برادرم غضنفر علی گل نے پی پی پی چھوڑ کر ن لیگ جائن کر لی ہے۔ آج کل ن لیگ حکومتی پارٹی ہے پتہ ہی نہیں چل رہا ہے حکومت کون چلا رہا ہے۔ میں حیران ہوں کہ ایسے موقعے پر ن لیگ میں شامل ہونا خاصی جرات کا کام تو ہے مگر سیاسی کم فہمی کا کام ہے۔
غضنفر علی گورنمنٹ کالج لاہور میں میرا کالج فیلو تھا۔ ہم ایک ہی وقت میں کالج کے اندر تھے۔ گل بڑا زبردست نوجوان تھا۔ وہ تھتھلا کر بولتا ہے، مگر وہ بہت بڑا مقرر تھا۔ مقرر سے زیادہ ڈیبیئر آج کل تو صرف خطیب ہو گا۔ اس نے بڑی بڑی مونچھیں رکھی ہوئی تھیں۔ ہجوم قابو میں نہ آ رہا ہو تو غضنفر علی گل کو بلایا جاتا وہ پنجابی میں بہت کمال کی بات کرتا تھا۔ میرے ساتھ اس کی بہت دوستی تھی۔ میں نے بھی مونچھیں رکھی ہوئی تھیں پھر گورنمنٹ کالج سے رخصت ہو کے وہ گجرات چلا گیا۔ کچھ عرصہ بعد ملا تو ایک بڑی گھنی داڑھی اس کے چہرے پر تھی مگر اس کی آنکھوں میں وہ تاثر اور شرارت تھی جو طالب علمی کے زمانے کا اعزاز تھا۔ پھر اس نے پیپلزپارٹی جائن کر لی۔ ہم سب ان دنوں بھٹو صاحب کے عاشق تھے۔ گل نے پیپلزپارٹی جائن کر لی اور گجرات میں سیاسی طور پر بڑا کامیاب ہوا۔ خدمت کے حوالے سے گجرات کی سیاست میں چودھری صاحبان ہر دور میں پسندیدہ رہے، میری بیمار ماں کو ایک بار 1122 والے ہسپتال لے کے گئے تھے۔ ماں بچ گئی اور میں نے اپنے دل میں ایک سرشاری سی محسوس کی حکمرانوں اور بااختیار لوگوں کے سامنے خدمت کا جذبہ ہو۔ اگر وہ نوشتہ دیوار کی طرح بھی ہو تو بھی ایک حکمت سے کم نہیں۔ مجھے آج بھی غضنفر علی گل بہت یاد آیا۔ وہ مجھے اچھا لگتا ہے مگر آج کچھ عجب ہوا۔ اور شکر ہے کہ مجھے اس کا فون نہ ملا ورنہ جھگڑا ہو جاتا۔ اسے پیپلزپارٹی کو نہیں چھوڑنا چاہئے تھا وہ جو کچھ بنا ہے اپنی صلاحیتوں کو پی پی پی میں آزمانے کے تجرکے کے بعد بنا ہے۔ اسے زرداری صاحب کے لئے بھی منفی بات نہیں کرنا چاہئے تھی۔ اس سے غضنفر علی گل کی شخصیت کے استحکام کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
میں اس کے لئے امیدیں رکھتا ہوں مگر وہ کس کی امید بننے جا رہا ہے۔ جس کے پاس مایوسیوں کے سوا کچھ نہیں۔ مریم نواز کو جو پذیرائی ملی اس کا تصور بھی کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ اس صورتحال میں مجھے برادرم جہانگیر بدر یاد آیا وہ کمال کا آدمی تھا۔ بھٹو اور بے نظیر بھٹو سے اس کی وابستگی کی مثال نہیں ملتی۔ وہ پیپلزپارٹی کا زبردست جیالا تھا مگر اسے ہرطرف سے عزت اور محبت دی جاتی تھی۔
وہ خالص سیاسی آدمی تھا۔ سیاست میں ڈوب گیا مگر علمی معاملات بھی اس کے سامنے رہے اس نے اتنا مصروف ہونے کے باوجود پی ایچ ڈی کی اور ڈاکٹر جہانگیر بدر بن گیا۔ وہ مڈل کلاس کا آدمی تھا اور ممبر اسمبلی بنا، کئی دفعہ وزیر بھی بنا مگر جہانگیر بدروہی رہا جو تھا۔ اس نے سادگی اختیار کی۔ وہ آغاز ہی سے سادہ تھا اور آخر تک وہی کا وہی رہا ۔ میں اقبال ٹاﺅن میں اس کے ایک عام سے گھر میں گیا۔ اس کے چلے جانے کے بعد اب شاید اس کے بیٹے نے گھر تبدیل کرلیا ہے۔ وہ اپنے عظیم والد کی روایتوںکو زندہ رکھنا چاہتا ہے۔
ایسا جنازہ کم کم لوگوں کو ملتا ہے۔ ایک ہجوم تھا جو بڑھتا ہی جاتا تھا۔ ایک ولولہ انگیز ماحول چاروں طرف پھیلتا جارہا تھا۔ ہمیں احساس نہ تھا کہ ہم قبرستان کی طرف اپنے دوست کا جنازہ لے کر جارہے ہیں۔ ہمیں لگ رہا تھا کہ ہم آج بھی جہانگیر بدر کی قیادت میں کہیں جارہے ہیں۔ کہاں جارہے ہیں یہ صرف جہانگیر بدر کو معلوم تھا۔
ہر طرف جہانگیر بدر کے دوست تھے اس کے رشتہ دار تھوڑے تھے۔ جنازے میں ہر سیاسی پارٹی کے لوگ تھے۔ نظریاتی طور پر مخالفین بھی آگے آگے تھے۔ جذبات سے بھری ہوئی شخصیت والے جہانگیر بدر کے لئے ہر آدمی مزیدار باتیں کررہا تھا۔ وہ بڑا آدمی تھا، سچا آدمی تھا، اپنا آدمی تھا، انوکھا آدمی تھا۔ وہ اصل میں کیا آدمی تھا۔ کوئی نہیں جانتا۔ مگر یہ ہر کوئی مانتا ہے کہ وہ بڑا آدمی تھا۔ وہ فقیر آدمی تھا ۔ وہ درویش آدمی تھا ۔ وہ وزیر بھی تھا۔ اسے وزیر ہونے کا احساس تھا مگر یہ احساس کسی کو نہ دلایا۔ اس کے لئے ہر کوئی اداس ہے۔
تینوں رون گے دلاں دے جانی
تے ماپے تینوں گھٹ رون گے
٭٭٭٭٭