاکستان پر 17 حملے کرنا پڑیں گے! اور جن گھریلو خواتین اور شیر خوار بچوں کو دھرنے میں شرکت کا معاوضہ مل رہا تھا‘ ان کا کیا ہو گا۔ بہرحال خیر الرازقین کی طرف سے کوئی نہ کوئی بندوبست تو ہو ہی جائے گا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38