نجانے کئی خواتین و حضرات عمران خان کی شادی کے لیے کیوں پریشان ہیں۔ اس سے پہلے شیخ رشید کی شادی کے لیے بھی بہت لوگ بے قرار تھے۔ عمران خان نے دو شادیاں تو کیں۔ دونوں ناکام ہوئیں۔ اب تیسری کے کامیاب ہونے کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔
عمران کو اب ایک اور شادی کے لیے اداکارہ میرا نے مفت مشورہ دے دیا ہے کہ جمائما سے دوبارہ شادی کر لو۔ کیا وہ اس کے لیے امیدوار تو نہیں؟ اور یہ پیشکش کا انداز تو نہیں؟ عمران نے جمائما کو طلاق دی۔ نجانے کیوں طلاق دی؟ پاکستان کے لوگوں نے عمران کے اس اقدام کو پسند نہ کیا تھا مگر عمران خان کی سیاسی مقبولیت میں کچھ فرق نہ پڑا۔ ریحام خان کے ساتھ شادی کے بعد عمران کو احساس ہو گیا ہے کہ جمائما کے ساتھ اس نے زیادتی کی۔ طلاق ایسا جائز عمل ہے جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے۔
خوشگوار بات چلی ہے تو یہ بھی سنیے کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف کی بیٹی کا نکاح مسجد وزیر خان میں انتہائی سادگی سے پڑھایا گیا۔ یہ ایک حوصلہ افزا خبر ہے۔ ایسی مثالیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ عام طور پر عام لوگ مسجد میں نکاح کو ترجیح دیتے ہیں کہ اس طرح برکت ہوتی ہے۔ شادی کے بعد لوگ اس کا بھی خیال نہیں رکھتے کہ ہم نے اللہ کے گھر میں ایک ”معاہدہ“ کیا تھا۔ جب کوئی معروف آدمی اور وہ ہو بھی وزیر خارجہ تو ایسا کام اچھا بھی لگتا ہے۔ سارے حکمرانوں اور خاص لوگوں کو اس کی پابندی کرنا چاہئے۔
لیکن اس کے ساتھ یہ بھی خبر ہے کہ مسجد وزیر خان میں نمازیوں کو بھی داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ لوگوں کو دو گھنٹے تک روکا گیا۔ وہ بھی شامل ہو جاتے تو دعا کرتے اور دولہا دلہن کو فائدہ ہوتا۔ مولانا ذوالفقار نے نکاح پڑھایا۔ وزیر بلدیات منشااللہ بٹ‘ سپریم کورٹ کے فاضل جج شیخ عظمت سعید‘ سابق وزیر قانون فاروق ایچ نائیک امریکی قونصل جنرل ایلزبتھ اور عزیز و اقارب نے شرکت کی۔
”مجھے کیوں نکالا“ اب ایک محاورہ بن چکا۔ یہ بہت جلد ضرب المثل بن جائے گا جو دوسروں کو عبرت دلانے کے کام آئے گا۔ اب تو لوگ اس ایک جملے سے کئی جملے بنانے لگے ہیں۔ احتساب عدالت میں جب سکیورٹی والوں نے وفاقی وزیر احسن اقبال کو روکا تو وہ بڑے سیخ پا ہوئے اور انہیں نواز شریف یاد آ گئے۔ ”مجھے کیوں روکا“ ڈاکٹر عاصم کو گرفتار ہوئے بہت سا عرصہ ہو گیا۔ وہ اب ضمانت پر رہا بھی ہو چکے ہیں اور کہتے پھر رہے ہیں کہ ہر کسی سیاسی شخصیت اور کرپٹ آدمی سے گرفتاری میں اور اس کے بعد ایک جیسا سلوک کیا جائے۔ اس جملے کے بعد ان کا جو جملہ بہت معروف ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ ”مجھے کیوں پکڑا۔“ زرداری صاحب نواز شریف سے خفا ہوئے اور انہیں چھوڑ دیا گیا تو یہ بھی امکان تھا کہ وہ کہتے ”مجھے کیوں چھوڑا۔“ اب اگر کلاس روم سے شرارت یا کسی جرم کے لیے باہر نکال دیا جائے اور وہ کہے ”مجھے کیوں نکالا“۔ ٹیچر بے وقوف نہیں ہے کہ کسی لڑکے کو یونہی نکال دے۔ لڑکے نے کچھ تو کیا ہو گا۔ صرف لڑکے کی چیخ و پکار سے کام نہیں چلے گا۔ دوسری بات بھی سامنے آنے دو۔ اب نیب کے مقدمات کھل رہے ہیں تو انہیں ملتوی کرانے کے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ یہ جواب ہے اس سوال کا بلکہ سارے سوالوں کا کہ ”مجھے کیوں نکالا“۔ پانامہ اور اقامہ کے بعد کہیں پاجامہ کی بات بھی ہونے لگی تو پھر کیا بنے گا؟
مجھے ایک کتاب ملی ہے جس کا نام ”جیل کہانی“ ہے۔ افسانوں کے اس مجموعے کے مصنف جاوید راہی ہیں۔ ہمارے اردو ادب کی تاریخ جیل کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ اس کتاب کا انتساب پانچ آدمیوں کے نام ہے۔ زیادہ سے زیادہ دو تین آدمیوں کے نام انتساب ہوتا ہے۔ جناب ضیاءشاہد، ایم اے راحت، عبدالستار عاصم، جبارمرزا اور چودھری فیاض ظفر۔ جاوید راہی کو جناب ضیاءشاہد نے مائل کیا۔ یہ کتاب عبدالستار عاصم نے چھاپی ہے۔ ڈاکٹر قدیر‘ راقم الحروف، جبار مرزا، محمد فاروق چوہان اور عبدالستار عاصم نے جاوید راہی کے لیے اور جیل کہانی پر اپنی رائے دی ہے۔ جاوید راہی کی رہائی کا خیرمقدم کرتا ہوں۔
٭٭٭٭٭