وزیرِ اعظم نواز شریف کی صدارت میں منعقدہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سیاسی اور عسکری قیادت میں مفاہمت اور ہم آہنگی نظر آئی اوریہ بات بھی طے ہوگئی کہ ’’اداروں کے سربراہ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی نہیں کریں گے‘‘۔وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحِیل شریف میں مُسکراہٹوں کا تبادلہ ہُوا۔جنرل راحِیل شریف خُود چل کر خواجہ صاحب کے پاس گئے۔ بُزرگ کہتے ہیں کہ ’’مُسکراہٹ بھی ایک طرح کا صدقہ ہی ہوتی ہے‘‘۔اور خُود چل کر جانااخلاق اُستاد سرُور نے کہا تھا؎
’’چھیڑ کرتی ہُوئی جب بادِ صبا آتی ہے
مُسکراہٹ لبِ غنچہ پہ سِتم ڈھاتی ہے‘‘
اِس سے پہلے خبریں آرہی تھیں کہ ’’جنرل راحِیل کی طرف سے وزیرِ اعظم سے درخواست کی گئی کہ خواجہ محمد آصف سے وزارتِ دفاع کا اضافی چارج واپس لے لِیا جائے‘‘۔وزیرِ اعظم نواز شریف نے درمیانی راستہ اختیار کیا۔دونوں میں مصالحت کرادی۔ بھارت کے پہلے وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی کابینہ میں کرِشنا مَینن وزیرِ دفاع تھے۔ مَینن صاحب کا اُس دَور کے چیف آف آرمی سٹاف کے ایس تھِمیّا۔ سے تنازع ہُوا تو کرِشنا مَینن کی سفارش پر وزیرِ اعظم نہرو نے جنرل تھِمیّا کو برطرف کر دیا تھا۔ شاید اِس لئے کہ وزیرِ اعظم نہرو مارشل لاء گزِیدہ نہیں تھے۔
بہر حال خواجہ محمد آصف اور جنرل راحِیل شریف میں مصالحت خُوش خبر ہے۔قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جنرل راحِیل شریف کا ایک بیان شائع ہُوا ہے، جِس میں انہوں نے کہا ہے کہ’’ہم سرحدوں پر کسی کو چھیڑ خانی کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔ محترم جنرل راحِیل شریف صاحب! کوئی بھی مُلک اِتنا ’’شریف‘‘ نہیں ہوتا کہ پڑوسی مُلک کو پہلے آداب عرض کرے اور پھر اُس کی سرحدوں پر چھیڑ خانی کی اجازت طلب کرے۔ دُشمن بیرونی ہو یااندرونی چھیڑ خانی سے قبل اجازت نہیں مانگتا بلکہ دھمکی دیتا ہے ۔’’ سو پُشت سے ہے پیشہ ء آباء سپہ گری‘‘کے دعویدار مرزا غالبؔ نے اپنے محبوب کو چھیڑنے سے پہلے اجازت طلب نہیں کی تھی بلکہ دھمکی دی تھی، جب کہا ؎
’’ہم سے کھُل جائو بوقتِ مَے پرستی ایک دِن
ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عُذرِ مستی ایک دِن‘‘
16اپریل کو طالبان کی مجلسِ شوریٰ کے مُتفقہ فیصلے کا اعلان کرتے ہُوئے طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا تھا کہ’’ ہم نے 40 روزہ جنگ بندی ختم کر دی ہے۔ جنگ بندی کے دوران ہمارے زیرِ حراست 50قیدیوں کو قتل کر دِیا گیا لیکناگر حکومت سنجیدگی اختیار کرے تو ہم اُس سے اب بھی مُذاکرات کرنے کو تیار ہیں‘‘۔قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں طے پایا ہے کہ’’طالبان سے مُذاکرات قانون اور آئِین کے دائرے میں ہوں گے اور مُلکی سلامتی پر آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔ طالبان کے کسی گروہ نے کارروائی کی تو عسکری ادارے اُس کابھر پور جواب دیں گے اور اُن کے ٹھِکانوں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ اُدھر طالبان کے ایک راہنما عُمر خالد خُرا سانی نے اعلان کر دِیا ہے کہ ’’پاکستان میں شریعت صِرف جنگ سے ہی نافذ ہو سکتی ہے‘‘۔
ایک طرف شریعت کے نفاذ کے لئے جنگ کا اعلان اور دوسری طرف ’’قانون اور آئِین کے دائرے میں رہ کر مذاکرات کی خواہش‘‘۔ سیانے لوگ اِس کیفیت کو’’بُعد اُلمشرقین‘‘ کہتے ہیں۔ شاہد اللہ شاہد نے 7اکتوبر 2013ء کو ایک غیر مُلکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا تھا کہ’’مذاکرات سے ہمارا مقصد پاکستان میں شریعت نافذ کرنا ہے۔ طالبان قبائلی علاقوں سے نکل کر پاکستان کے شہروں تک پہنچ چکے ہیں۔ اب ہمارا ہدف اسلام آباد ہے۔ ہم اسلام آباد کو حقیقی اسلام آباد بنا دیں گے‘‘۔ مولانا سمیع الحق اور اُن کے ساتھی عُلما اور32 مذہبی جماعتوں کے قائدین طالبان کو’’پاکستان کے بیٹے‘‘ قرار دے چکے ہیں اور امارت کا انتخاب ہارنے سے قبل جماعتِ اسلامی کے امیر سیّد منّور حسن انہیں اپنے۔ ’’بھائی‘‘۔ کہتے تھے۔ وزیرِ داخلہ۔ مذاکرات کرنے والے طالبان ’’محبِ وطن پاکستانی‘‘ کا سرٹیفیکیٹ دے چکے ہیں۔بہت سے غیر عسکری طالبان قیدی رہا کئے جا چکے ہیں لیکن ’’پاکستان کے بیٹیبھائی اور محّب وطن پاکستانی‘‘ مطمئن نہیں ہُوئے۔
18اپریل کے ایک قومی اخبار میں خبر شائع ہُوئی ہے کہ ’’اسلام آباد کی سرکاری مسجد ’’لال مسجد‘‘ پر قابض مولانا عبدالعزیز نے، مسجد کے ایک حِصّہ میں واقع ’’جامعہ حفضہ‘‘ کی لائبریری کا نام عالمِ اسلام کے لئے مسائل پیدا کرنے والے’’اُسامہ بِن لادِن‘‘ کے نام سے منسوب کر دیا ہے۔ قبل ازیں سیّد منّورحسن اُسامہ بِن لادِن کو’’سیّد اُلشہدا‘‘ کا خطاب دے کر حضرت امام حسین ؓ کی توہِین اور مسلمانوں کی دِل آزاری کر چکے ہیں۔ مولانا عبدالعزیز نے اپنے تازہ ترین انٹرویو میں تسلیم کیا ہے کہ’’میں اب لال مسجد کا بحیثیت خطیب ملازم نہیں ہوں لیکن اب بھی وہاں نماز پڑھاتا ہُوں‘‘۔اپنے اِس انٹرویو میں مولانا عبدالعزیز نے اپنی سربراہی میں پاکستان میں ’’خلافت‘‘ قائم کرنے اور اُس کے بعد (کسی بیوہ کے ساتھ) دوسری شادی کا اعلان بھی کیا ہے۔معروف تاریخ دان ابنِ خُلدونؔ نے لکھا ہے کہ’’خلیفہء اسلام صِرف کوئی قریشی ہی ہو سکتا ہے‘‘ ۔ مولانا عبدالعزیز تو بلوچ ہیں۔ یہی بات مَیں نے 1992ء میں ’’ نوائے وقت ‘‘ میں لِکھ کر اور ایک پریس بریفنگ میں’’تحریکِ خلافت‘‘ کے بانی سربراہ داکٹر اسرار احمد کو بھی بتائی تھی۔ ڈاکٹر صاحب ہندو اُلنسل’’اگر وال‘‘(ویش تجارت پیشہ بنیے) تھے اور خود کو راجپوت بیان کرتے تھے۔ یہ بات بھی مَیں نے اُن کی خدمت میں عرض کر دی تھی۔
ویرِ اعظم نے، اِس امر پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ۔ سیاسی اور عسکری قیادتیں اب ایک صفحے۔(Page)۔پر ہیں۔ مملکتِ خدا دادِ پاکستان اور یہاں کے عوام و خواص کے۔’’صفحہ ہستی‘‘۔ پر رہنے کے لئے۔ دونوں قیادتوں کا ایک ہی صفحے پر ہونا بے حد ضروری ہے اور عوام کا بھی۔ طالبان کی طرف سے جنگ بندی کے خاتمے کے اعلان کے بعد ،اب کتنے فوجی افسروں/اہلکاروں اور معصُوم اور بے گناہ پاکستانیوں کو قربان ہونا پڑے گا؟ علّامہ اقبال ؒ اور قائدِ اعظمؒ کے پاکستان میں جو ایک شخص اور ایک ووٹ کی بنیاد پر قائم ہُوا تھا، قتل و غارت سے کِس قِسم کی شریعت نافذ کی جا سکتی ہے؟ حکومت اور طالبان کے مذاکرات کب تک چلیں گے؟۔ یہ بھی بتایا جائے کہ۔
طالبان کِس۔"Page"۔ پر ہیں؟۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024