کچھ دن ہوئے ایک محفل میں ایک صاحب دھواں دھار اظہار خیال کر رہے تھے اور بڑے وثوق سے کہہ رہے تھے چونکہ کتابیں چھپنا بند ہو گئی ہیں، اس لئے کتابیں پڑھنے کا نہ شوق رہا اور نہ منشور۔ مجھے حیرت ہوئی… میں نے اپنی سٹڈی میں آ کے دیکھا۔ کتابوں کا ایک پلندہ میری راہ دیکھ رہا تھا۔ جب تک بمشکل تمام میں ان کتابوں کو پڑھ کے، دیکھ کے، مطالعہ کر کے سنبھالتی ہوں اگلے مہینے پھر اتنی ہی کتابیں آ جاتی ہیں… دوکانوں میں جائو تو دوکانیں کتابوں سے بھری ہوئی ملتی ہیں۔ اگر ذوق کتب بینی فنا ہو چکا ہے تو کون خرید رہا ہے یہ کتب…
کچھ مصنفین تواتر سے اردو ادب میں تحقیقی اور تخلیقی کام کر رہے ہیں۔ ان میں ایک جناب ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم بھی ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اقبالیات کا انسائیکلوپیڈیا شائع کیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی ایک انوکھی کتاب ہے۔ ساڑھے گیارہ سو صفحات کی اس کتاب میں علامہ اقبال سے متعلق لکھا ہوا مواد شامل ہے۔ جہاں کہیں جس قدر جس نے بھی لکھا… اقبال کے عشاق اور ریسرچ کے مشتاق کوئی صفحہ کھولیں اور مالا مال ہو جائیں۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے پاکستان کے اندر ایک عظیم اقبال شناس جناب ڈاکٹر ایوب صابر پر ایک مستند کتاب لکھ دی ہے جو آنے والی نسلوں کے لئے روشنی کا ایسا استعارہ ثابت ہو گی کہ چراغ سے چراغ جلنے کی رسم، ایک روز کہکشاں سے جا ملے گی۔ جو شخص علامہ اقبال کی شاعری کا گرویدہ ہے اس کا آئیڈل محمد علی جناح بن جاتا ہے۔ ان دونوں شخصیات کے فکروفلسفہ پر عمل پیرا انسان پاکستان کی محبت میں اپنے آپ گرفتار ہو جاتا ہے۔ تیسری کتاب ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کی ہے۔ ’’پاکستان سب کے لئے‘‘ اس کے اندر انہوں نے خارجی داخلی، نفسیاتی، طبقاتی اور تعلیمی مسائل پر کھل کر لکھا ہے۔ اس طرح لکھا ہے کہ رہنمائی لگتی ہے۔ اس کا انتشاب بھی پڑھنے کے لائق ہے۔
’’ان پاکستانیوں کے نام جو تصویر، تحریر، تقریر اور نمودونمائش کے بغیر پاکستان کی بے لوث خدمت کرتے ہیں‘‘
سب سے زیادہ حیرت مجھے اس وقت ہوئی جب مجھے ملک ریاض حسین کے کالموں کا مجموعہ ’’حقیقت‘‘ ملا۔ میں تو سمجھتی تھی کہ ملک ریاض حسین صرف دیدہ زیب ہائوسنگ سکیمیں ہی تعمیر کر سکتے ہیں مگر جب ان کے کالم پڑھے تو اندازہ ہوا کہ یہ حسرت تعمیر بھی اللہ کی دین ہے۔ منافع کمانا اگر فن ہے تو اللہ کو قرض حسنہ دینا بندگی کی سب سے خوبصورت ادا ہے۔ ملک ریاض حسین نے بھی ایک سچے اور اچھے پاکستانی کی طرح پاکستان کے تمام سلگتے ہوئے مسائل پر قلم اٹھایا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں اپنی غربت کی کہانی بھی لکھی ہے۔ جب وہ کرائے کے مکان میں رہتے تھے اور ان کی بیوی کی خواہش تھی کہ اسے صرف پانچ مرلے کا مکان ہی نصیب ہو جائے۔ ہر کامیاب انسان کی زندگی کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ ہر بلندی پر پہنچنے والا پہلے زمین پر ٹھوکریں ضرور کھاتا ہے۔ ملک ریاض حسین نے جب بل گیٹس اور وارن بفٹ کے حالات زندگی پڑھے تو انہیں اللہ کے ساتھ معاملہ کرنے کا گر آ گیا۔ اس کتاب میں انہوں نے پاکستان کے 120 امیر ترین حضرات کے نام کھلا خط لکھا ہے، اور ترغیب دلائی ہے اور لکھتے ہیں اگر بل گیٹس اور وارن بفٹ اپنی دولت کا 80 اور 87 فیصد حصہ لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کر سکتے ہیں تو ہم بھی اپنی دولت کا 5 سے 10 فیصد تک عام لوگوں کے لئے کیوں نہیں وقف کر سکتے ہیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ آج اگر ہم 20، 20 کروڑ روپے جمع کر لیں تو 4 ارب بن جائیں گے… اور ہم اس رقم سے… آگے وہ ایک لمبا پروگرام دیتے ہیں۔ غربت دور کرنے کا۔ پسماندہ علاقوں میں پانی کا بندوبست کریں۔ پسماندہ علاقوں میں چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں بنا دیں۔ نوجوانوں کو فنانس کر کے ڈاکٹر اور انجینئر بنائیں۔ بھوکوں کو کھانا کھلائیں۔ بے آسروں کے لئے ہوسٹل بنوائیں… وغیرہ وغیرہ۔ سینکڑوں تجویزیں ملک صاحب کی تجوری میں پڑی ہیں… کوئی سن رہا ہے… کوئی پڑھ رہا ہے… ملک صاحب! آپ کی سوچ مثبت ہے، کوئی سنے نہ سنے آپ یہ سب کرتے جائیں، لکھتے جائیں… اللہ تعالیٰ آپ کو بھی کوئی شیخ محمد ادھار دے گا۔ انشاء اللہ …‘‘
سلمیٰ اعوان ہمارے عصر کی ایک دبنگ سفر نامہ نگار اور بے مثال افسانہ نگار ہے۔ سلمیٰ سفر نہیں کرتی حالات کے ساحلوں پر گھونگھے اور سیپیاں چن کر لاتی ہے اور جو کچھ سفر نامے میں نہیں لکھ سکتی وہ ناول اور افسانے میں لکھ دیتی ہے۔ ابھی ابھی میں نے اس کا ناول ’’لہو رنگ فلسطین‘‘ پڑھا ہے… اور درد کی طغیانیوں میں ڈوب گئی ہوں۔ اس ناول میں وہ تمام خوبیاں ہیں جو کسی تاریخی اور جغرافیائی ناول میں ہوتی ہیں ایسے لگتا ہے کہ فلسطین کے چہرے پر جو لہو بہہ رہا ہے، اس کے قطروں سے سلمیٰ اعوان نے یہ ناول لکھا ہے ناول نگار اور مؤرخ میں یہی فرق ہوتا ہے۔ مؤرخ حقائق کا الائو بھڑکا کر چھوڑ دیتا ہے مگر ناول نویس بھڑکتے الائو کی راکھ کریدنے کے لئے اس تپش میں خود اتر جاتا ہے اردو ادب میں یہ ہمیشہ رہنے والا ناول ہے۔
سلیمان جاذب نے ایک کتاب بھیجی ہے۔ ’’قتل گل‘‘ اس کا ہر صفحہ پشاور کے معصوم شہیدوں کے لہو کی خوشبو میں رچا ہوا ہے۔ کون کہتا ہے کہ ’’قوم بے حس ہے… کون کہتا ہے یہ قوم سو رہی ہے۔ اس کتاب کی تحریریں بتاتی ہے کہ پھولوں کا جو قتل ہوا تو رائیگاں نہیں جائے گا… اسی کے علاقے میں نئے چراغ روشن ہوں گے مظفر بخاری صاحب نے طنز و مزاح کی کتاب ’’گستاخی معاف‘‘ بھیجی ہے۔ کیا خوب کتاب ہے… زندگی کو جینے کا جواز دیتی ہے شگفتہ شگفتہ تحریریں ہیں اور گدگداتا ہوا طنز ہے…
ڈاکٹر شیخ اقبال کو تو آپ جانتے ہوں گے۔ ان کے بارے میں ان کی کتاب ’’اس کے نام‘‘ میں جناب نسیم سحر نے کہا ہے ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کی شاعری ان کی زندگی اور شخصیت کا ایک مضبوط حوالہ ضرور ہے۔ مگر یہی ان کا مکمل حوالہ نہیں ہے۔ انہوں نے بصارت سے محروم ہونے کے باوجود جس بڑے پیمانے پر شعر و ادب کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ٹیچر، ایک لیکچرر، پروفیسر، مدبر سوشل ورکر اور بہت سی دیگر حیثیتوں میں نوع انسانی کی خدمت کی ہے۔‘‘ ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ ہم جب کبھی ’’سفید چھڑی‘‘ میں ان کی شاعری و دیگر تحریریں پڑھتے ہیں یوں لگتا ہے کہ ان کے الفاظ کے اندر سے روشنی کی کرنیں نکل رہی ہیں۔ باطن میں بہت اجالا ہو تو فکر و فن کے جھرنے کھل جاتے ہیں۔ لفظ بولتے ہیں اور تحریریں دیکھنے اور سننے لگتی ہیں۔ ان کا ایک شعر سنیے اور سرد دھنیے…
منزلوں کی بات چھوڑو کس نے پائیں منزلیں
اک سفر اچھا لگا اک ہمسفر اچھا لگا
جناب روحی کنجاہی ہمارے ملک کے بہت بڑے شاعر ہیں۔ ان کا تازہ مجموعہ کلام ’’غزل غزل زندگی‘‘ کب سے میری توجہ کا منتظر تھا۔ تغزل کے رنگ میں رچی ان کی غزلیں عارفانہ احساسات کی حامل ہوتی ہیں…
یہ حالت دونوں کی آپس میں کتنی ملتی جلتی ہے
خدا ہے کتنا تنہا، بھیڑ میں انساں اکیلا ہے
ابھی کراچی کی ایک شاعرہ حجاب عباسی نے مجھے اپنی کتاب ’’ثبات ہجر‘‘ بھیج رکھی ہے۔ نام بھی انوکھا اور شاعری بھی منفرد… عورت نے شاعری پر پڑی اپنی روایاتی نقاب اتار دی ہے۔ کیونکہ وہ دل سے شاعری کرتی ہے۔ اس لئے اس کی شاعری دل کو لبھاتی بھی ہے۔ کہتی ہیں…
سنتے ہیں تحریر ہمیشہ زندہ رہتی ہے
سچ پوچھو تو اسی مثال نے زندہ رکھا
جتنی کتابیں مجھے مہینے میں وصول ہو چکی ہیں۔ ان سب کو پڑھنا اور لکھنا اس قدر آسان نہیں۔ اتنی کتابوں کو پڑھنے کے لئے دو سو گھنٹے کا دن اور چار سو آنکھیں درکار ہیں۔ اس صورت میں جب آدمی کا اپنا کام بھی مسلسل لکھنا ہو… پڑھنے کی ایک لذت ہے تو لکھنا بھی ایک نشہ ہے۔
چلتے چلتے ایک کتاب کا ذکر ضرور کروں گی۔ جو رضی الدین رضی نے ملتان سے بھیجی ہے اور اس کا عنوان ہے ’’وابستگان ملتان‘‘… اس سے پہلے رضی نے رفتگاں ملتان لکھی تھی۔ رضی بہت اچھا نثر نگار اور شاعر ہے۔ اس نے تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ ملتان کی ادبی اور سماجی تاریخ کو جغرافیے کا پیراہن پہنا کر لفظوں میں گوندھ کے محفوظ کرتا رہے گا یہ بہت اعلیٰ شوق ہے… ریت سے موتی چننا، اور کرنوں سے ذرے نکال لینا… حقیقت میں ایسی کتابیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں…
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024