میرا ارداہ تویہ تھا کہ یہ ملاقات ایک محفل کی شکل اختیار کر لے، مگر ضروری نہیں ہر ارادہ پورا ہو جائے، پندرہ سولہ دوستوں کو دعوت دی، چار نے معذرت کی ،دو نے آنے کی حامی بھری اور چھ سات نے خاموشی اختیار کی ، دل اچاٹ ساہو گیا، گورنمنٹ کالج کے دنوں سے محفل بازی کا جنون ہے، مجلس اقبال کا متواتر دو برس سیکرٹری جنرل بنا، ایسا بہت کم ہوتا ہے بلکہ ہوتا ہی نہیں، پورے سال کے ہفتہ بھر اجلاسوں کا پروگرام ترتیب دے کر چھاپناپڑتا تھا، نیشنل بنک کے موجودہ صدر سعید احمد چمن کی رفاقت میسر تھی ، سو ہر مرحلہ طے ہوتا چلا گیا، مگر اب وہ میری کچھ سنتے نہیں۔
کوئی تیس برس سے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ہر ویک اینڈ پر دوستوں کو جمع کرتا ہوں مگر شاید کہیں نہ کہیں تھکن طاری ہو گئی ہے، سو اس بار اپنے مہمان کے سامنے میں اکیلا بیٹھا تھا۔
اوریانا فلاسی نے تاریخ سے انٹرویوز کرکے نام کمایا، میں تاریخ سے ملاقات کر کے نامور ہستیوں کا کھوج لگانا چاہتا ہوں، تاریخ کا ذکر آیا تو آج دل دکھی ہے، وہ ایک مئورخ تھا مگر اس نے تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا ، لاہور کی سرزمین پر مارچ انیس سو چالیس کی علامت کے طور پر ایک مینار کھڑا کیا، وقت نے اسے مینار پاکستان کے نام سے یاد رکھا ہے۔ مختار مسعود محض ایک سرکاری افسر ہی نہ تھے، زبر دست قلم کار ، آواز دوست، ایام اور سفر نصیب نے انہیں شہرت دوام بخشی، ایران کے انقلاب اسلامی کو اپنی آنکھوں سے تہران میں نمودار ہوتے دیکھا۔مگر اب وہ خود تاریخ کی کہکشائوں کا حصہ بن چکے ،خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔
مارچ انیس سو چالیس سے یاد آیا کہ اسلام آباد کے سیکرٹریٹ کے ایم بلاک میںپاکستان کے جو عجائبات اور نوادرات محفوظ ہیں، ان میں ایک تصویر بھی ہے جو قرارداد پاکستان کی منظوری کے مرحلے پر مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے ارکان کی گروپ فوٹو ہے، ا نہی ارکان نے قرارداد کا مسودہ ڈرافٹ کیا۔ ان ارکان کی تصویر میں سبھی کے نام لکھے ہیں،درمیان میں قائداعظم ایستادہ ہیں، ان کے ساتھ کندھا ملائے ملک برکت علی ہیں، دائیں بائیں مسلم لیگ کے اکابرین موجود ہیں، تصویر کے کیپشن میں دو افراد کے بارے میں نامعلوم لکھا ہے، یہ ہے ہماری تاریخ دانی کا نمونہ۔آج کل اس تاریخی ورثے کی حفاظت کا فریضہ ہمارے دوست عرفان صدیقی کے سپرد ہے، ان کی آنکھوں کا آپریشن ہوا ہے، خدا کرے وہ جلد صحت یاب ہوںاور قومی تاریخ کے اس اہم ترین مرحلے کونامعلوم نہ رہنے دیں، اس تصویر کی ہر ٹی وی چینل پر تشہیر کی جائے ، کوئی تو اپنے آبائو اجداد کوپہچان پائے گا اور ہم نامعلوم سے معلوم کی طرف سفر کر سکیں گے، مجھے یہ تصویر میرے مہمان ڈاکٹر محمود شوکت نے دکھائی، جس شخص کا عمر بھر پیشہ ڈاکٹری رہا ہو، وہ چند ہفتے پہلے علامہ ا قبال میڈیکل کالج کے پرنسپل کے عہدے سے ریٹائر ہو اہو، اسے تاریخ کے اوراق چھا نتے ہوئے یہ تصویر نظر آ جائے تو وہ بھی حیرت یا شرم کے مارے دانتوں تلے انگلیاں دبانے پر مجبور ہو جاتا ہے، اور وہ مجھ سے پوچھتا ہے کہ ہماری تاریخ نامعلوم کے گرد آلود سیاہ غلاف میں کب تک لپٹی رہے گی۔
ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے میں نے پانچ اپریل کو ملک برکت علی پر ایک کالم لکھا، ڈاکٹر محمود شوکت کا تعلق تیسری نسل سے ہے۔ وہ ملک صاحب کے پوتے ہیں اور اپنی جڑوں کی تلاش کا سفر طے کر رہے ہیں۔ملک برکت علی انیس سو چھتیس کے الیکشن میں مسلم لیگ کی طرف سے اگلے دس برس کے لئے واحد رکن منتخب ہوئے۔ انیس سو چھیالیس میں وہ دوبارہ منتخب ہوئے۔ ایوان میں بیاسی مسلم لیگی اور بھی آ گئے تھے، قائد اعظم نے ملک برکت علی کو اسپیکر کے منصب کے لئے نامزد کیا ، انہیں تراسی ووٹ درکار تھے مگر ووٹنگ ہوئی تو ان کے بکسے سے صرف اٹھہتر ووٹ نکلے، چار مسلم لیگی ارکان نے بھی انہیں ووٹ نہیں دیا تھا۔ یہ تھا سلوک چھیالیس کی اسمبلی کے مسلم لیگی ارکان کا اپنے قائد کے ساتھ۔ یہ لوگ مسلم لیگ میں نو وارد تھے، کوئی جاگیردار تھا، کوئی وڈیرہ، کوئی انگریز کا مالشیا، یہی لوگ آزادی کے بعد حکومت پر حاوی ہو گئے، نہرو کی کانگرس نے اعلان کیا تھا کہ وہ آزادی کے بعد جاگیریں ضبط کر لے گی، سو ہمارے جاگیر داروں نے مسلم لیگ پر قبضہ جما لیا، ان کے ہوتے ہوئے کس کی مجال تھی کہ جاگیریں ضبط کرنے کا فیصلہ کر سکتا، یہ آج بھی ہماری سیاست پر حاوی ہیں ، جو جاگیردار نہیں، وہ جاگیردارانہ ذہنیت کا مالک ہے۔اور پاکستان کو اپنی جاگیرسمجھ بیٹھا ہے بلکہ جاگیر کے طور پر استعما ل کر رہا ہے۔
ڈاکٹر محمود شوکت اسلام ا ٓباد کے ایم بلاک سے سر پٹخ رہے ہیں۔اور تاریخ کے ایک ایک بوسیدہ ورق کو کھنگال رہے ہیں، انہیں اپنے دادا کے کردار کا کھوج لگانا ہے، وہ ملکی بیورو کریسی کو دادد یتے ہیں جس نے تحریک پاکستان کا ورق ورق محفوظ کر رکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو اپنے دادا ملک برکت علی اور قائد اعظم کے مابین مکمل خط و کتابت دستیاب ہو گئی ہے۔ پنجاب اسمبلی کے ریکارڈ سے انہوںنے ملک صاحب کی تما م تقاریر کے مسودے نکلوا لئے ہیں۔دس سال تک پورے ایوان میں ایک ہی اپوزیشن رکن تھا ، اورا س نے وہ تقاریر کیں جو پارلیمانی تاریخ کے نصاب کا حصہ بن سکتی ہیں، اور آج کے پارلیمان کے لئے مشعل راہ ثابت ہو سکتی ہیں، ڈاکٹر صاحب نے میری یہ تجویز منظور کر لی کے وہ اپنے داد ا پر لکھی جانے والی کتاب کو تین حصوںمیں تقسیم کریں گے، ایک میں خط و کتابت، دوسرے میں اسمبلی کی تقاریر اور تیسرے میں سیاسی جدوجہد۔
محترمہ فاطمہ جناح کی صدارتی مہم کا دفتر ملک برکت علی کے گھر قائم ہوا، لاہور ہی کے احمد سعید کرمانی ایوب خان کے سرگرم اسپورٹر تھے، وہ مارشل لا حکومت میں وفاقی وزیر اطلاعات بھی تھے۔صدارتی الیکشن کارزلٹ آیا اور ایوب خان کی بھاری جیت کا اعلان ہوا تو احمد سعید کرمانی نے ایک ہجوم کے ساتھ ملک برکت علی کے گھر کے سامنے انتقامی طور پر گھنٹوں تک آتش بازی کا مظاہرہ کیا۔ یہ تھا کنونشن مسلم لیگ کا کردار ایک کھرے اور سچے مسلم لیگی اور قائداعظم کے ساتھی سے۔ منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔
ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ ان کے پاس ایک جرمن خاتون آئی ، وہ پنجاب میں مسلم لیگ کے عروج پر تحقیقات کر رہی تھی، ڈاکٹر صاحب نے اپنے کاغذات کا پلندہ اس خا تون کے حوالے کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد اس خاتون کی تحقیق مکمل ہو گئی تو ا سنے اپنی طبع شدہ کتاب کا ایک نسخہ ڈاکٹر صاحب کو ارسال کیا، اس کے ایک صفحے پر یہ فقرہ لکھا تھا جسے خاتون نے اپنے قلم سے نشان زد کیا تھا کہ پنجاب مسلم لیگ کی دو شخصیات کو نہیں خریدا جا سکتا تھا، ایک قائد اعظم اور دوسرے ملک برکت علی۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ۔
قومی تاریخ کے ایک روشن باب سے یہ ایک نامکمل اور ادھوری سی ملاقات تھی۔مگر اگلی ملاقاتوں کے در اور ماضی کے دریچے وا ہو گئے۔
ملک میں تحریک پاکستان اور بانیان پاکستان پر تحقیق کے لئے نجی شعبے نے کچھ نہیں کیا، سرکاری ادارے گرانٹ کے لئے للچاتے ہیں اورمل جائے تو اسے ہڑپ کر کے دمج لیتے ہیں۔میں اور دوسرے کالم نویس سیٹھوں کی نیکیوں کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتے مگر کیا یہ لوگ اپنے اپنے طور پر قومی تاریخ کو مرتب کرنے کا کام شروع نہیں کر سکتے، علیم خان، ملک ریاض ، ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب کے بیس چنیوٹی ہیروز،یا افتخار سندھو، سبھی یہ کام کر سکتے ہیں مگر اس طرف کوئی ان کی توجہ دلانے والا نہیں۔ سو وہ لنگر چلاتے ہیں اور خوش رہتے ہیں۔اب تو ہمارے دوست خوشنود علی خان بھی اپنے گائوں نکا کہوٹ میںلنگر چلا رہے ہیں، مگر یہ جو قومی تاریخ کا بیڑہ متلاطم پانیوں میں لنگر انداز ہے، اس کا بھی کوئی والی وارث بن پائے گا؟
٭٭٭٭٭
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024