سلیم بخاری صاحب نے سو فیصد درست تجزیہ کیا ہے کہ یہ آزادی اور انقلاب مارچ نہیں بلکہ لگژری مارچ ہیں۔ آپ اندازہ لگائیے عمران خان نے جس کنٹینر میں بیٹھ کر آزادی مارچ کی قیادت کی وہ ان کی اپنی پارٹی کے ذرائع کے مطابق ڈیڑھ کروڑ روپے کی لاگت سے آراستہ کیا گیا ہے۔ بیڈ، باتھ، کچن، ریوالونگ چیئرز، ڈائننگ ٹیبل اور دوسرے لوازمات کے ساتھ دو ہائی کوالٹی کے ائر کنڈیشنر اور پھر پورے مارچ کے دوران اس کنٹینر کے اندر ٹھنڈک برقرار رکھنے کی خاطر ڈیزل سے بھری دو گاڑیاں ’’لف ہذا‘‘ ہیں۔ اتنی آراستگی کے باوجود ہمارے قومی قائد عمران خان صاحب کو کنٹنیر میں دس بارہ گھنٹے گزارتے ہوئے بنی گالا والے فرنشڈ گھر والا سکون میسر نہ آ سکا چنانچہ اسلام آباد پہنچنے سے پہلے وہ بنی گالا سدھار گئے، ان کے لئے آزادی مارچ کا دم بھرنے والے عوام جائیں بھاڑ میں۔
اور پھر ذرا ملاحظہ کیجئے علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے اندازِ انقلاب کا۔ ان کا کنٹینر دو کروڑ روپے کی لاگت سے ان کی شایان شان تیار ہو پایا۔ اس ٹھنڈے ٹھار کنیٹنر میں ان کے لئے زندگی کی جن سہولتوں کا اہتمام کیا گیا، ان کے اشارۂ ابرو پر ان کا دم بھرتے انقلاب مارچ کے حصہ بننے والے بے چارے سادہ لوح کارکن اپنی زندگیوں میں ایسی سہولتوں کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ موازنہ کرتے ہیں مائو کے لانگ مارچ کے ساتھ اور اپنی خواہشات کا ایندھن بنانے والے کارکنوں کے ساتھ ان جیسے حالات میں ایک رات بھی بسر نہیں کر سکتے ’’دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کُھلا‘‘۔ پھر ان دونوں حضرات کے اعلانات اور ایجنڈے کو دیکھیں تو عوام کے بجائے یہ اپنی ہی حالت سنوارنے کا ایجنڈہ نظر آئے گا۔ اس آزادی مارچ کے حوالے سے عمران خان کی مچلتی خواہش تو ان سے رک ہی نہیں پا رہی۔ انتخابی مہم کے دوران پبلک جلسوں میں وہ یہ دل پسند نعرہ خود بھی لگاتے اور اپنے کارکنوں سے بھی لگواتے رہے کہ ’’میاں صاحب جان دیو، ہن ساڈی واری آن دیو‘‘ ۔ اب اس مچلتی خواہش کا اظہار اسلام آباد دھرنے سے خطاب کے موقع پر ان کی زبان سے اُچھلتا باہر آ گیا کہ ’’وزیراعظم عمران خان آپ سے کبھی جھوٹ نہیں بولے گا‘‘ یعنی انہوں نے آزادی مارچ کے ذریعے اپنی وزارت عظمیٰ کی منزل کا بھی خود ہی تعین کر دیا۔ دن بھر بنی گالا کے محل میں گوجرانوالہ تک کی تھکاوٹ اتارنے کے بعد وہ رات کو نمودار ہوئے اور ورکرز کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی خاطر بارش میں بھیگتے تقریر کرتے ہوئے عہد کیا کہ اب میں یہیں آپ کے ساتھ رہوں گا مگر یہ عہد بھی نہ نبھا سکے اور بنی گالا کے گوشۂ عافیت میں ہی شب بسری انہوں نے ضروری سمجھی۔ اگر کسی نے انہیں دھرنے میں کارکنوں سے بلند مقام پر بیٹھے اپنے گیسو سنوارنے کے عمل کا مشاہدہ کیا ہو تو ان کا یہ عمل اس شعر کے مفہوم میں ڈھلتا نظر آئے گا کہ ؎
یہ اُڑی اُڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو
تیری صبح کہہ رہی ہے تیری رات کا فسانہ
ارے بھائی صاحب اگر آپ کا تبدیلی کا مطمع نظر وزارتِ عظمیٰ کا حصول ہے تو اسی سسٹم رہتے ہوئے ہوم ورک جاری رکھیں، آج اس سسٹم کی برکت سے ایک صوبے کے مالک و مختار بنے ہیں تو کل کو عوامی مینڈیٹ کے نتیجے میں وزارتِ عظمیٰ کا تاج بھی آپ کے سر پر سج سکتا ہے مگر آپ جس راہ پر چل نکلے ہیں اس میں تو آپ کے لئے خواری ہی خواری ہے۔ آپ بالفرضِ محال آج پارلیمنٹ پر دھاوا بول دیں، وزیراعظم ہائوس میں گھس جائیں تو کیا خیال ہے وزیراعظم ہاؤس میں پڑی وزارتِ عظمیٰ کی کیپ آپ کے سر پر سج جائے گی، جنہوں نے آپ کی زبان سے ٹیکنو کریٹ حکومت کا لفظ نکلوایا اس میں آپ کہاں فٹ ہوتے ہیں۔ آپ قوم کو بوٹوں کی چاپ سنوانا چاہتے ہیں تو اگلی دہائی تک پھیلتی اس چاپ میں وزارتِ عظمیٰ کا تاج پہننے کی مچلتی خواہش میں آپ کی ’’عمریا‘‘ بیت جائے گی۔ آپ کی مضمحل زندگی تو ابھی سے غالب کے اس شعر کی تصویر بنی ہوئی ہے کہ ؎
مضمحل ہو گئے قویٰ غالب
اب عناصر میں اعتدال کہاں
سترے بہترے ہو کر تو آپ وزراتِ عظمیٰ کی مچلتی خواہش پوری نہ ہونے پر اپنی اس حسرت کا اظہار کرتے ہی نظر آئیں گے ؎
ہاتھوں میں نہیں سکت گر، آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے
پھر اس سسٹم میں آپ کو جو ملا ہے خٹک ڈانس والے پرویز خٹک کی صورت میں، تو فی الحال اس پر قناعت کئے رکھئے، اس صوبے میں اپنی حکمرانی کو مثال بنائیے اور اس کی بنیاد پر آئندہ انتخابات میں اپنی وفاقی حکمرانی کی راہ نکالئے مگر آپ تو وہ ’’ٹھوٹھا‘‘ ہی گراتے نظر آتے ہیں۔ آپ کی حکومتی حلیف جماعت اسلامی پینترا بدل رہی ہے تو پھر ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو‘‘ جارحیت کرو گے تو اس ذریعے سے جن کی راہ ہموار ہو گی وہ آپ سمیت پوری سیاست کو لپیٹیں گے، رہے علامہ تو ان کا تو کچھ بھی دائو پر نہیں لگا ہوا، نہ ان کی آئندہ کے لئے پاکستان کی انتخابی سیاست میں حصہ لینے کی نیت ہے نہ وہ اور ان کا خاندان کینیڈین نیشنلٹی کے باعث اس کے لئے کوالیفائی کرتا ہے۔ پھر وہ کسی برتے پر پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں سمیت پورے سسٹم کوگھر بھجوانے، حکمرانوں کو 48 گھنٹے کے اندر اندر استعفے دینے کے تقاضے کر رہے ہیں اور انکی گرفتاریوں کا حکم صادر فرما رہے ہیں۔ اس اتھل پتھل ایجنڈے سے ملک و قوم کو کتنا بھاری نقصان ہو رہا ہے اس کا اندازہ آج کی صرف ایک خبر سے لگائیے کہ ایک ہفتے کے دوران صرف کراچی سٹاک مارکیٹ میں ایک کھرب 20 ارب روپے کا خسارہ ہوا ہے پھر عوام کس کو کوسیں، کس کو روئیں، وہ تو بھاری مینڈیٹ والے اپنے حکمرانوں سے بھی نکو نک ہو چکے ہیں جنہوں نے ان کی محرومیوں میں اضافہ کر کے انہیں راندۂ درگاہ بنایا جبکہ حکومتی بداعمالیوں کے خلاف انہی مقہور عوام کو استعمال کرتے ہوئے عمران و قاردی بھی اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کی خاطر احتجاجی دھرنوں اور جلوسوں کے ذریعے انہی عوام کا ناطقہ تنگ کر رہے ہیں۔ بھئی جائیں تو جائیں کہاں۔ آپ جتنے لمحات سیاسی تماشہ لگائے رکھیں گے وہ سارے لمحات عوام پر بھاری گزریں گے اور آپ کی تماشہ گری نے پھر ماورائے آئین اقدام کو راستہ دے دیا تو پھر نہ رہے گا بانس نہ رہے گی بانسری۔ اُچھل کود کرتے شیخ رشید اور باچھیں کِھلاتے چودھری برادران کو تو شاید دربار شاہی میں کسی وزارت کی بھیک مل جائے مگر عمران جی آپ کی وزارتِ عظمیٰ ’’توبہ توبہ خدا خدا کیجئے‘‘ پھر کیوں آپ لٹیا ڈبونے کے درپے ہیں۔ آپ اپنے مطالبات پر بارگیننگ کرتے کرتے بلدیاتی انتخابات کی تاریخ لے آئیے، انتخابی دھاندلیوں والے آپ کے الزام پر پہلے ہی جوڈیشل کمشن کی تشکیل کے لئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو درخواست کی جا چکی ہے، بس آپ طاہر القادری کی فسادی سیاست سے اپنا دامن بچاتے رہئیے کیونکہ سسٹم کا بوریا بستر لپیٹنے سے آپ کی سیاست کا بوریا بستر بھی لپٹ جائے گا۔ آپ سسٹم میں رہ کر اصلاحی ایجنڈے کی وکالت کریں گے تو عوام سے بھی پذیرائی پائیں گے بصورت دیگر ’’راج کرے گا خالصہ تے آکی رہے نہ کو‘‘۔ آپ کی لاحاصل دھما چوکڑی سے نقصان ہی نقصان ہے جس میں زیادہ نقصان آپ کے حصے میں ہی آئے گا کیونکہ بحالی جمہوریت کی دس سالہ جدوجہد آپ کا انجر پنجر ہلا دے گی۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024