اتنے دن کی غیرحاضری کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ میں لاہور سے باہر تھا اور کالم لکھنے کی کوئی صورت نہ تھی۔
’’خوشامد پر پابندی لگائی جائے‘‘ یہ جملہ دلیر، غیور اور بصیرت والے وزیر داخلہ کا ہے۔ انہوں نے وزیراعظم کے سامنے ایک اجلاس میں کہا کہ آپ کو معلوم ہے میں خوشامد کو پسند نہیں کرتا۔ وزیراعظم نواز شریف کے دوسرے دور میں بھی کابینہ اجلاس میں کہا تھا کہ میں خوشامد کے خلاف ہوں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ خوشامد نہ کرنے والے ہی آپ کے وفادار دوست ہیں۔ جنہیں آپ نے وزیر شذیر بنایا ہے ان میں سے کئی مشرف کے ’’وزیر باتدبیر‘‘ تھے۔
میں نے یہ باتیں آپ کے کان بھرنے والوں کی وجہ سے کہی ہیں۔ کیا زبردست بات چودھری نثار نے کی ہے کہ وزیراعظم صاحب آپ کا فرض تھا کہ کان بھرنے والے خوشامدیوں کو روکتے اور مجھے بھی بلاتے اور پوچھتے۔
انہوں نے کہا کہ اداروں کے ساتھ تصادم نہیں ہونا چاہیے۔ آج ہم اس مقام پر کھڑے ہیں؟ شاید چودھری صاحب کو بھی یاد ہو۔ مجھے یاد ہے کہ خود وزیراعظم نواز شریف نے یہ بات سنائی تھی۔
’’یہ نعرے میرے کان میں گونج رہے تھے۔ نواز شریف قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک آدمی بھی نہ تھا۔ بھاگنے والوں میں وہ آدمی بھی تھے جو آج کل نواز شریف کے آگے پیچھے کھڑے ہیں۔
ایک آدمی کو تو میں جانتا ہوں۔ کوئی مشیر ہے۔ جب مریم نواز یعنی حکمران فیملی جوڈیشل اکیڈمی آ رہے تھے تو وہ ٹریفک کانسٹیبل کے فرائض انجام دیتے ہوئے بڑے مستعد نظر آ رہے تھے۔ جے آئی ٹی کو دھمکیاں بھی دیں توہین عدالت کے مرتکب ہوئے۔ وہ اصل میں توہین حکومت کے مرتکب ہو رہے تھے۔
کرپشن کی طرح خوشامد بھی اب ہمارا کلچر بن گیا ہے۔ ان دونوں عادتوں نے ہمیں برباد کر دیا ہے۔ اس کے برعکس چودھری نثار ایک بے مثال آدمی ہیں۔ یہی آدمی ہے جو وزیراعظم کو ٹوک سکتا ہے، روک سکتا ہے مگر وہ رکتے نہیں ہیں اور پھر پچھتاتے رہتے ہیں۔
چودھری نثار اور شہباز شریف نے وزیراعظم نواز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ اداروں کے ساتھ تصادم نہ کیا جائے۔ غالباً یہ بات بھی کہی گئی کہ نواز شریف قومی اسمبلی میں خطاب نہ کریں۔ مگر انہوں نے خطاب کی کوشش کی جس کا کوئی اثر کسی پر نہ ہوا۔
چودھری نثار نے یہ بھی کہا کہ میں نے کبھی آپ سے کچھ نہیں مانگا۔ صرف ایک بار وزیر خارجہ بننے کی خواہش کی تھی۔ کاش وہ ایسا کر دیتے۔ تو اب کر دیں۔ اب تو وزیر خارجہ ہی نہیں ہے۔ وہ خود وزیر خارجہ ہیں تو پھر مشیر خارجہ کیوں بنایا ہے۔ سرتاج عزیز میرے بزرگ ہیں مگر وہ بہت بوڑھے ہیں۔ روکھے پھیکے ہیں۔ وہ اپنے ساتھ کسی ہمکلام کو متاثر نہیں کر سکتے۔
نواز شریف بتائیں کہ وہ کس وقت وزیراعظم ہوتے ہیں اور کس وقت وزیر خارجہ ہوتے ہیں۔ باقاعدہ وزیر خارجہ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان تنہا اور حکومتی حوالے سے کمزور ہو گیا ہے۔
سنا ہے کہ وزارت خارجہ کے معاملات فوج والے بھی نبھاتے ہیں۔ یہ ہے تو چودھری صاحب سے زیادہ مناسب اور جینوئن وزیر خارجہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ سول کی طرح فوج میں بھی چودھری صاحب کی بڑی عزت ہے۔ نواز شریف اندر سے فوج کے حق میں نہیں ہیں تو پھر یہ ’’حکمت عملی‘‘ کیوں؟ وہ حکمت عملی کا کام بھی ’’حکومت عملی‘‘ سے لیتے ہیں۔ نواز شریف کی پوری کابینہ میں وزیر ایک ہی ہے او روہ وزیر داخلہ ہے۔ ایک آدھ کوئی اور بھی ہو گا۔ تقریباً سب کی کوالی فیکیشن ایک ہی ہے کہ وہ نواز شریف کے وفادار ہیں اور یہ فیصلہ نواز شریف نے کرنا ہے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔
اکادمی ادبیات کی طرف سے مجھے چھ کتابیں ملی ہیں۔ 1۔ سندھی دائی یعنی کافی، 2۔ ضمیر جعفری شخصیت اور فن، 3۔ … چینی افسانے، 4۔ رموز شعر 5۔ ناول کامن 6۔ادبیات اطفال۔ اس کے لیے چیئرمین اکادمی جناب ڈاکٹر پروفیسر محمد قاسم بھگیو کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ وہ جب سے اکادمی میں آئے ہیں کچھ نہ کچھ تخلیقی اور تحقیقی کام کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے بہت اہم اور بہترین کتابیں شائع کی ہیں۔ یہ کتابیں ایسی ہیں کہ ان پر الگ الگ تبصرہ کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں بھی میرا ارادہ ہے کہ بات آگے چلائوں۔ میرے کالم کی نوعیت سیاسی ہے مگر میں علمی و ادبی موضوعات کے لیے بھی بات کرتا رہتا ہوں۔
بہت مختلف اور بہت خوبصورت گیتوں پر مشتمل کتاب ’’گن گیان‘‘ مجھے برادرم علی اکبر عباس نے بھیجی ہے۔ یہ بھی ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کی ایک صورت ہوتی ہے۔
ایک جاپانی کہاوت ہے کہ دوست کے گھر کی طرف چلتے رہو ورنہ خودرو گھاس راستے مٹا ڈالے گی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کتاب کا نام ہی بہت منفرد خوبصورت اور بامعنی ہے۔ علی اکبر عباس کی تصویر بھی کسی ماڈرن صوفی کی طرح ہے۔ اس کے بال سفید ہیں مگر وہ بزرگ نہیں لگتا۔ اس کی ایک ٹھمری دیکھیں:
رات ڈھلی گوری تمرے پیتم نہیں آئے
ہار سنگھار سب کیے پورے
ساجن کے بن سارے ادھورے
آس بنی بن بن کے ٹوٹی
آج ہوئی سکھیوں میں جھوٹی