مشرف غداری کیس کے حوالے سے ایسا تماشہ لگا ہوا ہے کہ قلم اٹھاتے ہوئے مشرف کے سوا کوئی دوسرا موضوع ترغیبِ تحریر دیتا نظر ہی نہیں آتا۔ اگرچہ مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری کی جانب سے گزشتہ روز صحافیوں کو دی گئی بڑھک نما دھمکیوں نے بہت ورغلایا کہ آج بھی مشرف غداری کیس ہی کو موضوع سخن بنایا جائے مگر میں نے بھی آج ٹھان رکھی تھی کہ ”مشاہدہ¿ حق“ کی گفتگو میں آج مشرف کیس کو نہیں چھیڑوں گا۔ اخبارات کھنگالنے پر کوئی دوسرا موضوع سخن نہ بن پڑا تو اپنے پاس موجود بعض کتابوں کی ورق گردانی شروع کر دی۔ ”مشاہدات“ کے عنوان سے ایک تازہ شائع شدہ پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل کی کتاب کی ورق گردانی کی تو پھر اس کتاب کو مکمل پڑھے بغیر اس سے نگاہیں نہ ہٹ سکیں۔ کالم لکھنے کے لئے بیٹھا تھا مگر کتاب کے مطالعہ میں قلم دھرے کا دھرا رہ گیا اور پروفیسر آف سرجری کے نشتر پکڑنے والے ہاتھ میں قلم کی جولانیاں دیکھ کر مجھے رشک آنے لگا کہ نشتر کی مسیحائی نے قلم سے بھی نشتر کا کام لینے کے مراحل کس حُسن و خوبی سے طے کر لئے ہیں۔ کتاب کے مطالعہ سے پروفیسر خالد مسعود کے ہاتھوں کی مہارت کے گن بھی کھلے جن پر یہ شعر صادق آتا ہے
دل کو تھاما، ان کا دامن تھام کے
نکلے دونوں ہاتھ اپنے کام کے
پروفیسر صاحب نے بھی اسی طرح ایک ہاتھ میں نشتر اور دوسرے میں قلم تھام کر اپنے دونوں ہاتھوں سے ”حق بحقدار رسید“ کا عملی ثبوت پیش کر دیا ہے۔
بطور مشّاق سرجن تو پروفیسر خالد مسعود کا ایک زمانہ معترف ہے۔ ان کے گورنمنٹ کالج لاہور کے استاد اور ان کی طالب علمی کے دور کے سپرنٹنڈنٹ اقبال ہاسٹل پروفیسر نور محمد ملک نے ان کے طالب علمی کے دور والے ان کی ذات کے مشاہدے میں ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات والی خوب عکاسی کی ہے اور اپنی طبیعت کی سخت گیری کو اپنے باذوق، نفیس، ڈسپلنڈ اور ہونہار طالب علم خالد مسعود گوندل کے لئے نرم پایا ہے جبکہ ان کے طبی تعلیم کے استاد کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کے صدر پروفیسر ظفراللہ چودھری نے بھی حکومت پاکستان سے تمغہ امتیاز حاصل کرنے والے اپنے اس شاگردِ عزیز کو اپنا اور پیشہ طب کا تفاخر بنایا ہے مگر مجھ پر اس ماہر سرجن کی قلم کی جولانیوں کے گن کھلے ہیں تو مجھے ان کی ذات کے حوالے سے ایک اور طرح کی خوشگوار سی حیرت ہوئی ہے۔ میو ہسپتال لاہور کے ساﺅتھ سرجیکل وارڈ کے سربراہ کی حیثیت سے تو وہ گزشتہ سات سال سے ایشیا کے اس سب سے بڑے اور سب سے قدیم ہسپتال اور پیشہ طب کی نیک نامی کو بڑھا ہی رہے ہیں، اب انہوں نے انگریزی زبان میں حاصل کی گئی طب کی ثقیل تعلیم سے باہر نکل کر اردو زبان میں اپنے قلم کی روانی دکھا تے ہوئے اپنی ذات کے حوالے سے عملاً بادِ صبا کے تازہ اور معطر جھونکے کا احساس دلایا ہے۔ ان کی کتاب ”مشاہدات“ موضوعات کے اعتبار سے ایک ہمہ جہت ادبی شاہکار ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ پروفیسر خالد مسعود گوندل نے اپنی طبی مشّاقی کے باوصف دنیاوی معاملات میں بھی مشاہدہ¿ حق کے عمل سے گزرتے اور اس مشاہدے کو کتاب کے 240 اوراق میں سموتے ہوئے گویا سمندر میں ہر قسم کی نادر سیپیوں کو اپنی الگ الگ شناخت کے ساتھ یکجا ہونے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ چنانچہ یہ کتاب مغربی یورپی، ایشیائی اور عرب ممالک کا سفرنامہ بھی ہے، یادِ رفتگان کا مجموعہ بھی ہے، دین و ایمان کے روح پرور نظاروں کا شاہکار بھی ہے، طبی مشوروں کا نمونہ بھی ہے روحانیت اور ایقان کا عملی مظاہرہ بھی ہے، سرجری کی تعلیم سے مستفید ہونے کا ذریعہ بھی ہے اور سب سے بڑھ کر سفرِ آخرت میں اپنی عاقبت سنوارنے کا اہتمام بھی ہے۔ ”مشاہدات“ نے جہاں ثقیل پیشہ¿ طب کے شعبہ سرجری سے وابستہ ایک سنجیدہ انسان کے اندر موجود شگفتگی کو اُجاگر کیا ہے وہیں دنیاوی آلائشوں میں ان کے پائے استقلال میں کبھی کہیں کوئی لغزش پیدا نہ ہونے کی بھی گواہی دی ہے۔ اور تو اور انہوں نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے ادبی مجلہ ”کیمکول“ کو پنجابی زبان میں دئیے گئے اپنے انٹرویو کو اس کتاب کا حصہ بنا کر اپنی مادری زبان کا رکھوالا ہونے کا حق بھی ادا کر دیا ہے۔ جدید لیپرو سکوپک سرجری کے طریق علاج سے پِتّے کی پتھری، ہرنیا، اپنڈیکس کو نکالنے اور گردے، تِلی، انتڑیوں اور جگر کے جملہ امراض کے اس شفایاب علاج میں اپنی مہارات تسلیم کرانے والے اس ماہر سرجن اور طب کے استاد نے اب اپنے قلم سے نشتر کا کام لیا ہے تو اس میں بھی وہ اپنی مشّاقی کے جھنڈے گاڑتے نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے مشاہدات کے ایک باب میں رائے ونڈ تبلیغی اجتماع کے قائد حاجی عبدالوہاب کی سروسز ہسپتال میں نمونیا کے مرض کے علاج معالجہ کے دوران ادویات اور سرجری کے بغیر روحانیت، دعاﺅں، نوافل اور ان کے نیک اعمال کی برکات سے صحت یاب ہونے کی عکاسی کرتے ہوئے ذاتِ باری تعالیٰ کے مسیحائے دوعالم اور مسبب الاسباب ہونے کی جس انداز میں گواہی دی وہ اس کتاب کی بدولت انہی کا خاصہ رہے گا۔ اس سے قبل ہمارے محترم بھائی سینئر صحافی رفیق ڈوگر اپنی ذات کے حوالے سے علاج بذریعہ روحانیت و ایقان کے کارگر ہونے کی گواہی دے چکے ہیں جنہیں ان کی علالت کے دوران کے طبی ٹیسٹوں کی رپورٹوں کے ذریعے ٹانگ میں کینسر پھیلنے کی خبر سُنائی گئی اور باور کرایا گیا کہ ان کی ٹانگ کاٹ کر ہی ان کی زندگی بچائی جا سکتی ہے ورنہ ان کی زندگی بس اڑھائی ماہ پر محیط نظر آتی ہے۔ انہوں نے اپنے معالجین کے اس مشورے پر ٹانگ کٹوانے کے بجائے ذاتِ باری تعالیٰ کے آگے سر بسجود ہو کر اپنی صحت یابی کی دعا مانگی اور اپنی باقی ماندہ زندگی پیغمبر اسلام، نبی آخر الزمان حضرت محمد کی سیرتِ طیبہ لکھنے کیلئے مخصوص کرنے کا عہد کیا اور بسترِ علالت پر پڑے ہوئے ہی اس مشن کا آغاز کر دیا۔ ان کی دعا کو ذاتِ باری تعالیٰ کے حضور شرفِ باریابی ہُوا تو شرفِ قبولیت بھی عطا ہو گیا چنانچہ وہ معجزاتی طور پر بغیر سرجری اور بغیر کسی دوائی کے کینسر جیسے موذی مرض سے اس عرصے میں ہی صحت یاب ہو گئے جو ان کے معالجین نے ان کی اڑھائی ماہ کی باقی ماندہ زندگی کا عرصہ بتایا تھا۔ انہوں نے سیرتِ طیبہ پر مبنی اپنی کتاب ”الامین“ کی چار جلدوں کی یکے بعد دیگرے اشاعت کے تمام مراحل بحُسن و خوبی طے کئے جو یقیناً ان کی جانب سے ایک صدقہ¿ جاریہ ہے۔ یقیناً ایسے ہی معجزاتی مراحل میں حاجی عبدالوہاب کو بھی ذاتِ باری تعالیٰ نے ادویات اور سرجری کے بغیر شفا بخشی جس کی پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود نے اپنی کتاب ”مشاہدات“ میں پورے عجز و نیاز کے ساتھ گواہی دی ہے۔
مجھے ”مشاہدات“ کا مطالعہ کرتے ہوئے پروفیسر خالد مسعود کی دنیاوی زندگی کے بارے میں بھی تجسّس تھا اور میرا گمان تھا کہ میرے اس تجسّس کا جواب ان کے دورہ¿ تھائی لینڈ کے تحریر کردہ مشاہدات میں ضرور ملے گا۔ انہوں نے ایک عالمی طبی کانفرنس کے سلسلہ میں پانچ روز تک تھائی لینڈ کے ساحلِ سمندر پر آباد شہر پتایا میں قیام کیا اور اس قیام کے دوران اس شعر کی حقانیت کو غلط ثابت کر دیا کہ
ہرچند ہو مشاہدہ¿ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
وہ ”خدا کی شان“ دیکھنے کے مراحل میں بھی کعبہ سدھارے ہوئے ”شیخ“ کی طرح خدا کا گھر دیکھتے ہی نظر آئے۔ چنانچہ ان کی ذات کے حوالے سے ان کی کتاب کے مطالعہ کا یہی حاصل ہے اور ان کے لئے اس سے بڑا حصول اور کیا ہو سکتا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024