کعبہ کس منہ سے جائو گے غالب، شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔۔ غالب کو کون بتائے کہ دنیا میں کوئی دوسرا مقام اور رشتہ بھی تو ایسا نہیں جو ہم بے حس مسلمانوں کو منہ لگائے۔ غالب مسجد کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھنے کی جرات نہ کر سکا اور ہم مسلمان حرم کعبہ میں بار بار داخل ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور اعمال پر شرمندہ بھی نہیں۔ کعبہ کی زیارت کا نشہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے: جب حضور نبی کریمؐ مکہ سے نکلے اور مکان جحفہ پہنچے تو آپ کو مکہ شریف کی جانب رغبت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ آیت نازل فرمائی (بیشک جس نے تم پر قرآن فرض کیا وہ تمہیں پھیر جائے گا جہاں پھرنا چاہتے ہو یعنی مکہ کی طرف‘‘۔
حضورؐ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس تشریف لائے توآپ نے اصیل غفاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا مکہ کو کیسا پایا تو آپ نے بعض اوصاف بیان فرمائے، پھر حضورؐ آئے اور آپ نے بھی پوچھا کہ مکہ کو تم نے کیسا پایا تو آپ نے کچھ اوصاف بیان کئے توآپؐ دل برداشتہ ہوئے اور فرمایا: اصیل بس کرو ہمیں مکہ شریف کے اوصاف بیان کر کے غمزدہ نہ کرو۔
سرورعالمﷺ جب ہجرت فرماکر مکہ مکرمہ سے جانے لگے تو فرمایا کرتے تھے: اے مکہ توخدا کا شہر ہے تومجھے کس قدر محبوب ہے،اے کاش تیرے باشندے مجھے نکلنے پر مجبور نہ کرتے تو میں تجھ کو نہ چھوڑتا۔
جب سرورعالمﷺ نے مدینہ منورہ کو وطن بنا لیا تو دعا میں فرمایاکرتے تھے: اے اللہ ہمارے اندر مدینے کی اتنی محبت پیدا کردے جتنی تونے مکہ کی محبت دی ہے۔ جب حضرت عثمانؓ صلح حدیبیہ کے موقع پر مکہ تشریف لے گئے تو نظروں کے سامنے بیت اللہ شریف تھا جس کے طواف کی حسرت میں سب مسلمان آئے تھے۔ قریش نے حضرت عثمانؓ سے کہا کہ ہم محمدؐ اور ان کے ساتھیوں کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ البتہ تم چاہو تو عمرہ کر لو حضرت عثمانؓ نے جواب دیا یہ کیسے ہو سکتاہے کہ میرے آقاؐ تو عمرہ نہ کریں اور میں کر لوں۔ ادھر حدیبیہ میں صحابہ کرامؓ نے اللہ کے نبیؐ سے عرض کیا یا رسول اللہؐ! عثمان کس قدر خوش قسمت ہیں کہ سب سے پہلے حرم کعبہ کا طواف کر رہے ہوں گے۔ ارشاد نبویؐ ہوا نہیں جب تک میں طواف نہ کر لوں عثمان بھی نہیں کریں گے۔ آقاؐ کی مکہ سے محبت اور بیت اللہ سے عشق کی کیفیات مکہ کی فضائوں میں آج بھی محسوس کی جا سکتی ہیں۔ تفسیر عزیزی میں نقل کیا گیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جب جنت سے زمین پر تشریف لائے تو بارگاہ الٰہی میں عرض کیا: ’’خدایا میں یہاں نہ تو ملائکہ کی تسبیح و تکبیر سنتا ہوں اور نہ کوئی عبادت گاہ دیکھتا ہوں جیسے کہ آسمان میں بیت المعمور دیکھتا تھا جس کے اردگرد ملائکہ طواف کرتے تھے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’جاؤ جہاں ہم نشان بناتے ہیں وہاں کعبہ بنا کر اس کے اردگرد طواف بھی کر لو اور اس کی طرف نماز بھی ادا کرو۔‘‘ حضرت جبرائیل علیہ السلام، آدم علیہ السلام کی رہبری کے لیے ان کے ساتھ چلے اور انہیں وہاں لائے جہاں سے زمین بنی تھی، یعنی کعبہ کی جگہ سے ہی سب سے پہلے زمین کی ابتدا ہوئی۔جبرائیل امین علیہ السلام نے وہاں اپنا پر مار کر ساتویں زمین تک بنیاد ڈال دی اور ہر چار طرف کو دیوار اٹھا دی، اس طرف منہ کرکے آدم علیہ السلام نماز پڑھتے رہے اور اس کا طواف بھی کرتے رہے۔ تب سے اب تک اور جب تک دنیا قائم ہے کعبتہ اللہ کا طواف جاری رہے گا۔
٭٭٭٭٭
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024