شیخ رشید نے اپنے اس جملے کی وضاحت کی ہے میں نے یہ نہیں کہا کہ پاک فوج نے بھنگ پی رکھی ہے بلکہ میں نے کہا ہے کہ پاک فوج نے ستو پی رکھے ہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے کوئی آدمی جھوم رہا ہو اسے کوئی کہے کہ سردار جی پی ہوئی ہے تو وہ کہے کہ میں نے شراب نہیں پی لسی کے دس بارہ گلاس پی لئے ہیں۔ لسی بھی زیادہ پی لی جائے تو آدمی سو جاتا ہے۔ شیخ صاحب پاک فوج کے لئے کہہ رہے ہیں کہ وہ کچھ کر بھی نہیں رہے۔ آنکھیں بند کر کے سو رہے ہیں۔
شاعر دلنواز برادرم شعیب بن عزیز نے کہا کہ یہ عذر گناہ بدتر از گناہ ہے؟ گناہ کے لئے عذر کرنا گناہ سے بھی برا ہے۔ فوج کو دعوت دینا بھی غلط ہے۔ دعوت قبول نہ کرنے پر غصہ کرنا اس سے بڑا گناہ ہے۔ دعوت کبھی کبھی عداوت بن جاتی ہے۔ مجھے پوری طرح سمجھ نہ آئی کہ عذر گناہ کس طرح گناہ سے بھی بدتر ہوتا ہے۔ عذر گناہ تو اس طرح گناہ کبیرہ بن جاتا ہے۔ ایک آدمی قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں نے کبھی زندگی بھر گناہ صغیرہ کیا ہی نہیں ہے۔
ایک درباری نے بادشاہ سلامت کے سامنے جب یہ کہا کہ عذر گناہ بدتر از گناہ ہے تو بادشاہ سلامت نے اسے حکم دیا کہ ثابت کرو ورنہ تمہاری خیر نہیں ہے۔ سارے بادشاہ سلامت نواز شریف اور عمران خان کی طرح کے ہوتے تھے۔ اس میں بے شک ”صدر“ زرداری کو بھی شامل کر لیں۔ درباری بڑا ذہین آدمی تھا۔ دوسرے دن بادشاہ سلامت جب غسل خانے میں نہا رہا تھا تو وہ دروازہ کھول کے اندر چلا گیا۔ بادشاہ سلامت بہت خفا ہوا تو درباری بولا معافی چاہتا ہوں میں نے سوچا تھا کہ ملکہ عالیہ نہا رہی ہیں۔ بادشاہ سلامت اور زیادہ خفا ہوا تو درباری نے کہا کہ یہی تو عذر گناہ بدتر از گناہ ہے۔ شیخ رشید کو پتہ ہونا چاہئے کہ ستو پینے سے نیند زیادہ آتی ہے۔
شیخ صاحب ایک بات کرتے ہیں پھر اس کی وضاحت میں جو بات کرتے ہیں وہ پہلی بات سے زیادہ شرمناک اور خطرناک ہوتی ہے۔ شیخ صاحب کہتے ہیں کہ قربانی سے پہلے قربانی ہو گی۔ وہ کہتے ہیں نواز شریف کی قربانی دے کر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قربانی عمران خان کی بھی ہو سکتی۔ نواز شریف سے اقتدار چھین لیا جائے یا عمران خان کو اقتدار نہ دیا جائے۔ دونوں قربانیاں ہیں۔ قربانی دینے کا کلچر اب ختم ہو گیا ہے۔ صرف فوج کے جوان اور افسران ہر وقت قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں۔ میرے خیال میں فوج میں بھرتی ہونا بھی قربانی ہے۔ سیاستدان تو قربانی کی صرف بات کرتے ہیں۔ قربانی دیتے نہیں قربانی لیتے ہیں۔ قربانی اچھی ہوتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ قربانی کوئی اور دے۔ ایک سیاستدان نما آدمی کہنے لگے میرے ہمسائے میں 40 مہمان آ جائیں تو مجھے پرواہ ہی نہیں ہوتی۔
نواز شریف نے سیلاب زدگان کے لئے دورے میں کہا ہے کہ جب تک بپھرے ہوئے پانیوں کا آخری قطرہ بھی سمندر میں جا کے نہیں گرتا میں چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ زیادہ سے زیادہ وہ چین چلے جائیں گے۔ بے تحاشا پانی کا قطرہ قطرہ ہم ڈیم بنا کے محفوظ کر سکتے تو وہ انرجی اور شادابی کے کام آتا۔ تباہی کی بجائے ترقی۔ ہم نے پچاس برس میں ایک ڈیم بھی نہیں بنایا۔ پارلیمنٹ نواز شریف کی وزارت عظمیٰ بچانے کے لئے تو متحد ہو سکتی ہے۔ سیاستدان اپنے مفادات کے لئے اٹھارویں ترمیم منظور کر سکتے ہیں مگر کالا باغ ڈیم بنانے کے لئے اکٹھے بیٹھ کر فیصلہ نہیں کر سکتے۔ کالا باغ ڈیم ہماری زندگی ہے۔ پاکستان کا مستقبل اس کے ساتھ وابستہ ہے۔ یہ بنا بنایا ڈیم ہے۔ جو لوگ کالا باغ ڈیم ابھی نہیں بنانے دیتے کیا وہ پاکستانی ہیں۔ اس کا نام پاکستان ڈیم رکھ دیں۔ صدر زرداری ہر وقت بے نظیر بھٹو شہید کی تصویر اپنی جیب میں رکھتے تھے۔ وہ کالا باغ ڈیم کا نام بے نظیر ڈیم رکھ دیتے اور میں یہ اعلان کرتا۔ تقریر سے تقدیر نہیں بدلتی۔ مگر تصویر سے تقدیر بدل جاتی ہے۔ کالا باغ میانوالی میں ہے۔ میانوالی پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی سرحد پہ ہے۔ میں نے لکھا تھا کہ میانوالی سے کالا باغ کو الگ کر کے خیبر پختونخوا میں شامل کر لو مگر کالا باغ ڈیم بناﺅ۔ بھارت نے بہت سے ڈیم مقبوضہ کشمیر میں ہمارے دریاﺅں پر بنائے ہیں۔ مگر بھارت میں کسی صوبے نے مخالفت نہیں کی۔ ہم یہ سوچیں کہ اگر کچھ نقصان بھی ہوتا ہو تو پاکستان کے وسیع تر مفاد میں اسے قبول کرنا چاہئے اور کالا باغ ڈیم سے تو کوئی ذرا بھر نقصان کا خطرہ بھی نہیں ہے۔ میانوالی کے اورنگ زیب نیازی نے اپنے آپ کو کالا باغ ڈیم کے لئے وقف کیا ہوا ہے۔ پرویز اشرف جیسے لوگ کہتے ہیں کہ اب یہ معاملہ خارج از امکان ہو چکا ہے۔ عمران خان بھی کالا باغ ڈیم کے حق میں نہیں ہے مگر مجھے امید ہے کہ کالا باغ ڈیم ضرور بنے گا۔ سندھ کے بھارتی ایجنٹ کہتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم بن گیا تو ہمیں پانی ملے گا مگر یہ ”پھوکا“ پانی ہو گا۔ بجلی نکال کر پانی دیا جائے گا تو پانی میں کیا رہ جائے گا۔ یہ ہوتا ہے عذر گناہ بدتر از گناہ۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024