ماضی میں آمریت اور فوج کی سیاست میں مداخلت پڑھتے سنتے رہے۔ عوام اور میڈیا اس کی بھرپور مذمت بھی کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن موجودہ حالات میں حکومت خود ہر لگے داغ و الزامات کا کسی طور پر دفاع نہیں کر پا رہی اور چاہتی ہے کہ کسی طرح فوج مداخلت کرے تاکہ حکومت کو سیاسی شہادت نصیب ہو سکے۔ سیاسی خودکشی تو کر چکے اب فوج کے ہاتھوں سیاسی شہید ہونے کے تمام حربے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن میں سوائے مراعات یافتہ طبقہ کے باقی سب فوج مخالف حکومتی پالیسی کے خلاف ہیں۔ فوج کے ترجمان کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ موجودہ آرمی چیف جمہوریت کو سپورٹ کرتے ہیں۔ فوج حکومت کے ماتحت ہے۔ لیکن حکومتی تیور بتا رہے ہیں کہ حکومت اب ”روند مار رہی ہے“ کہ ملک میں انتشار اور افراتفری کا ماحول پیدا کیا جائے۔ عدالتیں بھی فرد جرم عائد کرنے کی حیثیت میں نہ رہیں عدالت میں ہنگامہ آرائی، عدلیہ اور فوج کے خلاف پروپیگنڈہ سے حکومتی عزائم واضح ہیں۔ شاہد خاقان عباسی اور شہباز شریف جیسے مخلص ساتھی میاں صاحب کو بتا رہے ہیں کہ پنجاب ترکی نہیں جو ٹینکوں کے سامنے لیٹ جائیں اور نہ موجودہ آرمی چیف بغاوت کرانا چاہتے ہیں۔ پھر جھگڑا کیوں اور کس سے؟ ایک مرتبہ میاں نواز شریف نے خود کہا تھا کہ مجھے معلوم ہے ”قدم بڑھاﺅ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں“ لیکن پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا۔ مشرف کا دور آخری تھا۔ اس کے بعد تیسرا جرنیل آ گیا۔ فوج نے بھی ٹھان لی ہے کہ جو ہو گا دیکھا جائے گا لیکن نواز حکومت کو سیاسی شہید بننے کا موقع نہیں دیں گے۔ فوج حکومت کے غیر آئینی عزائم پورے نہیں ہونے دے گی۔ ڈان لیکس پانامہ لیکس بے گناہ شریف خاندان کے خلاف فوج کی سازش ہے؟ جمہوریت کے خلاف فوجی سازش سے متعلق سنتے پڑھتے تھے۔ لیکن موجودہ جمہوریت کی فوج کے خلاف سازش آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ کمزوریاں جب منظر عام پر آ جائیں تو سیاسی ساکھ بچانے کے لئے ”سیاسی روند“ مارنا پڑتا ہے۔ فوج کے خلاف سازش کا پراپیگنڈہ خود حکومت کے لئے مسائل کا باعث بن رہا ہے۔ یہ جمہوریت نہیں ایک خاندان کے بقا کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ مشیر ان و وزیران پہلے جدہ بزنس کلاس مفت ٹکٹ اور سیر سپاٹے انجوائے کرتے رہے پھر لندن کے مزے اٹھاتے رہے اب پھر لندن بلاوے شروع ہو گئے ہیں۔ ویسے بھی سیاسی دباﺅ کی وجہ سے میاں صاحب نے بھی بستر سنبھال لیا ہے۔ وزرا مشیر رابطہ کمیٹی چلا رہے ہیں۔ لندن کی جائیدادوں کا معاملہ پاکستانی عدالت میں آزمائش بنا ہوا ہے تو انگلینڈ سے بھی بری خبریں موصول ہو رہی ہے۔ برطانوی نئے قانون کے مطابق جس جائیداد کا دس سالہ پرانا ریکارڈ پیش نہ کیا جا سکا وہ جائیداد برطانوی حکومت ضبط کر لے گی۔ اس ضمن میں برطانوی اخبار میں شریف فیملی کے بیش بہا فلیٹس کا بھی ذکر کیا گیا۔ فوج اور جمہوریت آمنے سامنے نہیں بلکہ شریف فیملی فوج کے کبھی آمنے اور کبھی سامنے ہے۔ الطاف بھائی کی طرح لندن سے رابطہ کمیٹی چلا رہے ہیں۔ وزیروں مشیروں کے مفت سیر سپاٹے لگے رہیں گے۔ یہ وزیر مشیر ادھر فوج سے یارانہ ادھر نواز شریف سے مفادات۔ سیاسی شہید ہونے پر کام ہو رہا ہے۔ دیکھیں کون جیتتا ہے۔ فوج کا معیشت پر بات کرنا بھی حکومت کو مارشل لاءدکھائی دیتا ہے۔ معیشت اور سکیورٹی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ خورشید شاہ بھی جمہوریت علمبردار ہیں۔ انہوں نے بھی فوج کے معیشت پر تشویش کی حمایت کی۔ احسن اقبال کچھ زیادہ ابل رہے ہیں۔ آج کل نیو یارک آئے ہوئے ہیں۔ فوج نے بیان واپس نہیں لیا بلکہ اس سے بھی کڑک جواب دیا کہ جمہوریت کو فوج سے نہیں بلکہ عوام کے مطالبات پورے نہ کرنے سے خطرہ ہے۔ احسن اقبال کہتے ہیں کہ فوج اور حکومت میں غلط فہمی کے ذمہ دار عمران خان ہیں۔ اگر ایسا ہے تو عمران خان حکومت سے زیادہ مضبوط ثابت ہوئے جنہوں نے فوج کو آگے لگا لیا؟ یہ بیچاری بے بس کمزور حکومت پھر اسلام آباد کیا کر رہی ہے گھر جائے۔ میاں نواز شریف کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ اداروں سے محاذ آرائی میں ان کی جماعت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ جلاوطنی کا دور یاد رکھیں۔ فوجی طاقت کے سامنے کئی معاہدے نہ چاہتے ہوئے بھی کرنا پڑتے ہیں۔ ملک ہے تو اقتدار کی امید رکھی جا سکتی ہے۔ ملک کو انتشار سے بچانے کی کوشش کی جائے۔ سیاسی خودکشی تو کر چکے البتہ سیاسی شہید ہونے سے بچا جائے۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024