1257ء میں ’’خلافتِ اسلامیہ‘‘ کے دارالحکومت بُغداد پر حملہ کرنے والا چنگیز خان کا پوتا ہلاکو خان اور ہندوستان پر 1748ء اور1767ء کے دوران سات حملے کرنے والا افغانستان کا بادشاہ احمد شاہ ابدالی اگر آج کے دَور میں یہ دونوں زندہ ہوتے تو علّامہ طاہر القادری کے اِنقلاب مارچ اور جناب عمران خان کے آزادی مارچ کے بعد اُن کی طرف سے اِسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کو یرغمال بنائے جانے کے بعد کتنے خوش ہوتے؟ بعض قوموں (خاص طور پر ہندوئوں) کا عقیدہ ہے کہ ’’مرنے کے بعد بہت سے لوگوں کی رُوحیں بھٹکتی رہتی ہیں۔ کچھ قوموں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ۔ ’’بعض رُوحیں بعد میں آنے والے انسانوں اور حیوانوں میں حلُول بھی کر جاتی ہیں۔‘‘
ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کِیا تو وہاں عباسی خلیفہ مُستعصم باللہ ’’خلیفۂ اسلام‘‘ تھا۔ سرکاری خزانہ ہیرے ٗ جواہرات ٗ سونا ٗچاندی اور سِکّہ ہائے رائج الوقت سے بھرا پڑا تھا۔ خلیفہ اپنی فوج کو باقاعدہ تنخواہیں نہیں دیتا تھا۔ فوج ناکارہ ہو چکی تھی اور عوام مفلُوک الحال تھے۔ خلیفہ اور اُس کے خاندان کے لوگ ٗ درباری اور اعلیٰ طبقوں کے لوگ عیش و عشرت میں مشغُول تھے۔ ہلاکو خان نے خلیفہ کو گرفتار کر لِیا اور اُس کے حُکم سے خلیفہ کو ایک طشتری میں ہیرے جواہرات ڈال کر پیش کئے۔ ہلاکو خان نے کہا ’’اِنہیں کھائو‘‘ تو خلیفہ نے جواب دیا ’’ یہ بھی کوئی کھانے کی چیز ہے؟‘‘ ہلاکو خان نے کہا کہ ’’اگر تم ہیرے ٗ جواہرات جمع کرنے کے بجائے اپنی فوج کو باقاعدہ تنخواہیں دیتے اور عوام کی خوشحالی پر توجہ دیتے تو فوج اور عوام مِل کر میرا اور میری فوج کا مقابلہ کرتے۔‘‘
احمد شاہ ابدالی نے 1748ء میں ہندوستان پر پہلا حملہ کِیا توٗ مُغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا برسرِ اقتدار تھا۔ ابدالی کے لشکریوں نے دِلّی اور اُس کے گِرد و نواح میں خُوب لُوٹ مارکی اور وہاں کے معصُوم اور بے گناہ لوگوں کا قتلِ عام کِیا۔ وہ شُرفاء کی بہو، بیٹیوں کو اُٹھا کر لے گئے۔ احمد شاہ ابدالی نے محمد شاہ رنگیلا کی پھُوپھی سے شادی کر لی۔ کئی مُغل شہزادیوں سے ابدالی کے بیٹوں، بھتیجوں اور دوسرے لشکریوں نے نکاح کر لئے۔ محمد شاہ رنگیلا میں بھی شاہی خاندان کے لوگ، درباری، پنج ہزاری اور دس ہزاری قِسم کے منصب داربہت خوشحال تھے لیکن عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے تھے۔ محمد شاہ رنگیلا کی فوج بھی ناکارہ تھی۔
1971ء میں پاکستان اِس لئے دو لخت ہُوا کہ جمہوری اور فوجی حکمرانوں نے مشرقی پاکستان کے عوام کی پسماندگی دُور نہیں کی۔ 1970ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے والی (شیخ مجیب الرحمن کی) پارٹی کو اِقتدار مُنتقل نہیں کِیا تھا۔ لیکن اِس وقت صورتحال مختلف ہے۔ ہماری فوج دُنیا کی بہترین فوج ہے۔ سرکاری خزانے سے اُسے باقاعدہ تنخواہیں مِلتی ہیں لیکن عوام مفلُوک اُلحال ہیں۔ سابقہ حکمرانوں کی طرح موجودہ حکمران بھی اِس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ ’’پاکستان کی 50 فیصد آبادی غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔‘‘ کیا اپنی مرضی سے؟ یا غُربت کی لکیر سے اوپر زِندگی بسر کرنے والے خوشحال لوگوں کی مرضی سے؟
مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہونے کے بعد بھی بیروزگاری ختم نہیں ہُوئی اور نہ ہی غریبوں کا بھلا ہُوا۔ وریر خزانہ نے ڈالر کی قیمت تو کم کرا دی لیکن اشیائے ضروریہ کی قیمتیں پہلے سے کئی گُنا بڑھ گئی ہیں۔ شادی کے قابل غریبوں کی بیٹیاں گھروں میں بیٹھی بیٹھی بُوڑھیاں ہو رہی ہیں لیکن حُکمران طبقہ کے لوگ جہاز بھر بھر سرکاری خرچ پر حج اور عُمرے کے لئے جاتے ہیں اور اپنے اہلِ خانہ کا علاج کرانے کے لئے بھی ۔ وفاقی اور صوبائی وزیروں، مشیروں، ارکان پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلی کی مراعات مُغل شہزادوں سے بھی زیادہ ہیں اور ہر ماہ اُن کی سکیورٹی پر سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کئے جا رہے ہیں لیکن عام لوگ خود کُشی کر رہے ہیں۔ غُربت کے ہاتھوں تنگ آ کر اپنے بچے فروخت کر رہے ہیں۔ غریب ماں باپ کے بیروزگار بیٹے اور بیٹیاں مایوسی کا شکار ہیں۔ اِس طرح کی صورت حال سے علّامہ طاہر اُلقادری اور عمران خان جیسے لوگ فائدہ کیوں نہیں اٹھائیں گے؟
علّامہ طاہر اُلقادری کے اِنقلاب اور اُن کی پاکستان تشریف آوری سے پہلے کُچھ ایسا انتظام ہوا کہ 17 جون کو ماڈل ٹائون لاہور میں پولیس کے ہاتھوں مِنہاج اُلقرآن کے سیکرٹریٹ کے سامنے 14 لوگ ہلاک ہو گئے۔ شومیٔ قِسمت کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اِس مقدمے میں پھنس گئے یا پھانس لئے گئے۔ طاہر اُلقادری کو اپنے اِنقلاب کے ایندھن کے طور پر ’’شُہدائ‘‘ مِل گئے۔ اُن کے پاس ’’غازیوں‘‘ کی کمی نہیں جو ’’شُہدائ‘‘ کی صف میں شامل ہونے کے لئے بیتاب ہیں۔ علّامہ طاہر اُلقادری نے اپنے پیروکاروں کو حُکم دیا ہے کہ ’’ہماری صفوں میں سے جو کوئی اِنقلاب سے پیچھے ہٹے اُسے ’’شہِید‘‘ کر دو!‘‘علّامہ طاہر اُلقادری نے یہ نہیں بتایا کہ اُن کا جو پیروکار ’’اِنقلاب کے منحرف‘‘ اپنے ساتھیوں کو ’’شہِید‘‘ (قتل) کرے گا ٗ اُس کی اپنی شرعی حیثیت کیا ہو گی؟ کیا وہ ’’مسلمان غازی‘‘ ٹھہرائے گا؟
دُہری شہریت کے مالک علّامہ طاہر اُلقادری کی پارلیمنٹ اور کسی بھی صوبائی اسمبلی میں نمائندگی نہیں ہے۔ اِس کے باوجود انہوں نے مُنتخب وزیرِاعظم میاں نواز شریف وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو 48 گھنٹے کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے حُکم دِیا ہے کہ اپنے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دو، قومی اور صوبائی اسمبلی تحلیل کر دو او اپنی گرفتاریاں پیش کردو! ورنہ میں اِنقلاب مارچ کے شرکاء کو اپنے قابو میں نہیں رکھ سکوں گا۔‘‘ اِسی طرح کی دھمکیاں قومی اسمبلی میں 35 نشِستوں کے حامل اور خیبر پی کے کی حکومت کی مالک پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان دیتے ہیں۔ انہوں نے سوِل نافرمانی کا اعلان کرتے ہوئے کہتے کہا کہ ’’اگر وزیرِاعظم نے استعفیٰ نہ دِیا تو میں ’’آزادی مارچ‘‘ کے شرکاء کو کُھلا چھوڑ دوں گا۔‘‘
اب ایم کیو ایم کے قائد الطاف بھائی اور امیر جماعتِ اسلامی جناب سراج الحق یقیناً پچھتا رہے ہوں گے کہ انہوں نے تو علّامہ طاہر اُلقادری اور عمران خان کی ضمانت دی تھی کہ ان کے کارکن اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل نہیں ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وزیرِاعظم نواز شریف اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اپنے اپنے عہدوں سے مستعفی نہ ہوں؟ (اور کیوں ہوں؟) تو کیا اِنقلاب مارچ اور آزادی مارچ کے شُرکاء اپنے اپنے لیڈروں کی گرفت سے آزاد ہو کر اور ریڈ زون میں داخل ہو کر دہشت گردی کریں گے؟ اور اگر انہوں نے ایسا کیا تو کیا پولیس، رینجرز اور پاک فوج کے جوان خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟ علّامہ طاہر اُلقادری تو آئین اور جمہوریت کو نہیں مانتے۔ وہ تو ریاست پاکستان کے حاکمِ مطلق بن کر لاکھوں لوگوں خود پھانسی دینے کا اعلان کر چُکے ہیں۔ تو کیا عمران خان بھی ان نقشِ قدم پر چلنا چاہتے ہیں ۔ فی الحال یہ فیصلہ ابھی نہیں ہُوا کہ طوائف اُلملوکی کے بعد (خدانخواستہ ) پاکستان کی حُکمرانی علّامہ طاہراُلقادری کو مِلے گی یا عمران خان کو؟ اور اس خطرناک صورتِ حال کا نتیجہ کیا نکلے گا؟
علّامہ طاہر اُلقادری، عمران خان اور اُن کے بیٹے تو محفوظ و مامون ہیں۔ وہ بیروزگار نوجوان جو اِنقلاب مارچ اور آزادی مارچ کے سحر میں مُبتلا ہیں اگر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو اُن کے والدین اور عزیز و اقارب کِس کِس کا گریبان پکڑیں گے؟ جمہوریت کا حامی ہر سیاسی جماعت کا لیڈر ’’ہم مارشل لاء نافذ نہیں ہونے دیں گے‘‘ کی گردان کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ماضی میں سیاستدانوں سے پوچھ کر مارشل لاء نافذ کیا جاتار ہا ہے؟ ہلاکو خان تو بُغداد کو لُوٹ کر اور خلیفہ کو قتل کر کے واپس چلا گیا تھا۔ احمد شاہ ابدالی دِلّی کو لُوٹ کر افغانستان۔ علّامہ طاہر اُلقادری کی مذہبی اور عمران خان کی سیاسی حکمتِ عملی کے نتیجے میں اسلام آباد ٗ اہلِ اسلام آباد ٗ اہلِ پاکستان کا کیا ہوگا؟ شاید ہلاکُو خان اور احمد شاہ ابدالی کی رُوحیں جانتی ہوںگی!
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024