مَیں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ ’’شیخ اُلاسلام‘‘ علّامہ طاہر اُلقادری نے ’’چھولے دے کر‘‘ وکالت کا امتحان پاس کِیا تھا۔ اِس لئے کہ پاکستان کے نامور قانون دان بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن خود اپنی زبان سے یہ بات تسلیم کر چکے ہیں کہ ’’طاہراُلقادری میرے شاگرد رہ چُکے ہیں‘ تو معزز قارئین و قارِیات! علّامہ القادری قانون سے اپنی کم عِلمی یا عدم واقفیت سے دوسری بار اپنے اُستاد بیرسٹر اعتزاز احسن کی بدنامی کا باعث بن گئے ہیں۔ القادری صاحب پہلی بار فروری 2013 ء میں الیکشن کمِشن آف پاکستان کو تحلیل کرانے کے لئے خود ہی مُدّعی اور خود ہی وکیل بن کر سپریم کورٹ میں پیش ہُوئے لیکن مقدّمہ ہار گئے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور اُن کے دو ساتھی ججوں نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ ’’طاہراُلقادری خود کو نیک نیّت ثابت نہیں کر سکے‘‘۔
اور دوسری بار القادری صاحب کی ہار میں معاملہ نیک نِیّتی یا بدنِیّتی کا نہیں بلکہ قانون سے عدم واقفیت کا تھا۔ 14 ستمبر کو اپنے دھرنے سے خطاب کرتے ہُوئے علّامہ القادری نے اپنے پَیروکاروں کو ہدایت کی کہ ’’کرنسی نوٹوں پر‘‘ ’’گو نواز گو‘‘ کا نعرہ لِکھا جائے‘‘۔ اُسی روز سٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا کہ جن ’’کرنسی نوٹوں پر کوئی سیاسی نعرہ لِکھا جائے گا اسے کوئی بھی بینک قبول نہیں کرے گا‘‘۔ اور اس کے ساتھ ہی سٹیٹ بینک نے پاکستان کے تمام بینکوں اور مالیاتی اداروں کو ہدایت کردی کہ وہ سیاسی نعروں والے کرنسی نوٹ قبول نہ کریں۔
15 ستمبر کو علّامہ طاہراُلقادری نے کرنسی نوٹوں پر سیاسی نعرہ لِکھنے کی مہم ختم کرنے کا اعلان کر دِیا اور کہا کہ ’’ریسرچ سے پتہ چلا کہ یہ مہم غیر قانونی ہے‘‘۔ حالانکہ اِس معاملے میں ریسرچ کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ لوئرکورٹ کا کوئی بھی عام وکیل یہ جانتا ہے کہ کرنسی نوٹ پر سیاسی نعرہ لِکھنا خلافِ قانون ہے۔طاہر اُلقادری کئی بار یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے کئی جج صاحبان اور سینئر وکلاء میرے شاگرد رہ چکے ہیں‘‘۔ پھر اس معاملے میں ریسرچ کرنے کی کیا تُک تھی؟ بہرحال ایک دن تک علّامہ القادری کے عقیدت مند دکانداروں، ریڑھی اور چھابے والوں خاص طور پر دہی بڑے والوں اور رکشہ ٹیکسی والوں کو ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرہ زدہ کرنسی نوٹ تھما کر اپنے ’’قائدِ انقلاب‘‘ کی ہدایت پر عمل کرتے رہے اور اب وہ کرنسی نوٹ ناکارہ اور ناقابلِ استعمال ہو گئے ہیں البتہ علّامہ القادری کے مریدوں اور عقیدت مندوں کے لئے اُن کو ایک یادگار حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ اسے علّامہ القادری کا ’’سِکّہ‘‘ کہا جاتا ہے جو چلتے ہی متروک ہوگیا۔
مُغل بادشاہ نصیر اُلّدین ہمایوں کو نظامؔ نامی سقّا نے دریا میں ڈوبنے سے بچایا تھا اُس کے احسان کے بدلے بادشاہ نے اُسے ایک دِن کے لئے اپنی جگہ تخت پر بٹھا دِیا تھا۔ نظامؔ سقاّ ہندوستان کی تاریخ میں ’’ایک دِن کا سلطان کہلایا‘‘۔ اُس دِن نظامؔ سقاّ کی مشک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے اور ہر ٹکڑے پر سونے کی ایک تار لگا کراُسے بطور سکہّ رائج کر دِیا گیا۔
کیا ہی اچھا ہو کہ علّامہ القادری عیداُلاضحی تک انتظار کرلیتے۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ عِیدین پر بچّوں کے کھیلنے کے لئے کچھ لوگ سو سے دس ہزار تک کے کرنسی نوٹ جاری کرتے ہیں جِن پر جلی حروف میں۔’’ عِیدمُبارک‘‘ لِکھا ہوتا ہے۔ یہ کرنسی نوٹ بازار میں نہیں چلتے ٗ ان سے صِرف بچّے ہی آپس میں تبادلہ کرتے ہیں۔علّامہ القادر ی اگر عِید اُلاضحی سے دو چار دِن پہلے بیشک اپنے کسی دوست کے پرنٹنگ پریس سے ’’عِید مبارک‘‘ والے کرنسی نوٹ چاہے ایک ملین کی تعداد میں چھپوا کر بچّوں میں تقسیم کرادیں۔ اور اُن پر ’’گونواز گو‘‘ کا نعرہ چھپوا دیں اوراس ساتھ ہی اپنی ایک خوبصورت تصویر بھی جس میں انہوں دونوں ہاتھ اوپر اٹھا رکھے ہوں۔ ممکن ہے کہ جب یہ بچّے جوان ہوں، وزیرِاعظم نواز شریف "Go" کے ساتھ "Went Gone" بھی ہو چُکے ہوں اور علّامہ صاحب کا ’’انقلاب‘‘ بھی تسلیم کر لِیا جائے؟۔
ایک دِن تک پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ’’گو نواز گو‘‘ والے کرنسی نوٹوں کا چرچا رہا۔ خود علّامہ القادری نے بھی اپنی جیب سے یا اپنے ساتھ کھڑے پاکستان عوامی تحریک کے اپنے کسی چھوٹے لیڈر کی جیب سے 50 روپے کا نعرہ زدہ نوٹ نکال کر دکھایا تو مجھے 35/30 سال پہلے کے سرگودھا کے صوفی رشید احمد المعروف ’’نوٹاں والی سرکار‘‘ یاد آ گئے۔ صوفی رشید احمد اپنے چند مریدوں کے ساتھ کوٹ فرید کے قریب سرگودھا کے بڑے قبرستان میں رہتے تھے۔ اُن کے گلے میں چھوٹے بڑے کرنسی نوٹوں کا ہار ہوتا تھا جو اُن کا کوئی نہ کوئی عقیدت مند پہنا دِیا کرتا تھا۔ صوفی رشید احمد مجذّوب نہیں تھے لیکن اپنے عقیدت مندوں کو گالِیاں بہت دیتے تھے اور عقیدت مند اُن گالِیوں کو دُعائیں سمجھ کر خُوش ہوتے تھے۔ گالِیوں کا "Period" ختم ہو تا تو صوفی رشید احمد اپنے عقیدت مندوں کو حکمت کی باتیں بتاتے اور عام لوگوں سے بھلائی کرنے کی تلقین بھی کرتے تھے۔
علّامہ القادری بھی مجذّوب نہیں ہیں ٗ سالِک بلکہ ’’چالِک‘‘ (چالاک) ہیں، اِس لئے کہ موصوف پاکستان عوامی تحریک کے لیڈروں ٗ کارکنوں اور اپنے عقیدت مندوں کو گالیاں ہر گز نہیں دیتے۔ صِرف حکمرانانِ وقت اور مخالفینِ سیاست کو گالِیاں نکالتے ہیں۔ صوفی رشید احمد جب اپنے مریدوں کو گالِیاں دیتے تھے تو اُن کے جِسم میں علّامہ القادری کی طرح بجلی کا کرنٹ نہیں دوڑتا تھا اور نہ ہی اُن کے مُنہ سے جھاگ یا تھُوک نکلتا تھا۔ علّامہ صاحب کے پاس اپنے مُنہ سے نکلنے والے جھاگ یا تھُوک کو صاف کرنے کے لئے کینیڈین ساخت کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں خوبصورت رومال ہیں جنہیں استعمال کے بعد اُن کے عقیدت مند آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔
صوفی رشید احمد ’’پانی پَتّ‘‘ کے مہاجر تھے جہاں بادشاہت کے دَور میں کئی لڑائیوں کے بعد دِلّی کے تاج و تخت کے حق دار کا فیصلہ ہوتا تھا۔ علّامہ القادری دوسری بار اسلام آباد کے ڈی چوک/شاہراہِ دستور کو ’’پانی پتّ کا میدانِ جنگ‘‘ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ صوفی رشید احمد کے پاس صِرف پاکستان کی شہریت تھی ٗ کینیڈا ٗ برطانیہ یا کسی اور مُلک کی نہیں اور نہ ہی انہوں نے کوئی تعلیمی ٗ تبلیغی یا دینی ادارہ ٗ سکول ٗ کالج یا یونیورسٹی بنائی تھی۔ کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے یا اپنی جماعت بنا کر انقلاب لانے کا تو اُن کے پاس وقت ہی نہیں تھا۔ صوفی صاحب سادہ کپڑے پہنتے تھے۔ اُن کی خوراک بھی سادہ تھی۔ قبرستان میں رہتے تھے لیکن انہوں نے اپنی گفتگو یا مریدوں پر گالِیوں کی بوچھاڑ کرتے ہُوئے بازار سے کفن خرید کر کبھی نہیںلہرایا تھا۔
صوفی صاحب ’’ نوٹاں والی سرکار‘‘ تو کہلاتے تھے لیکن انہیں نوٹ جمع کرنے کا شوق نہیں تھا۔ اُن کا کوئی مسلّح سکیورٹی گارڈ نہیں تھا۔ اُس دَور میں چھوٹے بڑے پِیر صاحبان بُلٹ پرُوف کاریں اور کنٹینرز خریدنے کی استطاعت بھی نہیںرکھتے تھے۔ مُلک میں فوجی حکومت ہے یا جمہوری۔ ’’نوٹاں والی سرکار‘‘ کو اس سے کوئی دِلچسپی نہیں تھی اور نہ ہی انہوں نے اپنے کسی مرید کو اس طرح کی ہدایت کی کہ کرنسی نوٹوں پر ’’گو فلاں گو!‘‘ کا نعرہ لِکھ کر مجھے ان نوٹوں کا ہار پہنائو‘‘۔ وہ تو بھلا ہو سٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہ اس نے بروقت اعلان کر دِیا کہ ’’سیاسی نعرے والے کرنسی نوٹ ناقابلِ استعمال اور غیر قانونی ہوں گے۔ بہر حال مجھے خدشہ ہے کہ کبھی نہ کبھی علّامہ القادری کا ’’اِنقلاب‘‘ کرنسی نوٹوں پر لِکھے گئے ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے سے پہچانا جائے گا اور خدانخواستہ اگر انہیں اقتدار مِل گیا تو وہ پاکستان کے کرنسی نوٹوں پر قائدِاعظم کی جگہ اپنی تصویر اپنی تصویر چھپوا لیں گے اور خُود ’’نوٹاں والی سرکار 2 نمبر!‘‘ کہلائیں گے؟۔
اسرائیلی جہاز پر اگر کوئی پاکستانی موجود ہے تو اسے برادرانہ ...
Apr 15, 2024 | 14:30