اسلام آباد کی یخ بستہ صبح کوکسی ایونٹ کی کوریج کیلئے جانا صحافیوں کیلئے ایک امتحان سے کم کام نہیں ہوتا۔ امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے پانچ پاکستانی صحافیوں کو صبح آٹھ بجے ملاقات کی دعوت دی تھی۔ آٹھ بجے امریکی سفارت خانہ میں پہنچنے کے لئے کم ازکم ایک ڈیڑھ گھنٹہ پہلے تیاری کیلئے درکار ہوتے ہیں۔ امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز ایک جہاندیدہ اور تجربہ کار سفارت کار ہیں۔ وہ اردن میں امریکہ کی سفیر رہ چکی ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ میں مختلف ادوار میں اہم عہدوں پر کام کر چکی ہیں۔ جنوبی ایشیا کے معاملات کو اچھی طرح جانتی اور سمجھتی ہیں۔ صحافیوں سے ملاقات اور ان کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جب 12 اکتوبر 1999ء کو نواز شریف کی حکومت ختم کر کے ملک میں مارشل لاء لگایا گیا تو وہ اسلام آباد میں موجود تھیں۔
ایلس ویلز ایسے وقت میں پاکستان کے دورے پر آئیں جب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات تلخ اور کشیدہ صورتحال کا شکار ہیں۔ کم و بیش پندرہ برس تک دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پارٹنرز رہنے کے بعد اب یہ پارٹنر شپ دباؤ کا شکار ہے۔ امریکہ کو افغانستان میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کیخلاف آپریشن میں پاکستان کی معاونت حاصل رہی ہے۔ پاکستان نے نائن الیون کے بعد امریکہ کو ہوائی اڈے فراہم کئے ہیں جہاں سے وہ افغانستان دہشت گردوں کیخلاف آپریشن کرتا رہا ہے۔ پاکستان امریکہ کے ساتھ انٹیلی جنس بھی شیئر کرتا رہا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے جب امریکہ کو پاکستان میں اڈوں کی سہولت فراہم کی تھی تو اس وقت کے کئی کور کمانڈروں نے بھی یہ سہولت امریکہ کو دینے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا‘ لیکن جنرل مشرف نے اپنے بعض کمانڈروں کے تحفظات کے باوجود یہ اڈے امریکہ کو فراہم کئے۔ نائن الیون کے بعد افغانستان میں دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان شروع سے ہی غلط فہمیاں پیدا ہوتی رہی ہیں۔ امریکہ کو شکوہ رہا ہے کہ پاکستان بعض دہشت گردوں کیخلاف اس شدت سے کارروائی نہیں کر رہا جس کے ساتھ اسے یہ کارروائی کرنا چاہئے۔ حقانی نیٹ ورک کے بارے میں امریکہ کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ پاکستان اس گروپ کے بارے میں نرم گوشہ رکھتا ہے‘ وہ اس گروپ کیخلاف کارروائی نہیں کر رہا۔ حقانی نیٹ ورک کے کارندے پاکستان میں منظم ہوتے ہیں اور افغانستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ پاکستان نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعہ شمالی وزیرستان میں جو آپریشن کیا اس میں پاکستان نے بلا تخصیص سب دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی اور ان کے ٹھکانے تباہ کئے ‘ لیکن اس آپریشن کے باوجود امریکہ کو اب بھی یہ گلہ ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک اور دوسرے گروپوں کیخلاف ٹھوس کارروائی نہیں کر رہا۔ جب افغانستان میں دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کیخلاف جنگ عروج پر تھی تو اس وقت امریکہ کے کئی سینئر فوجی عہدیداروں نے یہ الزام لگانا شروع کر دیا تھا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ ’’ڈبل گیم‘‘ کر رہا ہے۔ وہ حقانیوں کو ایک اثاثہ سمجھ کر ان کیخلاف کارروائی نہیں کر رہا۔ اس وقت سے اب تک امریکی بیانیہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تو اپنے مرغوب ہتھیار ٹویٹر کے ذریعہ جو پالیسی بیانات داغنے شروع کئے ہیں ان سے امریکی انتظامیہ کے لئے دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ صدر ٹرمپ کے ’’ٹوئیٹس‘‘ "Tweets" پر متعلقہ ملکوں اور حلقوں میں جو طوفان کھڑا ہوتا ہے اور امریکہ کو جو سفارتی نقصان ہوتا ہے اس کا ازالہ کرنے کے لئے امریکی محکمہ خارجہ اور دوسرے اداروں کو Damage control کے لئے آگے آنا پڑتا ہے۔ صدر ٹرمپ کا پاکستان کی افغان پالیسی کے بارے میں جو متنازعہ ٹویٹ سامنے آیا اس نے پاک امریکہ تعلقات کو بڑی زک پہنچائی ہے۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان کی فوجی اور معاشی امداد کی معطلی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ اس ٹویٹ پر پاکستان نے جو ردعمل ظاہر کیا اس کی شدت کو کم کرنے کے لئے پینٹاگون آگے آیا۔ امریکی سنٹرل کمان کے سربراہ نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو فون کر کے ایک طرح سے وضاحت کی کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کیخلاف تعاون کو جاری رکھنا چاہتا ہے اور وہ افغانستان میں امن قائم کرنے کے لئے پاکستان کے کردار کو بہت اہم سمجھتا ہے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز بھی پیر کو اسلام آباد پہنچی تھیں اور انہوں نے پاکستانی لیڈر شپ سے ملاقاتیں کر کے انہیں یقین دلایا کہ امریکہ پاکستان کو افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے بہت اہم سمجھتا ہے۔ منگل کی صبح صحافیوں سے گفتگو کے دوران ایلس ویلز سفارتی زبان میں بڑی چابکدستی سے یہ پیغام دے رہی تھیں کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان پارٹنر شپ قائم ہے‘ امریکہ انتظامیہ نے پاکستان کی امداد صرف معطل کی ہے ختم نہیں کی۔ ایلس ویلز نے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان سٹرٹیجک بات چیت جاری ہے۔ ایکس ٹیلرسن اور دوسرے امریکی عہدیداروں کے اسلام آباد کے دورے اس کا ثبوت ہیں۔ ایلس ویلز نے سفارتی زبان میں امریکہ کا یہ پیغام پھر دہرایا کہ پاکستان کو دہشت گردوں کے ان گروپوں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی جو پڑوسی ملکوں میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔ حقانی گروپ کا نام لئے بغیر انہوں نے بات کر دی۔ بھارت اور امریکہ کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر امریکی خاتون سفارت کار نے یہ تاثر دیا کہ بھارت کے ساتھ امریکہ کے تعلقات پاکستان کے ساتھ تعلقات کی قیمت پر نہیں ہیں۔ بھارت کے ساتھ مل کر امریکہ پاکستان کیخلاف کسی کارروائی پر غور نہیں کر رہا۔ ایلس ویلز نے اپنی گفتگو میں بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں کا ذکر کیا اور کہاکہ امریکہ بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی حمایت نہیں کرتا۔ ہم پاکستان کی آزادی اور سالمیت کے حامی ہیں۔ ایلس ویلز نے صحافیوں کے چھوٹے سے گروپ سے ڈھیر ساری باتیں کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی 70 سالہ تاریخ ہے۔ پاک امریکہ تعلقات کے اتنے پہلو ہیں کہ اس موضوع پر پی ایچ ڈی کی جا سکتی ہے۔ ایلس ویلز کے اس جملے پر مجھے پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندہ رچرڈ ہالبروک کا وہ فقرہ یاد آ گیا جو انہوں نے کئی سال پہلے اپنی زندگی میں پاکستانی صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا رچٹرڈ ہالبروک نے استفسار کیا تھا کہ کسی صحافی نے ڈینس ککس Dennis Kux کی کتاب پڑھی ہے جو اس نے پاک امریکہ تعلقات پر لکھی ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کس قدر پیچیدہ اور پہلو دار ہیں اور ان میں کتنے نشیب و فراز آتے رہے ہیں۔