سانحہ پشاور پر لوگ کہتے ہیں کہ آج سیاست پر بات نہ کرو، ہم تو کب سے گزارش کر رہے ہیں کہ ہمیں چُھٹی دے دو کہ ہم سے اب سیاست پر بات ہوتی نہیں۔ کون حساس شخص پاکستان کی گندی، دوغلی منافق سیاست پر لکھنا یا بات کرنا چاہے گا؟ صرف آج کیوں؟ اس ظالم سیاست پر بات کرنے پر ہمیشہ کے لئے پابندی عائد ہونی چاہئے۔
تم ماہ شبِِ چہار دم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشہ کوئی دن اور
کیا سانحہ پشاور اس پاکستان کی سیاست کا نتیجہ نہیں؟ میاں نواز شریف نے اپنی جماعت کا نام (مسلم لیگ) رکھا، بعد میں مسلم لیگ نواز بن گئی، دوسرے فریق نے مسلم لیگ کے ساتھ قائداعظم لگا لیا مگر خدا کی قسم مسلم لیگ اپنا وقار کھو چکی ہے۔ مسلم لیگی خود اپنا جنازہ اٹھائے پھر رہے ہیں۔ اس اتحاد اور ملاپ سے ہم متاثر ہونے والے نہیں۔ ہمیں آج جی بھر کر رو لینے دو کہ ہم تو اس روز بھی نہ روئے جب اپنی جوان بیٹی کی میت اُٹھی، اس روز بھی کھل کر نہ رو سکے جس روز باپ کا چہرہ اپنے ہاتھوں سے ڈھانپ دیا اور اس روز بھی چیخ چلّا نہ سکے جس روز اپنے ہاتھوں سے ماں کی آنکھیں بند کیں۔ مگر آج روئیں گے کہ آج ہمارے وطن سے وہ جنازے اٹھائے جا رہے ہیں جو ہمارے وطن کا مستقبل تھا۔ دشمن ہماری جڑیں کاٹ رہا ہے۔ اس ملک میں تحریک انصاف بھی بن چکی ہے۔ ان کا دھرنا معصوم لاشوں نے ختم کرایا۔
اللہ تعالیٰ نے نام نہاد ٹائیگروں کا بھرم رکھ لیا۔ پیپلز پارٹی پرانی جماعت ہے، اس کو اب کیا رونا۔ جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف کی فارن پالیسیوں پر ماتم کا زمانہ بھی قدیم ہوا۔ فکر نہ کرو سب کو باریاں ملتی رہیں گی۔ اللہ نے چاہا تو اگلے انتخابات میں عمران خان وزیراعظم بن جائیںگے۔ عمران نواز بھائی بھائی بن گئے تو وہ نواز شریف جو اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو باریاں دلا سکتے ہیں، اپنے منجھلے بھائی عمران خان کو بھی ضرور باری دلائیں گے۔ شریف خاندان کی چار باریاں، زرداری خاندان کی چار باریاں ۔۔۔ عمران خان کی کم از کم ایک باری تو بنتی ہے۔ ڈیڑھ سو معصوم بچوں کے جنازے اٹھانے کے بعد بھی اگر عمران نواز بھائی بھائی نہ بن سکے تو لعنت ہے ایسی سیاست اور ایسے اتحاد پر۔ ڈیڑھ سو لاشوں نے دھرنا بھی اٹھا دیا، ڈیڑھ سو لاشوں نے سیاستدانوں کو ملا دیا۔ کتنا بدنصیب ہے یہ ملک کہ اس کی سیاست لاشوں کی محتاج ہے۔ ہم روتے رہے کہ سیاسی نفرتوں کو دشمن کیش کرا رہے ہیں، خدارا ہوش کے ناخن لو مگر اقتدار کی جنگ میں ملک بھی بِِک جائے کسی کے جوتے کو پرواہ نہیں۔ ہم سیاسی اتحاد سے متاثر ہونے والوں میں سے نہیں۔ ہم تو وہ مسلمان ہیں جو اپنے پیاروں کا جنازہ اٹھانے کے بعد بھی وہیں کھڑے ہوتے ہیں جہاں جنازے سے پہلے کھڑے تھے۔ ضرب عضب تو لڑنے چل پڑے، اس ہولناک جنگ کے نتائج کا بندوبست بھی کر لیا ہوتا اور کچھ نہیں تو سکولوں، ہسپتالوں، جی ایچ کیو، مساجد، چھاﺅنیوں وغیرہ کو غیر معمولی سکیورٹی مہیا کی ہوتی۔ خیبر پی کے میں فوجی سکول پر حملہ دنیا کی تاریخ کا بدترین واقعہ ہے۔ حکمران اور سکیورٹی ادارے اپنی نسلوں کو نہ بچا سکے وہ اٹھارہ کروڑ عوام کی حفاظت کی ضمانت دے سکتے ہیں؟ یہ تو خدا پاک کی ذات ہے جس نے ملک کا بھرم رکھا ہُوا ہے ورنہ بے حسی کا عالم مت پوچھ۔ پشاور کئی بار قیامت سے گزر چکا ہے مگر اس بار جو قیامت بپا ہو ئی ہے اس پر ”عاد اور ثمود“ بھی پناہ مانگتے ہیں
درد وچھوڑے دی کُوک نی سکھیو، درد وچھوڑے دی کُوک
لُوں لُوں دے وچ ہُوک نہ سکھیو، لُوں لُوں دے وچ ہُوک
ناں پھیرے کوئی تسبی دانے، ناںکوئی دم درود
روح میرے وچ بالن بھکھدا، تے بھکھدا کُل وجود
اُڈ گئے پنچھی یاداں والے، بن کے عاد ثمود
درد وچھوڑے دی کُوک نی سکھیو، درد وچھوڑے دی کُوک
اور مت پوچھ ان گھروں کا نقشہ جہاں شہیدوں کے کپڑے جوں کے توں الماریوں میں لٹکے ہوئے ہیں کہ جانے والوں کی الماریوں سے چیزیں اٹھا نے کے لیئے روز مرنا پڑتا ہے
سورج سر مژگاں ہے اندھیرے نہیں جاتے
ایسے تو کبھی چھوڑ کے بیٹے نہیں جاتے
تو جانبِ صحرائے عدم چل دیا تنہا
بچے تو گلی میں بھی اکیلے نہیں جاتے
جو پھول سجانے تھے مجھے تیری جبیں پر
بھیگی ہوئی مٹی پہ بکھیرے نہیں جاتے
ابھی جامِ عمر بھرا نہ تھا کہ دستِ ساقی جھلک پڑا
رہیں دل کی دل ہی میں حسرتیں کہ نشاں قضا نے مٹا دیئے
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024