یہ بات تو صاف ہے کہ وزیرِ اعظم نواز شریف نے سابق صدر زرداری کو ظُہرانے پر نہیں بلکہ مشورے کے لئے وزیرِ اعظم ہائوس میں مدّعو کِیا تھا اور مشاورت کے دَوران جب وقت طُعام آیا تو مہمان ِ عزیز اور اُن کے مُشیرانِ عزیز کی پلائو، مرغ کری، سیخ کباب، ملی جُلی سبزی اور روٹی سے تواضع کی گئی۔ سوِیٹ ڈِش کیا تھی؟۔ خبر میں نہیں بتایا گیا۔ اِس طرح کی خبریں اِس لئے منظرِ عام پر لائی جاتی ہیں کہ ، عام لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ ، اُن کے قائدین کھانے میں کیا کیا پسند کرتے ہیں؟۔ قائدِ اعظم ؒ کے ایک ڈرائیور محمد حنیف آزادؔ۔ بعد میں فلم ایکٹر بن گئے تھے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’قائدِ اعظم ؒ آلو قیمہ اور دال ماش بہت شوق سے کھاتے تھے‘‘۔حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ارکان جب طالبان سے ،مذاکرات کے لئے گئے تھے تو خبر شائع ہُوئی تھی کہ’’اُن کی تواضع دُنبے کے گوشت سے کی گئی تھی‘‘ لیکن یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ دُنبہ ’’سجّی‘‘ کی صُورت میں تھا یا’’کھبّی‘‘ کی شکل میں۔
بہر حال جنابِ آصف زرداری اور میاں نواز شریف کی ملاقات کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ۔ ’’بہت کامیاب رہی اور جنابِ زرداری اور میاں صاحب میں ایک بار پھر اتفاق ہوگیا ہے کہ ’’وہ جمہوریت کوپٹڑی سے نہیں اُترنے دیں گے‘‘ 14مئی 2006ء کو جب لندن میںمحترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے’’میثاقِ جمہوریت‘‘ پر دستخط کئے تھے تو پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی’’میثاقِ جمہوریت‘‘ کا مقصد پاکستان میں جمہوریت کو پٹڑی پر لانا اور چلانا تھا۔پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کا۔ صدر جنرل پرویز مشرف سے ۔’’میثاقِ مفاہمت‘‘۔ ہو گیا۔ جِسے۔"N.R.O"۔ کہا گیا۔ یہ۔ میثاقِ جمہوریت‘‘۔ ہی تھا کہ، محترمہ بے نظیر بھٹو، جناب آصف زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی اور کئی دوسری پارٹیوں کے دوسرے قائدین اور کارکنوں کے خلاف فوجداری مقدمات لے کر جمہوریت کو پٹڑی پر ڈال دیا گیا۔جناب آصف علی زرداری کے 5سالہ دَورِ حکومت میں جمہوریت کی گاڑی کو نئے سِرے سے پٹڑی پر چڑھایا گیا اور جمہور ہر پلیٹ فارم پر گاڑی کو چلتے دیکھ کر تالیاں بجاتے رہے۔ جیسا کسی شاعر نے کہا تھا؎
’’جُگنو میاں کی دُم جو چمکتی ہے رات کو
سب دیکھ دیکھ اُس کو بجاتے ہیں تالیاں‘‘
فرق یہ ہے کہ جُگنو میاں کی دُم تو محض رات کو چمکتی ہے لیکن’’ جمہوریت کی دُم‘‘ تو دِن میں چمکتی ہے۔ جنرل ضیاء الحق اقتدار میں آئے تو انہوں نے کہا تھا کہ ’’مَیں جب بھی بُلائوں گا سیاست دان اپنی اپنی دُم ہلاتے ہُوئے، میرے پاس چلے آئیں گے‘‘۔ اُس دَور میں پتہ چلا تھا کہ’’سیاستدان بھی’’دُم دار‘‘ ہوتے ہیں۔ پھر ہُوا یوں کہ جنرل ضیاء الحق نے کئی سیاستدانوں کو سرکاری خرچ پر’’دُم دار‘‘ بنا دِیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دربار میں اپنی اپنی دُم ہلانے والے سیاستدان اب وزیرِ اعظم نواز شریف کے سیاسی اُفق پر’’دُم دار ستارے‘‘ بن کر چمک رہے ہیں۔ سیاسی اتحاد اور ملاقاتیں کچھ دو اور کچھ لو کے’’اصول‘‘ کے تحت ہوتی ہیں۔
جنابِ زرداری ۔ اُن کے دونوں وزرائے اعظم یوسف رضاگیلانی اور راجا پرویز اشرف تین دوسرے’’پِیرانِ عُظّام‘‘ مخدوم امین فہیم، مخدوم شہاب اُلدّین اور صاحبزادہ حامد سعید کاظمی اور سینکڑوں۔ بقول قمر لدھیانوی (مرحوم)؎
’’کِس کِس پہ یہاں عِشق کا الزام نہیں ہے؟‘‘
سب ضمانت پر ہیں۔ کیا قِسمت پائی ہے۔ جنابِ جہانگیر بدر کے برادرِ نسبتی 82ارب روپے غبن کرنے والے توقیر صادق جیل سے چھُوٹ کر بے خوف و خطر آرام دہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اب جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی پر رکھنے اور چلانے کے لئے جنابِ زرداری خلوصِ دِل سے وزیرِ اعظم کو پیشکش کر دی ہے تو وزیرِ اعظم کو بھی ’’اخلاقی اور سیاسی تقاضوں‘‘ کو پُورا کرنا ہوگا۔ ایک N.R.O اور سہی۔
جنابِ زرداری۔ وزیرِ اعظم سے ملاقات میں قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کے قائد سیّد خورشید شاہ اور سینٹ میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر میاں رضا ربّانی کو ساتھ لائے تھے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈرز ۔چودھری نثار علی خان اور راجہ ظفر الحق شاید اپنی’’نجی مصروفیات‘‘ کی وجہ سے حاضر نہیں تھے۔ وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف اور وزیرِ ریلوے خواجہ سعد رفیق بھی نہیں تھے۔جنرل(ر) پرویز مشرف سے کیا سلوک کیا جائے؟اِس موضوع پر خواجگان کی رائے کوئی ڈھکی چھُپی نہیں۔ اب میں سیاست سے ہٹ کر تھوڑا سا عِلم نجوم کی طرف آتا ہُوں"Zodiac Sign" بُرج کے حساب سے میاں نواز شریف"Capricorn" (جدی) ہیں اور جناب آصف زرداری اور جنرل پرویز مشرف دونوں"Leo" (شیر) ستمبر 2006ء میں، مَیں لندن میں تھا جب میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف وہاں جلا وطنی کی زندگی گُزار رہے تھے۔ ایک دِن مسلم لیگ ن (سندھ) کے راہنما سیّد غوث علی شاہ مجھے میاں صاحب سے مِلوانے اُن کے سیکڑیٹریٹ لے گئے۔ باتوں باتوں میں میاں نواز شریف نے مُجھ سے پوچھا’’اثر چوہان صاحب! آپ پاکستان کے حالات کو کِس طرح دیکھ رہے ہیں؟‘‘۔مَیںنے عرض کِیا میاں صاحب!ذوالفقار علی بھٹو"Capricorn" تھے اور جنرل ضیاء الحق"Leo" جنرل صاحب نے بھٹو صاحب کو پھانسی دِلوادی اور وہ خود بھی غیر طبعی موت مارے گئے۔ جنرل پرویز مشرف نے آپ کو جِلا وطن کِیا۔میرا اندازہ ہے کہ وہ بھی جلا وطن ہوں گے۔ میاں صاحب نے مجھ سے پوچھا ’’کیا آپ نجومی ہیں؟‘‘مَیں نے کہا کہ نہیں۔ یہ میرا جٹکا حساب ہے۔ مَیں پاکستان آیا تو اِسی گفتگو کی بنیاد پر ’’روزنامہ آج کل‘‘ میں میرا کالم ’’جٹکا حساب‘‘ کے عنوان سے شائع ہُوا۔
تو معزز قارئین! وزیرِ اعظم نوز شریف اور سابق صدر زرداری میں"One on One" ملاقات میں کیا کیا باتیں ہُوئی ہیں؟مجھے اُن کے بارے میں اِتنا ہی عِلم ہے کہ جتنا آپ کو ہے۔ میرا ’’جٹکا حساب‘‘ مجھے کچھ نہیں بتا رہا تو مَیں آپ کو کیا بتائوں؟ ۔میرے جٹکے حساب سے جنرل (ر) پرویز مشرف جِلا وطن تو ہو گئے تھے۔ پھر وہ واپس آگئے تو میرا کیا قصورہے؟۔جنگ بندی ختم کرنے کے اعلان کے بعد اب طالبان کتنے فوجی افسروں /اہلکاروں اور معصوم اور بے گناہ پاکستانیوں کو قتل کریں گے؟۔ میرا جٹکا حساب تو ہر معاملے میں فیل ہو گیا!۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024